حوا کی بیٹی۔۔۔کردار کے دو رخ اور میڈیا کی ذمہ داری

مسلم معاشرے میں حوا کی بیٹی کو ایک خاص مقام حاصل ہے،باضمیر طبقہ ہر خاص و عام خواتین کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ان کے تقدس کا احترام کرتا ہے۔مگر افسوس کہ خواتین کا ایک گروہ اپنے تقدس کی جان بوجھ کر پامالی کر رہا ہے،مغربی تہذب کا گرویدہ یہ گروہ اپنی نسلوں کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔یہ ضمیر فروش طبقہ مغربی روایات کو طول دینے کے لیے جو فیشن اپناےَ ہوےَ ہے وہ اسلامی اقدار کے منافی ہے،اور فیشن کی انتہا آنے والی نسلوں کو اسلام اور دینی تعلیمات سے بہت دور لے جا رہی ہے۔خواتین کا برہنہ لباس جو کہ جسم پر براےَ نام ہوتا ہے وہ کمزور ایمان والے مرد وں حتیٰ کہ بچوں کو کھلے عام دعوت گناہ دے رہا ہوتا ہے جس سے ہمارا نوجوان طبقہ رفتہ رفتہ گناہ کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔آپ پنجابی فلموں اور اسٹیج ڈراموں کی ہی مثال لے سکتے ہیں جن میں نازیبا جملوں اور فحش رقص کی بھرمار ہے،اسٹیج کے بھانڈ انتہائیَ غلیط زبان کا استعمال اور فحش ڈانس کر کے دیکھنے والوں پر غلط تاثر پیدا کرتے ہیں،آج ہر تیسرے گھر میں کیبل،انٹرنیٹ اور ٹیلیوژن کی سہولت موجود ہے اور معزز گھرانے کی خواتین بھی اس گھٹیا کلچر کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں جو کہ ایک المیہ ہے۔مغربی کلچر کی وجہ سے آج خواتین جگہ جگہ اپنی عصمتوں کو تار تار کر رہی ہیں،فحاشی کے اڈے اور قبحہ خانوں کی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھر مار ہے جو کہ اسلامی ملک کے حکمرانوں اور نام نہاد علماےَ دین کے منہ پر تاریخ کا ذلت آمیز طماچہ ہے۔ پنجاب کے چمپیینَ اور خادم اعلیٰ مسٹر میاں شہباز شریف کو اسٹیج کی وہ فحش رقاصائیں نظر کیوں نہیں آتیں جو کھولے عام دعوت گناہ رہی ہیں اور اسلامی شعار کی تذلیل کر رہی ہیں۔صوفیاےَ کرام کی سرزمین پنجاب میں فحاشی اور تقدس کی پامالی کا یہ گھناوَنا کھیل پنجاب کے ہر با ضمیر گھرانے کے لیے کھلا چیلنج ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کے خواتین نے اپنی مثبت سوچ وفکر اور بلند حوصلے کے باعث ملکی ترقی میں اہم کردار بھی ادا کیےَ ہیں۔ ملالہ یوسفزئی ،محترمہ بینظیر بھٹو،فاطمہ جناح،ارفع کریم رندھاوا،نسیم حمید، رعنا لیاقت علی خان سمیت بہت خواتین ایسی ہیں جنھوں نے ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور ملک و قوم کے عزت و وقار میں اضافہ کیا۔کمسن مائیکرو سوفٹ انجنیرَارفع کریم نے انتہایَ کم عمری میں پاکستان کا نام روشن کر کے ملک و قوم کا سر فحر سے بلند کیا ،ارفع کریم آج ہم میں نہیں ہے مگر تاریخ کے سنہری باب میں اس کا نام رقم ہو چکا ہے اور وہ امر ہو چکی ہے۔حال ہی میں طالبان کی دہشتگردی کا بننے والی ملالہ یوسفزئی جس نے محض چودہ سال کی کم عمری میں علم کی شمع روشن کی اور ستارہ جرات و امن پرائز حاصل کیا،فخر پاکستان ملالہ نے طالبان کے سامنے سینہ تان کے طالبات کو علم کے نور سے منور کروایا،مگر طالبان نے ملالہ جیسی معصوم پھول کو کچلنے سے گریز نہ کیا۔خدا غارت کرے ان ظالموں کو جو گلشن کے اس پھول کو کچلنا چاہتے ہیں۔ اللہ پاک ملالہ یوسفزئی کو صحت، ہمت و حوصلہ عطا فرمائے،آمین۔ پاکستان میں ہزاروں خواتین اس وقت بھی ملکی ترقی میں برابر کی شریک ہیں اور کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کی خوآں ہیں۔ہر شعبے میں کامیابی کے حصول کے لیے بیقرار خواتین پاکستان کا قومی سر ما یہ ہیں،ملکی ترقی میں خواتین کا مثبت کردار انتہایَ اہمیت کا حامل ہے جس سے ترقی پذیر ممالک میں ہمارا سر فخر سے بلند ہو تا ہے۔

