خلیفہ سوم امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ

اللہ تعالیٰ نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام اس دنیا میں مبعوث فرمائے ۔وہ لوگ صاحب اولاد بھی ہوئے ۔لڑکا والے ہوئے اور لڑکی والے بھی ہوئے ۔تو جن لوگوں کے ساتھ انبیاءکرام نے اپنی صاحبزادیوں کو منسوب فرمایا وہ یقینا عزت و عظمت والے ہوئے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی کا داماد ہونا ایک بہت بڑا مرتبہ ہے جو خوش نصیب انسانوں ہی کو نصیب ہوا ہے ۔مگر اس سلسلے میں جو خصوصیت اور جو انفرادیت حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے وہ کسی کو نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ تک کسی کے نکاح میں نبی کی دو بیٹیاں نہیں آئی ہیں لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں صرف نبی نہیں بلکہ نبی الانبیاءاور سید الانبیاءجناب محمد مصطفےٰ ﷺ کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگر نکاح میں آئیں۔

اور صرف یہی نہیں بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہانتک روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد سنا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے کہ اگر میری چالیس لڑکیاں بھی ہوتیں تو یکے بعد دیگرے میں ان سب کا نکاح اے عثمان !تم سے کر دیتا یہانتک کہ کوئی بھی باقی نہ رہتی۔(تاریخ الخلفاءصفحہ104)

بیہقی نے اپنی سنن میں لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ جعفی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے ماموں حضرت حسین جعفی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ تمہیں معلوم ہے کہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا لقب ذوالنورین کیوں ہے ؟ میں نے کہا کہ نہیں ۔انہوں نے کہا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر قیامت تک حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی شخص کے نکاح میں کسی نبی کی دو صاحبزادیاں نہیں آئیں ۔اسی لئے آپ کو ذوالنورین کہتے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا

سرکار اقدس ﷺ نے قبل اعلان نبوت اپنی صاحبزادی حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کیا تھا جو غزوہ بدر کے موقع پر بیمار تھیں اور انہی کی تیمار داری کے سبب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اس جنگ میں شرکت نہیں فرما سکے اور سید المرسلین ﷺ کی اجازت سے مدینہ طیبہ ہی میں رہ گئے تھے ۔مگر چونکہ حضور ﷺ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بدر کے مال غنیمت سے حصہ عطا فرمایا تھا اس لئے آپ بدریوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔غزوہ بدر میں مسلمانوں کے فتح پانے کی خوشخبری لیکر جس وقت حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ پہنچے اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو دفن کیا جا رہا تھا ۔ان کے انتقال فرما جانے کے بعد حضور سید عالم ﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کر دیا تو ان کا بھی 9ھ میں وصال ہو گیا ،غرضیکہ اس طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ذوالنورین ہوئے ۔آپ کے ایک صاحبزادے حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے تھے جن کا نام ”عبد اللہ “ تھا ۔وہ اپنی ماں کے بعد چھ برس عمر پاکر انتقال کر گئے اور حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے آپ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔
نام و نسب:آپ کا نام ”عثمان “کنیت ابو عمر اور لقب ذوالنورین ہے ۔آپکا سلسلہ نسب اس طرح ہے ۔عثمان بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف ۔یعنی پانچویں پشت میں آپ کا سلسلہ نسب رسول اللہ ﷺ کے شجرہ نسب سے مل جاتا ہے ۔آپ کی نانی ام حکیم جو حضرت عبد المطلب کی بیٹی تھیں وہ حضور ﷺ کے والد گرامی حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک پیٹ سے پیدا ہوئی تھیں ۔اس رشتہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی والدہ حضور سید عالمﷺ کی پھوپھی کی بیٹی تھیں ۔آپ کی پیدائش عام الفیل کے چھ سال بعد ہوئی ۔

آپ کا حلیہ :حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا حلیہ اور سراپاابن عساکر چند طریقوں سے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آپ درمیانی قد کے خوبصورت شخص تھے ۔رنگ میں سفیدی کے ساتھ سرخی بھی شامل تھی ۔چہرے پر چیچک کے داغ تھے ۔جسم کی ہڈیاں چوڑی تھیں ۔کندھے کافی پھیلے ہوئے تھے ۔پنڈلیاں بھری ہوئی تھیں ۔ہاتھ لمبے تھے جن پر کافی بال تھے ۔داڑھی بہت گھنی تھی ۔سر کے بال گھنگھریالے تھے ۔دانت بہت خوبصورت تھے اور سونے کے تار سے بندھے ہوئے تھے ۔کنپٹیوں کے بال کانوں کے نیچے تک تھے اور پیلے رنگ کا خضاب کیا کرتے تھے ۔

