ملالہ ڈے

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے لڑکیوں کی تعلیم کےلئے آواز بلند کرنے والی سوات کی ملالہ یوسفزئی کےلئے آج ”ملالہ ڈے“ منانے کا اعلان کیا ہے۔ یوں دنیا بھر میں منائے جانے والے دنوں میں ایک اور دن کا اضافہ ہوگیا ہے ۔ سال بھر میں شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جو کسی نہ کسی حوالے سے مخصوص نہ کیا گیا ہو اب تو ایک دن میں دو‘دو دن بھی منائے جانے لگے ہیں۔ سال کے365دن عام آدمی کے بجائے خواص قرار دئیے گئے طبقات اور لوگوں کے ہیں۔ طبقہ اشراف نے جس طرح ہر سہولت کو اپنے لئے مخصوص کر رکھا ہے اسی طرح انہوں نے دنوں پر بھی اپنا تسلط قائم کر لیا ہے البتہ غریب و متوسط طبقے کے کسی ممکنہ احتجاج کے پیش نظر کچھ دن ان کےلئے اس طرح مختص کر دئیے ہیں جس طرح وہ چند سکے یا روٹی کے چند ٹکڑے موج میں آکر یاترس کھا کر کسی غریب کے سامنے اچھال دیتے ہیں ۔ گاجر اور چھڑی کا فارمولہ اپنانے والے امریکہ کے زیر اثر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے پاس یہ اختیار ہرگز نہیں کہ وہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی معصوم بچی کے لئے اس کی ”خدمات“ کے اعزاز کے طورپر دن منانے کا اعلان کر دے۔ اس کی اجازت لامحالہ قصر سفیدکے فرعون نے دی ہوگی جو اپنے مفادات کے برعکس کبھی کوئی قدم نہیں اٹھاتا۔ ماضی کے اوراق اس امر کے شاہد ہیں کہ پاکستان کےلئے کوئی کارنامہ سرانجام دینے ‘ پاکستان کی ترقی کا عزم رکھنے ‘ اس کی ہچکولے کھاتی نیّا کو پار لگانے کی کوشش کرنے اور اس کےلئے مثبت سوچ کے حامل افراد کو وہ اپنا سب سے بڑادشمن تصور کرتا رہا ہے اس کے اشاروں پر ناچنے سے انکار کرنے والوں کو ببانگ دہل نہ صرف سنگین نتائج کی دھمکیاں دے چکا ہے بلکہ ان پر عملدرآمد کےلئے اس نے ہر حربہ ‘ ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ اس کے برعکس پاکستان کے دشمن‘ غدار ‘ پاکستان میں رہ کر اس کے مفادات کی تکمیل کرنے اور پاکستان کے مفادات کو ٹھیس پہنچانے والے نہ صرف اس کے منظور نظر رہے بلکہ ان کی غداری کا پردہ فاش ہونے کے باوجود بھی اس نے ان کی حفاظت ایک فرض سمجھ کر کی۔انہیں ہر قسم کے سرد و گرم اور سزاﺅں سے بچایا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی اس کی تازہ ترین مثال ہے جس کے لئے اس نے پاکستان پر دباﺅ ڈالنے مےں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی امریکی سینیٹ اور کانگریس میں اس کی رہائی کی حکمت عملی پر سیر حاصل بحث ہوئی ‘ اسے ہیرو قرار دیا گیا۔ امریکی چنگل سے نجات حاصل کرکے اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے اور اپنے تحفظ کےلئے اقدامات کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو ‘ جنرل ضیاءالحق ‘ان کے رفقائے کار اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس کے عتاب کا نشانہ بنے ایسے میں وہ اگر پاکستان میں تعلیم پھیلانے کی خواہاں ملالہ یوسفزئی کےلئے دن منانے کا اعلان کراتا ہے تو شکوک و شبہات کے سائے خودبخود دراز ہوتے چلے جاتے ہیں۔وہ اپنے عزائم وسازشوں کو خواہ کتنا ہی کیوں نہ چھپائے تہہ در تہہ چھپے مقاصد واضح ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ تحریریں دیواروں پر نمودار ہو کر اپنی جانب متوجہ کر رہی ہیں۔ یہ پتہ چلانے میں ہرگز دشواری پیش نہیں آتی کہ اس بے قراری کی آڑ میں کونسا قرار حاصل کیاجا رہا ہے تمام ممالک کی ماں کے باپ بان کی مون کیوں بے چین ہیں؟ ملالہ نے تو اپنے مقاصد کےلئے ابھی کوئی قربانی ہی نہیں دی یہاں تو لاکھوں ایسے افراد ہیں جو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اپنے خاندان اور مال ودولت لٹا چکے ہیں‘40ہزارسے زائد وہ افراد ہیں جو امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے ہزارہا تاحیات معذوری کے عالم میں جینے پر مجبور ہیں مگر اربوں کھربوں ڈالر سے لڑی جانے والی اس جنگ کے کسی شہید کے لئے کوئی دن نہیں منایا گیا حتیٰ کہ ان شہیدوں کےلئے مشترکہ طورپر بھی کوئی دن وقف نہیں کیا گیا۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والوں کے احتجاج کے باوجود ڈرون حملے بند کرنے کی درخواستوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براﺅن ملالہ یوسفزئی کےلئے دس لاکھ افراد کی دستخط کردہ درخواست صدر آصف علی زرداری کو پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن کیا وہ ڈرون حملوں اور دہشت گردی کی جنگ میں مارے جانے والوں کے لواحقین کی چیخ و پکار پر مبنی درخواست اپنے ہمراہ لے جانے کی ہمت رکھتے ہیں ؟ ملالہ پر قاتلانہ حملہ قابل مذمت ہے لیکن پاکستان کے دشمنوں کی جانب سے اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہاراور دن منانے کا اعلان بے جا نہیں ، اس کےلئے پیش کردہ تاویلوں اور دلیلوں کا بطلان ان کی ”بے خودی“ کے اسباب میں پوشیدہ ہے۔
Qamar Ghaznavi
About the Author: Qamar Ghaznavi Read More Articles by Qamar Ghaznavi: 9 Articles with 5833 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.