حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی عثمانیؒ ....ایک عہد ساز شخصیت

حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی عثمانیؒ اپنے عہد کی نابغہ روزگار شخصیت تھے،انہوں نے اپنے تصوف اور سماجی مقبولیت سے آزاد کشمیر، سرکل بکوٹ اور کوہ مری کے ہمعصروں اور پیروجواں پر خصوصی سماجی و دینی اثر ڈالااور ان کی انفرادی و اجتماعی رہبری و رہنمائی کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔

حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی عثمانیؒ کے بزرگ کنڈاں شکریاں ضلع چکارآزاد کشمیر میں انیسویں صدی کے پہلے عشرے میں خاکی مانسہرہ سے تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلے میں منتقل ہوئے۔1820-30ءکے درمیان حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی عثمانیؒ کی ولادت ہوئی ،ان کے والد مولانا حافظ تاج محمد عثمانیؒ اپنے وقت کے ایک مذہبی اور روحانی پیشوا تھے ،ان کے پڑنواسے قاضی امان اللہ کا بیان ہے کہ انہوں نے بلوچ قبیلہ کی ایک خاتون سے شادی کی جن سے حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی عثمانیؒ، ان کے بھائی حضرت پیر سید نور محمد عثمانیؒ اور عبدالطیف عثمانیؒ کے علاوہ چھ ہمشیرگان بھی متولد ہوئیں،آپ کا پورا خاندان بچپن میں ہی یتیم ہو گیا اور آپ اپنے بہن بھائیوں سمیت اپنی بڑی ہمشیرہ بیگم جان کے پاس پجہ شریف، چکار آزاد کشمیر منتقل ہو گئے جہاں ان کے بہنوئی قاضی غلام محمد نے ان کی کفالت کی۔انہوں نے ہی ان کی پانچ ہمشیرگان کے ہاتھ بھی پیلے کئے اور حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی عثمانیؒ خود بھی بیروٹ، بکوٹ،اسلام آباد(چکار) اور پجہ شریف سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے،پجہ شریف میں ان کی اہلیہ گل نقشہ بیگمسے دو صاحبزادگان اور ایک دختر متولد ہوئیں ، صاحبزادگان چند ماہ کے بعد انتقال کر گئے جبکہ صاحبزادی ریشم جان پجہ شریف کے قاضی محمد اسحاق کی زوجیت میں آئیں اور 1941ءمیں وفات پائی، ان کی ایک اور صاحبزادی راحت نوربیروٹ کی زوجہ محترمہ ستر جان سے بھی تھی جو بعد میں پوٹھہ شریف کے ڈاکٹر عبدالخالق منہاس کی زوجیت میں آئیں،1942ءمیں وہاں ہی ان کا انتقال ہوااور حضرت پیر ملک سراج خانؒ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی عثمانیؒ کا موجودہ آستانہ ان کے دو صاحبزادگان حضرت پیر حقیقاللہ بکوٹی عثمانیؒ اور حضرت پیر عتیق اللہ بکوٹی عثمانیؒ کے فیض کا مرہون منت ہے، دونوں صاحبزادگان با کرداروبا عمل صوفی اور دیوبند جیسی عظیم اسلامی درسگاہ کے فارغ التحصیل علمائے حق تھے، حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹی عثمانیؒ عین عالم شباب میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تا ہم حضرت پیر عتیق اللہ بکوٹی عثمانیؒ نے بھر پورعہد رقم کیا جس میں پیغام حضرت پیر فقیر اللہ بکوٹی عثمانیؒ کی نشرواشاعت اور سرکل بکوٹ کی سیاست میں قائدانہ کردار شامل ہے، وہ سرکل بکوٹ سے سرحد (خیبر پختونخوا) قانون ساز اسمبلی کے پہلے رکن بھی تھے، انہوں نے آئین پاکستان میں ترمیم بھی پیش کی جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔اس سے قبل 1946ءمیں انہوں نے تحریک آزادی کشمیر کو مہمیز دینے کیلئے انجمن مجاہدین کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی اور للال شریف بکوٹ کو مجاہدین کیلئے ایک بیس کیمپ بھی بنایا، حضرت پیر عتیقاللہ بکوٹی عثمانیؒ پر 1967ءمیں فالج کا حملہ ہوا اور 1968ءمیں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

