میں اور پاکستان تحریکِ انصاف

میرے اکثر مزاج شناس دوست مجھے کسی بھی سیاسی پارٹی سے دوری کا مشورہ دیا کرتے ہیں۔ان کا مؤقف ہے کہ صحافی کو غیر جانبدار ہونا چاہیئے۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ میں اپنے مزاج اور خیالات کی وجہ سے سیاست میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔میں بھی جانتا ہوں کہ مجھ سے اپنے بھی خفا ہوتے ہیں اور بے گانے بھی ناخوش کہ میں زہرِ ہلاہل کو قند کہہ نہیں سکتا۔ایک آدھ دوست تو فتح خان اور ہٹلر کا قصہ بھی سنا دیتا ہے۔وہ یوں کہ جنگ عظیم کے دنوں میں جہلم کی رہائشی ایک بوڑھی اماں جس کا بیٹا جنگ میں شرکت کے لئے محاذ پہ گیا ہوا تھا۔وہ بڑی فکر مندی سے اپنی سہیلی کو اپنی پریشانی کی وجہ بتا رہی تھی۔اس کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا فتح خان بھی مزاج کا بہت سخت ہے اور سنا ہے ادھر محاذ پہ کوئی ہٹلر نام کا شخص ہے،مزاج اس کا بھی بہت تیکھا ہے۔ جب یہ دونوں آمنے سامنے آئیں گے تو بہن پھر اللہ ہی خیر کرے پتہ نہیں کیا بنے گا؟اپنا مزاج بھی ساتویں آسمان پہ رہتا ہے اور سنا ہے کہ عمران بھی بھرے جلسے میں لوگوں کو تھپڑ مارنے سے نہیں چوکتا۔ہم تحریکِ انصاف میں ہیں خدا خیر کرے۔لیکن ہمارا آپ سے وعدہ ہے کہ ہم کسی دوسری پارٹی کے ورکر کو "غنڈہ "کبھی نہیں کہیں گے۔

خدا لگتی کہوں تو پیپلز پارٹی کی ابتداءہی سے کبھی کوئی کلمہ خیر ہم نے اس کے بارے نہیں کہا۔بس یوں جانئیے کہ اللہ واسطے کا بیر تھا۔ پیپلز پارٹی نے اپنی ساری تاریخ میں ہماری دانست میں جو دو چار اچھے کام کر رکھے ہیں ہم نے کبھی ان کی بھی تعریف نہیں کی۔مسلم لیگ کا مخالف ہمارے نزدیک پاکستان کا مخالف تھا اور ہم ساری زندگی یہی بات دل میں بسائے پیپلز پارٹی پہ تبرا کرتے رہے۔پھر پیپلز پارٹی کے متولی ہمیں کبھی پاکستانی لگے ہی نہیں۔نہ تو وہ ہماری طرح بولتے تھے،نہ کھاتے تھے نہ چلتے تھے اور نہ ہی ان کا کلچر ہمارے ساتھ ملتا تھا۔قائد جمہوریت،مادرِ جمہوریت،شہید جمہوریت اور مقتولِ جمہوریت سبھی ہمیں کبھی پاکستانی لگے ہی نہیں۔پھر نواز شریف آگئے ۔ان کے بارے میں سنا کہ پاکستانی ہیں۔ان کے ہاں کا ماحول مذہبی ہے۔وہ دیسی کھانے کھاتے اور لسی پیتے ہیں۔نماز پڑھتے ہیں اور ان کی عورتیں پردہ کرتی ہیں۔ وہ اپنے ابا جی کا احترام کرتے ہیں۔کچھ مخالفین نے کہا کہ لوہار ہیں ،بھٹی چلائیں ملک نہیں چلا سکتے۔یہ طعنہ سن کے ہمیں لگا کہ یہ لوگ واقعی خالص پاکستانی ہیں۔یوں ہم "نون "کے عشق میں گرفتار ہو کے" نون غنے "ہو گئے۔یعنی جو انہوں نے کیا ہم اس پہ ساکت وصامت رہے۔پھر وہ اپنے چالیس صندوقوں کے ساتھ جدہ چلے گئے اور ہم ان کی سلامتی کی دعائیں مانگتے رہے۔مشرف نے ان کے ساتھ بڑی زیادتی کی یہ بھی ہمارے دل میں تھا ۔ہم بھی مشرف کے اسی لئے خلاف تھے ۔لیکن واپسی پہ جب ان کے وزراءحلف اٹھانے با جماعت اسی آمر مشرف کے سامنے گردنیں جھکائے لائن میں لگ گئے تو ہمیں کسی ایسے شخص کی تلاش ہوئی جس کی گردن میں سریا ہو۔جو اپنے مﺅقف پہ کھڑا ہو سکتا ہو۔جو اپنی مرضی کا مالک ہو جسے کوئی دوسرا نیچے نہ لگا سکے۔جو دوسروں کی اتنی ہی سنتا ہو جتنی سننی چاہئیے۔