ایک طرف خواتین ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی نظر آ رہی ہیں جو کہ انتہائیَ احسن اقدام ہے،مگر دوسری طرف وہ خواتین جو ملکی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں ان کو لگام کون دے گا؟یہاں ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کواس طرح کے اقدام پر روک تھام کرنی چاہے،ان سفید پوش لوگوں میں چند حکمران ایسے بھی ہیں جو خود اس طرح کے ناپاک عزائم میں شامل ہیں ۔یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ انٹرنیشنل لیول پر فحاشی اور بے حیایَ کے کاروبار میں دو خواتین لیڈرز بھی ہیں جن میں پہلی خاتون فرزانہ بنگش جو صدر پاکستان آصف علی زرداری کی پولیٹیکل سیکرٹری بھی ہے،اور دوسرا نام شہزادہ کوثر گیلانی کا ہے جو کہ آزاد کشمیر کی سابقہ حکومت کا حصہ بھی رہ چکی ہے،آپ حیران ہو رہے ہوں گے مگر یہ سچ ہے اور ہمارے حکمران سب کچھ جانتے ہوے بھی انجان بنے ہیں کیونکہ وہ بھی مال کمانے میں برابر کے حصے دار جو ہیں۔بہت سے صحافی حضرات بھی جانتے ہیں لیکن نا جانے کیوں خاموش ہیں یا تو وہ ڈرتے ہیں یاان کا ضمیر سو چکا ہے،صرف یہ دو خواتین ہی نہیں بلکہ بہت سارے لوگ اس میں شامل ہیں جنہیں صرف تیسری آنکھ سے ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔بطور فیلڈ جرنلسٹ مجھے اس طرح کی براہیوں کو منظر عام پر لانے کے لیے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس طرح کے جرا ئم کو بے نقاب کرنے کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ برائیَ کا جڑ سے خاتمہ ہوسکے۔انتہایَ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا میڈیا اپنی حقیقی ذمہ داریوں غافل ہے وہ ہمارے معاشرے کو مزید گمراہ کر رہا ہے،ہر گھنٹے بعد اسے بھارتی اداکارایں اور اسکولوں،کالجوں،یونیورسٹیوں میں ناچنے اور نازیبا ڈانس دیکھانے کا وقت ہے مگر مقبوضہ کشمیر کی جامعات میں زبردستی بے حجاب کی جانے والی طالبات کی درد ناک چیخیں پاکستانی میڈیا کے لیے کسی اہمیت کی حامل کیوں نہیں ہیں؟

یہ حقیقت ہے کہ میڈیا برائی کی روک تھام کے لیے کام کر رہا ہے مگر جو با اثرلوگ ہیں ان کے خلاف آواز یوں نہیں اٹھاتا،کیا وہ ڈرتا ہے یا اس کی پالیسی میں امیروں اور بااثر افراد کوجرأم سے استعشنی ٰ حاصل ہے؟کیا پاکستانی میڈیا کو پنجابی اسٹیج ڈرامے نظر نہیں آتے جن میں اسٹیج اداکار نازیبا اور فحش جملوں کا تبادلہ کرتے ہیں جو ایک مہذب معاشرے میں قیام پذیر شرفاء کے لیے باعثِ عذاب سے کم نہیں ہے۔بحثیت قوم آپ کی بھی ذمہ داری بنتی ہیکہ اس طرح کے اقدامات کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔

