نہ سونامی نہ چوہدراہٹ ……… بس الیکشن

آج کل ہر پاکستانی کی زبان پر ایک ہی تبصرہ سنائی دیتا ہے ، الیکشن کب ہوں گے ؟ کیا الیکشن ہوں گے یا نہیں ہوں گے ؟ اگر ہوں گے تو شفاف ہوں گے یا پھر حکومت اور اس کے اتحادی ایک بار پھر '' جھرلو '' پھیر جائیں گے ۔ یہ سوالات اپنی جگہ حالات اور وقت کی نزاکت کا رونا رورہے ہیں لیکن بیچارے عوام … اب نئے ہاتھوں لٹنے کی ریہرسل کرنے لگے ہیں ، بدقسمتی سے تبدیلی کا نعرہ لے کر آنے والی'' سونامی جماعت '' بھی اب قومی دھارے سے باہر ہوتی دکھائی دیتی ہے کیونکہ وہ حکومت کو '' کک آؤٹ '' کرنے کی بجائے اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی میں مشغول ہے ۔ اس تمام تر صورتحال میں الیکشن کا ہونا سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق '' اوکھا '' ہے ، تاہم دوسری جانب سندھ کے سابق وزیر داخلہ سائیں منظور وسان نے کہا ہے کہ الیکشن اگلے سال مارچ میں ہوں گے ۔ اگر ان کا یہ بیان کسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ نہیں ہے جس کا مقصد مخالفین اور ووٹروں کو گیسنگ گیم میں مصروف رکھنا ہو، یعنی لوگ اپنے طور پر اندازے لگاتے رہیں کہ الیکشن کب ہوں گے اور کب نہیں، تو بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن زیادہ سے زیادہ نو ماہ کی دوری پرہیں۔ مارچ میں پارلیمینٹ اور حکومت کی مدت پوری ہورہی ہے، لیکن دوسری جانب اسمبلی کے اندر اور باہر کی کئی قوتیں جلد عام انتخابات کا مطالبہ کررہی ہیں اور اس کے لئے سیاسی دبائو کی حکمت عملی بھی اپنائی جارہی ہے ۔ لیکن عام خیال یہ ہے کہ حکومت کسی دبائو میں آکر توجلد نئے انتخابات کا اعلان نہیں کرے گی بلکہ اس کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ اپنی مدت پوری کرے، اب اگر منظور وسان کے بیان کو بھی سامنے رکھیں اور اگلے سال مارچ میں انتخابات کو حتمی سمجھ لیں تو بھی انتخابات کے لئے نگران حکومتیں اس سال کے دسمبر میں بن جانی چاہئیں۔ گویا موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں زیادہ سے زیادہ اس سال کے آخر تک برسر اقتدار رہ سکتی ہیں۔ منظور وسان کا یہ خواب وفاق اور موجودہ صوبائی حکومتوں کے لئے تو نیک شگون ہے لیکن بیچارے '' سونامی ٹولہ '' کے لئے پھر انتظار انتظار انتظار ………

اب سوال یہ ہے کہ جوحکومت یاحکومتیں چار سال برسر اقتدار رہ چکی ہیں، انہوں نے اِس طویل عرصے میں کیا کوئی ایسے کارنامے انجام دیئے ہیں جن کو لے کر وہ ووٹروں کے پاس جائیں اور اپنی اس کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگیں؟ عمومی اتفاق تواس بات پر ہے کہ ایسا کوئی دفترِ عمل ان کے پاس نہیں ہے جو انہیں نئے انتخابات میں کامیابی دلوا سکے، البتہ ناکامیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو اگلے انتخابات میں ان کی راہ روک کر کھڑی ہوجائے گی۔ تاہم سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی تویہ کہنے کا '' جگرا '' رکھتے تھے کہ ان کے دور میں پیپلز پارٹی کے منشور پر 80 فیصد تک عمل کردیا گیا ہے، گویا اگر چار سال میں 80 فیصد عمل کردیا گیا ہے تو باقی چھ ماہ میں باقی ماندہ 20 فیصد پر بھی عمل کردیا جائے گا۔ اسی فیصد پر عمل درآمد کی سعادت ایک وزیراعظم کے حصے میں آئی اور 20 فیصد کی سعادت دوسرے وزیراعظم کو ملنے والی ہے تو پھر اتنی شاندار کارکردگی والی حکومت کو تو کوئی وقت ضائع کئے بغیر ووٹروں سے رجوع کرلینا چاہئے۔ لوگ پیپلز پارٹی کی اتنی شاندار کامیابیوں سے متاثرہوکر اسے دوبارہ بھی کامیاب کرا سکتے ہیں، لیکن ایسے لگتا ہے پیپلز پارٹی اقتدار کا زیادہ سے زیادہ عرصہ گزارنا چاہے گی کیونکہ پھر یہ بھی تو ہوسکتاہے کہ جون میں انتخابی بجٹ پیش کیا گیا جس میں تنخواہیں اور پنشنیں بڑھائی گئیں، ٹیکسوں میں ریلیف دیئے گئے، کچھ اشیائے خوردنی پرٹیکس کم کرکے ان اشیا کی قیمتیں بھی کم کی گئیں۔ یکم جولائی سے نیا بجٹ نافذ ہوجائے گا۔ جن عوام کوریلیف دیا گیا ہے، وہ اگر اس کا مثبت اثر لیں گے تو اِن کے دلوں میں پیپلز پارٹی کی محبت پہلے سے زیادہ موجزن ہوجائے گی۔ جوں جوں وقت گزرے گا، بجٹ کی برکات کے کرشمے کم ہوتے جائیں گے۔ اگلے دوچار ماہ میں لوگ بھول جائیں گے کہ بجٹ میں ان کی تنخواہ بھی بڑھی تھی، قیمتیں کم ہوئی تھیں ۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ ایسے وقت میں نئے الیکشن کا اعلان کردیا جائے، جب لوگ بجٹ کی برکات سے مستفید ہورہے ہوں اور یہ برکات ان کے اذہان میں تازہ ہوں۔

نئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے آتے ہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم کرنے کے لئے اقدامات کی ہدایت کردی۔ یہ اعلان بھی ہوا کہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم کردیا جائے گا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ اب تک اس کا دورانیہ کم ہوا ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا حکومت گردشی قرضوں کا بوجھ کم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی کیونکہ اس کے بغیر تولوڈ شیڈنگ کم ہوتی نظر نہیں آتی۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف ایک صوبے (صوبہ سندھ)میں بجلی کمپنیوں نے دو بڑے کلائنٹس سے 94 ارب روپے وصول کرنے ہیں۔ ان میں سے 52 ارب روپے تو سندھ حکومت کے ذمے ہیں اور کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی 42 ارب روپے کی نادہندہ ہے۔ یہ رقم اگر وصول ہوجائے اور اسے گردشی قرضے ادا کرنے پر صرف کردیا جائے تو اس سے ان قرضوں کی رقم میں 20 فیصد تک کمی آسکتی ہے اور بجلی بنانے والی کمپنیوں کو کچھ ریلیف مل سکتا ہے، لیکن میرا نہیں خیال کہ سندھ حکومت اور کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی مستقبل قریب میں یہ رقم یکمشت ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوں گی یاکم از کم ایسا ارادہ ہی کررہی ہوں گی، اس لئے لوڈ شیڈنگ میں کمی کے لئے تو اچھے موسم اور بارشوں کا انتظار کرنا چاہئے۔

لوڈشیڈنگ ایسا مسئلہ ہے جو لوگوں کوبراہ راست متاثر کرتا اور وہ مظاہروں پراتر آتے ہیں۔ حکومت کے اتحادی خصوصا مسلم لیگ ق مسلسل یہ کہہ رہی ہے کہ اگر لوڈ شیڈنگ اسی طرح جاری رہی تو وہ الیکشن میں لوگوں کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے، لیکن الیکشن تو بہرحال کرانے ہوں گے،بقول نواب اسلم رئیسانی '' الیکشن تو الیکشن ہوتے ہیں '' چاہے کوئی ہارے یا جیتے ، ہم نے تو کروڑوں کمالیے ہیں '' اکتوبر میں نہیں تو مارچ میں الیکشن کا انعقاد ہوگا، ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ حکومت کی حکمت عملی کیاہوگی؟ موجودہ کارکردگی کے ساتھ تو ووٹروں کا سامنا ہمارے نزدیک بڑا مشکل کام ہے۔ تاہم جس حکومت کا وزیراعظم یہ کہتے ہوئے نہیں ہچکچایا تھا کہ اس نے اپنی پارٹی کے 80 فیصد منشور پر عمل کردیا ہے، اس سے کسی بھی بات کی توقع کی جاسکتی ہے، لیکن حکومت کوجس قسم کے حالات درپیش ہیں، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ باقی ماندہ چھ ماہ میں یکسوئی کے ساتھ کوئی حکمت عملی بنا سکتی ہے۔ اس عرصے میں تو اس پر عدالتی احکامات کی تلوار ہی لٹکی رہے گی۔گیلانی جی کے گھر جانے کے بعد اب پرویز اشرف کو شاید قربانی کا بکرا بنایا جائے ، اور اسی ایشو کو لے کر الیکشن میں عوام کے آگے یہ جواز پیش کیا جائے کہ دیکھو ہمارے ساتھ '' زیادتی '' ہوئی ہے ، وفاقی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ کس قسم کی زیادتی ہوئی ہے یہ تو پورا پاکستان جانتا ہے لیکن یہاں یہ بات ضرور ہے کہ عوام اب باشعور بن چکے ہیں اور وہ اپنے اچھے برے کی تمیز رکھتے ہیں ، اب کوئی '' زیادتی '' اور کوئی '' شہادت '' کام نہیں آئے گی اور نہ ہی اب کوئی '' چوہدراہٹ '' چمکنے کے چانسز ہیں ، فی الحال سونامی کے خواب کا بھی چکنا چور دکھائی دیتا ہے ۔ اب کی بار الیکشن میں ہر پارٹی کو ……… منہ کا زور لگانا پڑے گا۔ عوام کو اب نہ تو '' شہادت '' '' چوہدراہٹ '' اور نہ ہی کسی '' سونامی '' کا انتظار ہے ، انتظار ہے تو … بس الیکشن۔
واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 61 Articles with 92384 views i like those who love humanity.. View More