عمران خان کو ہم کرکٹ کی کپتانی کے زمانے سے سنتے آرہے تھے۔لوگ کہتے تھے مغرور ہے۔اس کی گردن میں سریا ہے۔کسی کی نہیں سنتا۔جو سوچ لے وہ کر کے ہی چھوڑتا ہے۔انگریز ہے لیکن پاکستانی سانچے میں ڈھلا ہوا۔پھر اس نے اپنی ماں کے نام پہ ایک ایسی بیماری کا ہسپتال بنایا جس کا بنانا اور چلانانا ممکنات میں سے تھا لیکن اس نے یہ کام بھی کر دکھایا۔ہمیں لگا کہ یہی شخص پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ہمیں سخن فہمی کا دعویٰ ہے ہم عمران کے طرف دار ہر گز نہیں۔آپ خود ہی لیکن بتائیے پیپلز پارٹی کو ہم نے بارہا بھگت کے دیکھ لیا۔ نواز شریف جنہیں ہم بہت پاکستانی اور بااصول سمجھتے تھے۔وہ مشرف سے حلف لیتے ہیں۔آئی ایس آئی سے پیسے پکڑتے ہیں۔زرداری کی لوٹ مار میں حصہ دار بنتے ہیں۔منی لانڈرنگ میں ان کا نام آتا ہے۔تیسری بار وزیر اعظم بننے کے لئے وہ وہ پورے ہزارے کو بیچ دیتے ہیں۔کبھی کہتے تھے کہ لوٹوں سے زیادہ قابل نفرت کوئی نہیں آج ارباب رحیم کو دبئی میں فون کر کے اکٹھے الیکشن لڑنے کی درخواستیں کرتے ہیں تو پھر ہم سے گلہ کیوں؟کیا انہی سوراخوں سے جن سے آپ ہزار بار ڈسے گئے ہوں دوبارہ ڈسوانا ضروری ہے۔نیا سوراخ کیوں نہ تلاش کیا جائے۔

ہمیں تو پاکستان کی فلاح عزیز ہے۔ہم پاکستان بدلنا چاہتے ہیں ۔پاکستان کے عوام کا استحصال بند کرانا چاہتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا لیڈر ہمارا قائد ایسا ہو جو اپنے کردار کی بناءپہ لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کر سکے۔جو کسی کے نہ دباﺅ میں آئے اور نہ کسی سے دب کے بات کرے۔جس کے دامن پہ منی لانڈرنگ کا کوئی داغ نہ ہو۔جو غلطی کرے تو علی الاعلان اس کا اعتراف بھی کرے۔عمران خان ہمیں ایسا ہی لگتا ہے۔یہ البتہ پکی بات ہے کہ ہم عمران کے نہیں اس کے نظرئیے کے حامی ہیں۔جس دن ہمیں لگا کہ اس کی گردن بھی جھک کے ناف کے ساتھ لگ گئی ہے۔جس دن اس نے پہلاکمپرومائز کیا۔جس دن وہ سچ کو چھوڑ کے مصلحت کے پیچھے بھاگا ،ہمارا آپ سے وعدہ ہے کہ اس دن ہم غیر جانبدار ہو جائیں گے۔اچھائی اور برائی کے مقابلے میں آپ کبھی غیر جانبدار ہو ہی نہیں سکتے۔الیکشن سر پہ ہیں۔ٹکٹوں کی تقسیم عمران کے اصولوں کا پہلا امتحان ہے۔اگر اس پل صراط سے وہ گذر گیا تو آگے جنت ہی جنت ہے اور اگر یہیں اس نے مصلحت پسندی سے کام لیا تو پل صراط عین جہنم کے اوپر ہے۔دعا کریں کہ ہماری یہ آخری امید بر آئے اور پاکستان کو عمران کی شکل میں وہ لیڈر مل جائے جس کی ہمیں مدت سے تلاش ہے۔عمران خان سے بھی ہماری ایک درخواست ہے کہ اب آپ کی پارٹی میں بولنے والے اور بھی بہت سارے لوگ ہیں انہیں بولنے دیں ناں۔ویسے بھی نیازی آپس میں گپ بھی لگا رہے ہوں تو بھی ایسے لگتا ہے لڑ رہے ہیں۔یقین نہیں آتا تو کبھی اپنے کزن انعام اللہ نیازی کو ٹی وی کے کسی ٹاک شو میں بولتے ہوئے سن لیں۔سنا ہے کہ پیپلز پارٹی اب زرداری پارٹی ہے،نون لیگ شریف پارٹی ہے،قاف لیگ چوہدری پارٹی اور تحریک انصاف اب ہولے ہولے نیازی پارٹی بننے جا رہی ہے۔یہ سب بہت ٹیلنٹ والے لوگ ہوں گے لیکن یہ سارے اس وقت کہاں تھے جب لوگ ہمیں ٹانگہ پارٹی ہونے کا طعنہ دیا کرتے تھے۔خان صاحب! ہمیں نہ تو کوئی ممتاز بھٹو چاہیئے اور نہ ہی کوئی فریال تالپور۔پارٹی میںقائد ایک ہی ہوا کرتا ہے اور آپ کی پارٹی میں تو اب قائدین کی لائن لگی ہوئی ہے۔اور ہاں تھوڑے دنوں میں پارٹی الیکشن آپ کی چھیڑ بننے جا رہی ہے اس کا بھی اب کچھ کر ہی لیں۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 270383 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More