خواتین کو اسلام نے تمام جائز حقوق عطا کیےَ ہیں،اسلام کے نفاذ سے قبل عورتوں کو زندہ دفنایا جاتا تھا لیکن ظہور اسلام کے بعد انھیں ایک خاص مقام عطا کیا گیا اور اس کی عزت و آبرو میں اضافہ ہوا،مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسلام خواتین کو چادر چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتا ہے۔اسلام خواتین کو جائز حقوق کی اجازت دیتا ہے نہ کہ اپنی جسمانی نمائش کی۔میڈیا کو اپنے اندر احساس پیدا کرنا ہو گاتاکہ معاشرے کی تباہیَ میں ملوث چھپے عناصر کو سامنے لایا جا سکے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ با اثر طبقہ جرم کرتا ہے تو پیسے کی طاقت سے دبا دیا جاتا ہے مگر جو لوگ سنگین یا معمولی جرائم میں سامنے آتے ہیں انکا تعلق متوسط یا غریب گھرانے سے ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس جرم چھپانے کے لیے رقم نہیں ہوتی کے وہ اپنے جرم پر پردہ ڈال سکیں ایسے وقت میں میڈیا کو احسن طریقہ سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہو گاتاکہ پس پردہ چھپے ا ن افراد کو بھی بے نقاب کیا جا سکے جو شرافت کی آڑ میں گھناونے کام کر رہے ہیں ۔میڈیا میں بعض ایسے اسکینڈلز بھی سامنے آےَ ہیں جن کے حقائق چھپاےَ گےَ ہیں ،فورٹ منرو اسکینڈل کی ہی مثال لے لیں جس میں حقائق جانے بغیر جانبدارانہ فیصلہ کیا گیاِ ،مانا کہ خواتین سے ذیادتی کی گیَ مگر کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ متاثرہ خواتین ایک ایسی جگہ جہاں جانے کا کوئی جواز نہیں بنتا وہاں کیا لینے گئی تھیں ،کیا ان کے گھر والوں کو اس بات کا علم تھا کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کرنے گئی ہیں؟ایک ایسے شخص کے ساتھ جس کا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا ؟کوہستان میں پیش آنیوالے واقعے میں پہلے حقائق جانے بغیر میڈیا میں یہ خبریں گردش کرتی نظر آئیں کہ پانچ خواتین کو شادی میں گانے اور رقص کرنے کے جرم میں جرگے نے قتل کرنے کا حکم دیا اور پھر یہ شور مچا یا گیا کہ مذکورہ خواتین کو قتل کر دیا گیا ہے لیکن جب حقائق سامنے آئے تو وہ خواتین زندہ تھیں اور اپنے گھروں میں با حفاظت موجود تھیں ۔ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ افواہ کو اپنی خبروں کا حصہ نہ بنایںَ اور کوئی بھی نیوز بریک کرنے سے پہلے تصویر کے دونوں رخ اچھی طرح معلوم کر یں تاکہ معاشرے میں منفی اثر نہ پڑے۔گزشتہ دنوں راقم نے بھی اپنی تیسری آنکھ سے ایک ایسے بے حیائی پر مبنی حقیقت کو دیکھا ہے جو ااسلام کے منافی اور معاشرے کے لیے ایک بدنما دھبہ ہے۔میں کراچی میں اپنی صحافتی سرانجام دے رہا تھا مجھے ایک صاحب کا ای میل موصول ہواکہ ان کی بیوی جو کہ تین بچوں کی ماں بھی ہے اس نے ایک با اثر آدمی کے ساتھ پیسوں اور عیاشی کے لیے نکاح کیا ہوا ہے جس کو بظاہر چھپایا جا رہا ہے ،وہ اسی آدمی کے ساتھ رہ رہی ہے اور اس آدمی نے میری بیوی کو بیوٹی پارلر بھی کھول کے دے رکھا ہے،جبکہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی اور عدالت میں خلع کا کیس چل رہا ہے آپ میڈیا میں ہیں اس آدمی کا ٹرائل کیجیے اور مجھے انصاف دلوایں۔راولپنڈی آنے کے بعد ہم نے تھوڑی کوشش کی تب پتہ چلا کہ کے اس آدمی کی نا صرف بیوی بلکہ ساس بھی دہرانکاح کر چکی تھی۔ محض عیاشی کی خاطر دہرے نکاح کا یہ گھناؤنا فعل شعار اسلام کا کھلم کھلا مذاق ہے،جبکہ آر۔اے۔بازار کے پولیس اہلکار وں نے سب جانتے ہوےَ پیسوں کی خاطر مجرمانہ عمل میں ملوث آصف نواز نامی آدمی کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور پیسے بٹورنے میں سرگرم عمل ہیں۔

ْقارئین کرام۔۔ایسے حالات میں جب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض سے غافل ہو جائیںَ تو میڈیا ہی واحد سہارا ہے جو ایسے جرائم اور بے حیائی کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے،مگر غیر جانبدار ی کا ہونا اولین ترجیع اور لازم و ملزوم ہے،میڈیا کو چا یئے کے وہ ایسے عناصر کو بے نقاب کرے جو سماج کے نام پر بدنما دھبہ ہیں۔ اگر اب بھی عوام کی جانب سے بے حیائی کے خلاف آواز بلند نہ کی گئی توآنے والی نسلیں اس آشوب زدہ ماحول کی بھینٹ چڑھ جایںَ گی،اور ہو سکتا ہے کہ اللہ نہ کرے اگلا شکار آپ یا میں بھی ہو سکتے ہیں ۔بروقت بے حیا ئی ،فحاشی اور تباہی کے طوفان پر قابو نہ پایا گیا تو کل کو ہمارے دلوں سے ماں ،باپ،بہن کی عزت و قدر بھی نکل جاےَ گی اور اس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔

ٓقارین کرام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔شکریہ
آخر میں
وجود زن سے ہے تصویر کاہنا ت میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
سید عمر اویس گردیزی
About the Author: سید عمر اویس گردیزی Read More Articles by سید عمر اویس گردیزی: 6 Articles with 5716 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.