افغان امن کونسل کا دورہ پاکستان اور طالبان کی رہائی

پاکستان قدرت خدا وندی کا ایک ایسا حسین تحفہ ہے کہ جس پر اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے پاکستان جنوبی ایشیاءاور وسیع ایشیا ءکے سنگم پر واقع ہے قدرتی طور پر پورے خطے کے لئے ایک راہ داری فراہم کرنے سمیت تمام ممالک کو اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون فراہم کرنے میں بڑا ہم کردار ادا کرسکتا ہے خطے کی ترقی کا تمام تر دارومدار بھی پاکستان پر بنتا ہے مگردہشت گردی پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل سب سے بڑ رکاوٹ ہے اور اسی خوف سے پاکستان کا بزنس مین طبقہ ملک سے فرار ہو رہا ہے سینٹ میں پیش کی گئی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ پانچ سالوں کے دوران 260 کمپنیاں بنگلہ دیش شفٹ ہوچکی ہیں جن کا پاکستانی حکومت کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے جبکہ حکومتی ریکارڈ کے مطابق صرف چار ٹیکسٹائل ملوں نے 2 کروڑ 92 لاکھ امریکی ڈالر کی بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان سے اربوں ڈالرنکال کر سرمایہ دار بیرون ممالک جاچکے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی معیشت ڈگمگا رہی ہے ۔اور اس سب تباہی کے پیچھے جہاں ملک کے اندرونی حالات ہیں وہاں پر کچھ بیرونی دہشت گردی بھی جس کے پیچھے ہمیشہ طالبان کا نام ہی استعمال ہوتا تھا جس کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات بھی کافی حد تک کشیدہ رہے اور گذشتہ روز افغان ا من کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی کی قیادت میں افغان وفد نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا دورے کے دوران پاکستان اور افغانستان کی بات چیت میں اہم پیشرفت ہوئی ہے۔ صلاح الدین ربانی نے پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں افغان امن عمل کو کامیاب بنانے کیلئے پاکستان نے اپنے ملک میں قید بعض طالبان راہنماﺅں کو رہا کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے جبکہ افغانستان اور امریکہ مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کیلئے مذاکرات کاروں کو محفوظ راستہ دیں گے اور ان کے نام اقوام متحدہ کی پابندی والی فہرست سے بھی ہٹانے جائیں گے پاکستان اور افغانستان میں طالبان اور دیگر متحارب گروپوں سے افغان مفاہمتی عمل میں حصہ لینے اور ہتھیار پھینکنے اور طالبان سے القاعدہ اور دیگر نیٹ ورکس سے تعلق ختم کرنے کا بھی کہا جائے گا ا ور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اہم طالبان راہنماءافغان حکومت اور طالبان کے درمیان افغانستان میں پائیدار امن کیلئے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک افغان اہلکار نے اس بھی امید کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے طالبان قیدیوں کی رہائی سے طالبان اور افغانستان کے درمیان براہ راست بات چیت میں مدد ملے گی اور یہ طالبان راہنماءافغان امن عمل میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

اس عمل کی کامیابی سے پاکستان اور افغانستان میں ایک دوسرے کیخلاف جوسخت بیانات اور الزام تراشیاں کا سلسلہ جاری تھا وہ بھی رک جائے گا اوردونوں ممالک کی سرحد پر گولہ باری اور دراندازی کیخلاف دو طرفہ میکنزم بھی بن جائے گا طالبان قیدیوں کی رہائی امن کوششوں کیلئے پاکستان کی طرف سے اہم پیغام ہوگا تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان طالبان قیدیوں کو کب رہا کررہا ہے تاہم پاکستان نے ملا عمر کے بھائی ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا مگر طالبان حکام کا خیال ہے کہ ملا عبدالغنی برادر افغان امن عمل میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں اور انہیں طالبان کے اندر عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جبکہ افغانستان کی جانب سے طالبان کے سابق وزیر انصاف ملا نورالدین ترابی‘ ملا عمر کے سابق سیکرٹری ملا جہانگیروال اور سابق نائب وزیر اللہ داد طیب کی رہائی کی درخواست کی گئی ہے پاکستان میں قید جن راہنماﺅں کو رہا کیا جائے ان کی طالبان میں حیثیت پالیسی سازوں کی ہے اورابھی تک پاکستان نے جن طالبان کمانڈرز کی رہائی پر رضامندی کا اظہار کیا ہے ان کی تعداد 12 سے کم ہے اور ان میں ملا عبدالغنی برادر شامل نہیں ہیں ۔

امریکا عراق اور افغانستان کی جنگوں کی وجہ سے معاشی طور پر کنگال ہوچکا ہے جبکہ سینڈی طوفان اس کی معیشت کو بھی اپنے ساتھ بہاکر لے گیا ہے جس کے بعد اب معاشی دیوالیہ پن کا شکار امریکہ افغانستان سے بھاگ نکلنے کی تیاریوں میں مصروف ہے امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد خطے میں جو صورتحال پیدا ہوگی اس سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے تمام سیاسی و جمہوری قوتوں کو مل بیٹھ کر روڈ میپ بنانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر امریکی تباہی کے اثرات پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر محسوس کئے جاسکیں گے اور پہلے ہی سے سیاسی عدم استحکام ‘ دہشت گردی اور معاشی بربادی سے دوچار پاکستان کیلئے خود کو ان اثرات سے محفوظ رکھنا مشکل ہوجائے گا اسلئے سیاسی و جمہوری قوتیں اپنی اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد بسانے کی بجائے قومی وحدت کو فروغ دیں اور یکجا و متحدہ ہوکر اس آنے والے خطرے کیلئے قوم کو تیار کریں۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 795 Articles with 516913 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.