ہری سنگھ نلوہ ایک خونخوار ڈوگرا جرنیل تھا جس نے پجہ شریف کو بھی ان کی آنکھوں کے سامنے روند ڈالا اس پر آپ خاکی مانسہرہ ہجرت پر مجبور ہوئےوہاں سے وہ حضرت پیر عبدالغفور سواتی عرف اخوند صاحبؒ کی سوات کی روح پرور فضاﺅں میں منتقل ہوئے جہاں انہوں نے 20 سالسے زیادہ عرصہ مجاہدات، عبادات، پاکیزگی اور سکھوں کے خلاف جہاد میں گزارا۔ انہوں نے اپنے مرشد پیر اخوند صاحبؒکے ساتھ کئی جہادی معرکوں میں بھی حصہ لیا.جہاں سے وہ کرداروعمل اور کرامات میں کامل ہو کر 1876ءمیں ناقصوں کیلئے پیر کامل اور کاملوں کیلئے رہنما بن کر اپنے وطن واپس لوٹے۔حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی عثمانیؒ نے سیمابی طبیعت پائی تھی، کشمیر، سرکل بکوٹ، کو مری، پوٹھوہار اوربقیہ ہند میں وہ نقل و حرکت کرتے رہتے تھے، ان کی زندگی کا مقصد اوّلین قیام صلوٰة جُمعہ تھا، 1873ءمیں آپ نے فتویٰ دیا کہ اگر تین آدمی موجود ہوں اور جمعہ کا وقت ہو جائے تو ان میں سے ایک امام اور دوسرے دو مقتدی بن جائیں اور نماز جمعہ ادا کر لیں۔انہوں نے پوٹھہ شریف میں اسی سال رمضان المبارک کے پہلے جمعہ سے نماز جمعہ کا پہلی بار اجراءکیالیکن یہ بات بڑی عجیب ہے کہ صلوٰة جمعہ کے اجراءاور مساجد کے قیام کے سب سے بڑے نقیب ہونے کے باوجود حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی عثمانیؒ نے چھپڑیاں کی اس مسجد کو آباد کیا نہ ہی وہاں نماز جمعہ کا ہی اجراءکیا جہاں آپ کے والد گرامیؒ نے آپ کو قرآنی ابجد کی تعلیم دی تھی، آپ اپنے مرض الموت تک پجہ شریف میں رہے، وہاں مسجد تعمیر کرائی، نماز جمعہ کا اجراءبھی کیا مگر ڈیڑھ کلو میٹر مغرب میں چھپڑیاں کی یہ مسجد ان کی راہ تکتی رہی، آج کل یہ مسجد کھنڈر بنی ہوئی ہے اور چند گز کے فاصلے پر آپ کے والدین کا مزار بھی ہے جہاں تک صاحبزادہ ازہر بکوٹی عثمانی نے حکومت آزاد کشمیر سے سڑک بھی بنوائی ہے۔

حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی عثمانیؒ سترھویں صدی کے بزرگ حضرت پیر ملک سراج خانؒ آف پوٹھہ شریف مری کے بعد کوہسار کی سب سے بڑی دینی و روحانی شخصیت ہیں، انہوں نے ہر طرف سے مایوس کوہسار کے لوگوں کا ہاتھ تھاما، انہیں روحانیات کا انقلاب آفریں پیغام سرمدی سے سرشار کیا،انہوں نے اپنے کردار و عمل سے اپنے مریدین بلکہ اس وقت کے غیر مسلموں کو بھی وہ نمونہ پیش کیا کہ آج نو عشرے گزرنے کے باوجود کشمیر، سرکل بکوٹ اور کو مری کا ہر شخص انہیں اپنا محسن گردانتا ہے،حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی عثمانیؒ نے روحانیات اور علم و فضل کا اپنا ایک حلقہ قائم کیا جہاں آنے والا ہر مسلم و غیر مسلم روحانی فیض کے علاوہ علم اور اپنے مقصد وحید کی تکمیل بھی پاتا تھا، نوے سال بعد بکوٹی عثمانیؒ مکتب فکر کا یہ سرچشمہ فیض جاری و ساری ہے۔
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 59270 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More