منصف اعلیٰ

ہم نے گاڑی ریجنٹ پلازہ (کراچی) کے سامنے سروس روڈ پر پارک کی (اندر کی پارکننگ رش کی وجہ سے پوری فِل ہوچکی تھی) میں نے اپنے بیٹے کو آواز لگائی بیٹا لاک چیک کرلو اُس نے چاروں دروازوں کے ہینڈلز پر ہاتھ رکھے اور لاک چیک کرکے تسلی ہونے پر بولا All locked momاور تیز تیز قدموں سے پلازہ کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر میرے پاس پہنچ گیا پلازہ کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہمارے قدموں کے دروازے تک پہنچتے ہی خود کار بلند شیشے کے دروازے خودبخود کھل گئے اور تیز ہوا کے جھونکے کے ساتھ خوشگوار خنکی اور ٹھنڈک کے ساتھ مغلیہ طرز اختیار کئے دو باوردی چوکیداروں نے سلام کرتے ہوئے ہمارا استقبال کیا ہم نے اُس سے خورشید ہال کا پوچھا اُس نے ہاتھ سے بائیں جانب اشارہ کیا اور ہم سب ہال کی طرف بڑھ گئے یہاں بچوں کی ایک تقریب منعقد ہونا تھی جہاں میری بڑی بیٹی کو ایک تقریری مقابلے میں حصہ لینا تھا پروگرام بہت شاندار ہوا ننھے بچوں نے خوب گرماگرم اور مزایدار تقاریر کرکے ماحول کو گرما دیا کچھ لمحوں کو ایسا محسوس ہوا کہ واقعی پاکستان کے تمام مسائل کا حل موجود ہے اور اِس کا مستقل بھی بہت شاندار ہے کسی طرف کوئی لاقانونیت بھتہ خوری ٹارگٹ کلنک اور بم بلاسٹ کا وجود بے معنی ہے گاڑی تک واپس پہنچنے کے بعد گیٹ پر ہاتھ رکھتے ہی کچھ عجیب سا احساس ہوا ڈور ان لاکڈ تھے سیٹ پر بیٹھتے ہی سامنے دیکھا گاڑی کا اسٹیریوسیٹ غائب تھا پیچھے سے بچوں کی آواز آئی مما پیچھے کا شیشہ ٹوٹا ہوا ہے پلٹ کر دیکھا تو پیچھے سیٹ پر سائیڈ ونڈو کے ساتھ والے چھوٹے شیشے کی کرچیاں بکھری پڑی تھیں اور پچھلی ونڈاسکرین کے ساتھ جو کچھ تحائف پیک پڑے تھے جو کہ ہم نے یہاں سے واپسی پر اپنی ایک ماموں زاد بہن کو دینے تھے ( جس کی آج سالگرہ تھی) وہ بھی غائب تھے کافی شاکڈ سچوئشن تھی بحرحال کراچی کراچی ہے یار کا ورد کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے اور کہیں اور جانے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے گھر کی جانب روانہ ہوگئے رات میں ایک کزن کا فون آیا جو کہ نیو یارک میں رہتا تھا وہ میری بیٹی کی تقریرکے بارے میں جاننا چاہتا تھا کہ کیسی رہی کیا ہوا جب اُس نے سنا کہ ریجنٹ پلازہ کے سامنے سے ہماری گاڑی کا ٹیپ ریکارڈر اور اس کی بہن کی سالگرہ کے پیک تحائف وغیرہ گاڑی کا شیشہ توڑ کر چوری ہوچکے ہیں تو وہ اپنی پہلے کی گئی ایک بات پھر شدَومدَ کے ساتھ دہرانے لگا کہ اب آپ لوگ بھی امریکہ کا ویزا اپلائی کردیں لیگل پراسس ہونے میں بھی کافی ٹائم لگ جاتا ہے پاکستان میں رہ کر آپ اپنا اور اپنے بچوں دونوں کا مستقبل داﺅ پر لگارہی ہیں ایسا ہی ایک مسئلہ میری ایک رشتے دار خاتون کے ساتھ بھی در پیش ہوا جن کا ہونہار بیٹا ایف ایس سی میں نمایاں پرسنٹیج کے ساتھ کامیاب ہوا اور چونکہ اُس کے پاس پری میڈیکل تھا لہٰذا اب اُس کے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن کا مرحلہ درپیش تھا اِس کا داخلہ آغا خان میں میڈیکل یونیورسٹی اور ڈاﺅمیڈیکل یونیورسٹی دونوں میں ممکن تھا وہ سوچتی ہیں ذہین بچہ ہے مہنگا صحیح مگر آغاخان میڈیکل میں داخلہ کرا دوں یا ڈاﺅ میں کرایا تو کیا ہوگا؟ ہر قسم کا مافیا پارٹی بازی گروپ بندیاں تعلیم سے زیادہ گروپ سازی اور دیگر سرگرمیاں ہیں کلاسوں کی بے ترتیبی شہر کے بگڑتے حالات اور آئے دن کے بم دھماکے گھر واپسی تک جان سولی پر لٹکتی رہتی ہے ہڑتالوں کی وجہ سے تعلیم کا تسلسل اور معیار دونوں متاثر ہوتے ہیں پروفیسرز کا تبادلہ بھی ذاتی رنجش اور پسندو ناپسند پر مبنی ہوتا ہے جو جتنا زیادہ ایمان داری سے کام کرتا ہے وہ اتنا ہی پریشانی میں مبتلا رہتا ہے ان کا کہنا تھا کہ ذرا مشکل سے ہی سہی مگر وہ افورڈ کرسکتی ہیں تو کیوں نہ بیٹے کو میڈیکل کی تعلیم کےلئے باہر ہی بھیج دیں اب ٹین ایج سے تو نکل ہی گیا ہے اچھے برے کی تمیز بھی آگئی ہے نظروں سے دور رہے گا مگر مستقبل اور حال تو محفوظ رہے گا یہ بات بھی شاید صحیح ہو کہ ایک بار امریکہ چلا گیا تو کبھی وآپس بھی نہ آئے گا مگر بات یہ ہے کہ ہم نے کتنے عرصے زندہ رہنا ہے اب پاکستان کے حالات تو خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں امریکہ پہنچ کر وہ امن و امان سے یکسوئی کے ساتھ تعلیم تو حاصل کرسکے گا۔ امریکہ جانا پاکستانی نوجوان نسل کی خواہش اور خواب ہے یہ ایک حقیقت ہے امریکہ نہ سہی تو انگلینڈ ورنہ کینیڈا یہاں بھی قسمت نے یاوری نہ کی تو آسٹریلیا، ملائشیاء،یو۔اے۔ای کا کوئی ملک ساﺅتھ افریقہ آسٹریاءاور ناروے سے لے کر سعودی عرب تک ملک کوئی بھی ہو والدین کی بھی بچوں کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد یا پہلے ہی حتیٰ المکان کوشش یہی ہوتی ہے کہ اُن کا بچہ بیرونِ ملک سیٹل ہو جائے پاکستان میں رہنے والے وہ خاندان جن کے قریبی رشتہ داروں میں سے دو چار لوگ امریکہ کینیڈا یا کسی اور بیرونی ممالک میں مقیم ہوں تو وہ بڑے فخر سے بتاتے ہیں ہمارے دو بھائی ایک چچا خالو خالہ اور کزن فلاں فلاں ملک میں رہتے ہیں گویا بیرونِ ملک رہنا بھی اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے اور ماڈرن ہونے کی دلیل بھی۔ درحقیقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں صرف وہی رہ رہا ہے جس کے پاس بیرونِ ملک جانے کی اپرچونیٹی موجود نہیں ہے جس کسی کو جیسے ہی موقع ملتا ہے (وہ ہزارہا مشکلات سہہ کر بھی) باہر جانے کو ترجیح دیتا ہے حکمران طبقے کی دُھری شہریت میں بھی اس کی مثال موجود ہے 40فیصد سے زائدہ حکمران طبقہ ڈوئل نیشنلیٹی کا حامل ہے جیسے ہی حکمرانی کا موقع ہاتھ سے نکلا کوئی کڑا وقت آیا فوراً باہر کی راہ لی حکمران طبقے اور درمیانے متوسط طبقے کے لوگ تو شاید بہتر (چاہے وہ مشکل ہی کیوں نہ ہو) طرزِ زندگی گزارنے کے لئے یہ فیصلہ کرتے ہوں لیکن ایسے واقعات بھی آئے دن منظرِ عام پر آتے ہیں کہ جس میں غربت سے تنگ نوجوان جہاز کے پہیوں میں چھپ کر امریکہ اور لندن جانے کی کوشش کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کتنے ہی نوجوان اپنا گھر با بیچ کر باہر جانے کی کوشش میں نہ صرف اپنے تمام سرمائے اور پراپرٹی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلکہ قرضدار بھی ہو جاتے ہیں بیرونِ ملک سیٹل ہونے کی یہ کشش اسقدر زیادہ ہوتی ہے کہ ہر سال ہزاروں نوجوان لاکھوں خرچ کرکے غیر قانونی طریقے سے بارڈر کراس کرنے کی کوشش کرتے ہیں اچھی اور بہتر زندگی گزارنے کی خواہش میںیہ نوجوان مردہ تنوں اور سوختہ جانوں کے ساتھ پیوند ِ خاک ہوتے ہیں یا پھر اس طرح لاپتہ ہوتے ہیں کہ ان کے وجود تک کا پتہ تک نہیں چلتا یہ زندگی کی ترقی اور دولت کی چکا چوند ہی ہے جس کی وجہ سے پسماندہ گاﺅں کے غربت پسماندگی اور بے روزگاری کے مارے نوجوانوں سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ ایم بی بی ایس کی ڈگری والے انجینئرنگ اور M.B.A, MScڈگری ہولڈر نوجوان تک ہر طبقے کے لوگ بیرونِ ملک سیٹل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں؟ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لئے ہے کہ امریکہ نے اپنی حکمت عملی سے تیز رفتار معاشی ترقی حاصل کررکھی ہے اس ملک کے کچھ امیر ترین افراد نے دنیا کی 47فیصد سے زائد وسائل پر قبضہ کررکھا ہے یورپی ممالک بشمول امریکہ میں ہر سال پالتو جانوروں کی فیڈ پر اربوں ڈالر خرچ کردی جاتی ہے معاشی اور طاقت کے عدم توازن کی شکار ترقی پذیر دنیا کے نوجوان پڑھے لکھے ہوں یا نا خواندہ ہر حال میں ترقی کی چکا چوند کی جنت میں پہنچنا چاہتے ہیں دنیا کی جنت کے مزے لینا چاہتے ہیں جو پہنچ گئے وہ خوش ہیں جو نہ پہنچ سکے وہ جانے کی جستجو میںمبتلا ہیں۔ اپنی جان کی بازی لگا دیں عزتِ نفس کو پسِ منظر میں ڈال دیں سیلاب کے پانیوں میں ڈوبے لوگوں سے لے کر لائٹ کے چلے جانے سے اندھیروں میں ڈوب کر موم بتی تلاش کرنے والے افراد تک یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی اِس جنت کا منظر کچھ ایسا ہوگا جہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہوگا جہاں نہ کبھی لائٹ جاتی ہوگی نہ اندھیرا چھاتا ہوگا نہ ہی انہیں کبھی سیلاب اور طوفان کی تباہ کاریوں کا منبہ دیکھنا نصیب ہوتا ہوگا لیکن حقیقت میں کیا ہوا؟؟ دنیا کی 50پچاس فیصد دولت پر قابض اور سالوں پہلے سے موسمی حالات کی پیشنگوئی کرنے والے ترقی یافتہ ترین سپر پاور امریکہ میں سینڈی نامی ہیری کین نے اُن کی تمام پیشنگوئیوں پر پانی پھیر دیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ سمندری طوفان کی شدت ہماری توقعات سے زیادہ تھیں تمام دنیا نے اپنی ٹی وی اسکرینوں پر دیکھا کہ زمینی و آسمانی آفات کو اپنے قبضے میں کررکھنے کے دعوے داروں کے تمام دعوے طوفان کے ریلوں کے ساتھ بہہ گئے دریائے ہڈسن کے کناروںنے پانی کی اتنی بلندو بالالہریں اُگلیںکہ گیارہ سے زائد ریاستوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی 144کلومیٹر کی رفتار سے چلنے والی طوفانی ہواﺅں اور بارشوں سے نظامِ زندگی مفلوج ہوگیا مشرقی ساحلی علاقوں والے تمام ایئرپورٹ بند کردیئے گئے نیویارک جیسی جنت کے تمام اسکول سب وے اور ٹرین سروس بند ہوگئی طوفان کے باعث نچلے ساحلی علاقوں سے ہزاروں لاکھوں رہائشی نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے نیویارک ورجینیا، نیوجرسی، میری لینڈ، ڈیلاویر، کینکٹی کٹ، میساچوسس نارتھ کیرولینا، پنسلوینا اور ورمومنٹ میںایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ لوگ افراتفری کے عالم میں گھر بار سے دور ہوگئے 50سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے ہیلی کاپٹر سے طوفان زدہ علاقوں کی لی گئی تصویر میری نظروں سے گزری جو مختلف اخبارات میں شائع ہوتو بالکل ایسا محسوس ہوا کہ چند ماہ پہلے راجن پور میں آنے والے سیلاب کے بعد ہیلی کاپٹر سے لی گئی اُس کی تصویر اور امریکہ میں دریائے ہڈسن کے کنارے آنے والے طوفان سینڈی کے بعد اُس علاقے کی تصویر میں کوئی فرق نہیں یہاں بھی تمام علاقہ اُسی طرح پانی میں دوبا ہوا ہے جیسا کہ راجن پور میں شاید طوفان اور زمینی آفات غربت اور امارت کا فرق محسوس نہیں کرتیں یہ صرف حکم ِ اللہ کے تابع ہوتی ہیں یہ اللہ کا انصاف ہے۔
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 44890 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.