ابن عساکرحضرت عبد اللہ بن حزم مازنی سے روایت کرتے ہیں ۔انہوں نے فرمایا کہ میںنے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو میں نے عورتوں اور مردوں میں سے کسی کو ان سے زیادہ حسین و خوبصورت نہیں پایا ۔(تاریخ الخلفائ)

ابن عساکر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے مجھے گوشت کا ایک پیالہ دیکر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا ۔جب میں آپ کے گھر میں داخل ہوا تو حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا بھی بیٹھی ہوئی تھیں ۔میں کبھی حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہاکے چہرے کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی صورت دیکھتا تھا ۔جب میں آپ کے گھر سے واپس ہو کر رسول اکرم ﷺ کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا تو رسول مقبول ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ اُسامہ !عثمان (رضی اللہ عنہ) کے گھر کے اندر تم گئے تھے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! جی ہاں میں گھر کے اندر گیا تھا ۔حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تم نے ان میاں بیوی سے حسین و خوبصورت کسی میاں بیوی کو دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کبھی نہیں دیکھاہے ۔(تاریخ الخلفاء)

ابن عدی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں ۔انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح کیا تو ان سے فرمایا کہ تمہارے شوہر عثمان غنی رضی اللہ عنہ تمہارے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمہارے باپ حضرت محمد (ﷺ) سے شکل و صورت میں بہت مشابہ ہیں ۔(تاریخ الخلفائ)

قبول اسلام اور مصائب:حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ان حضرات میں سے ہیں جن کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام کی دعوت دی تھی ۔آپ قدیم الاسلام ہیں یعنی ابتدائے اسلام میں ایمان لے آئے تھے ۔ابن اسحاق کہتے ہیں کہ آپ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ،حضرت علی اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کے بعد اسلام قبول کیا ۔

ابن سعد محمد بن ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو ان کا پورا خاندان بھڑک اٹھا یہانتک کہ آپ کا چچا حکم بن ابی العاص اس قدر ناراض اور برہم ہوا کہ آپ کو پکڑکر ایک رسی سے باندھ دیا اور کہا کہ تم نے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر ایک دوسرانیا مذہب اختیار کر لیا ہے ۔جب تک تم اس نئے مذہب کو نہیں چھوڑ و گے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے اسی طرح باندھ کر رکھیں گے ۔یہ سن کر آپ نے فرمایا خدا ذوالجلال کی قسم مذہب اسلام کو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور نہ کبھی اس دولت سے دست بردار ہو سکتا ہوں ۔میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو یہ ہو سکتا ہے مگر دل سے دین اسلام نکل جائے یہ ہر گز نہیں ہو سکتا ۔حکم بن ابی العاص نے جب اس طرح آپ کا استقلال دیکھا تو مجبو ر ہو کر آپ کو رہا کر دیا ۔

حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ اور آیات قرآن:حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حق میں بھی قرآن مجید کی آیات کریمہ نازل ہوئی ہیں ۔جنگ تبوک کا واقعہ ایسے وقت پیش آیا جبکہ مدینہ منورہ میں سخت قحط پڑا ہوا تھا اور عام مسلمان بہت زیادہ تنگی میں تھے ۔یہانتک کہ درخت کی پتیاں کھا کر لوگ گذارہ کرتے تھے ۔اسی لئے اس جنگ کے لشکر کو جیش عُسرہ کہا جاتا ہے یعنی تنگدستی کا لشکر ۔ترمذی شریف میں حضرت عبد الرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر تھا ۔جبکہ آپ جیش عُسرہ کی مدد کے لئے لوگوں کو جوش دلا رہے تھے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ آپ کے پر جوش لفظ سن کر کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ!(ﷺ)میں سواونٹ پالان اور سامان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کروں گا۔اس کے بعد پھر حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سامان لشکر کے بارے میں ترغیب دی اور امداد کے لئے متوجہ فرمایا ۔تو پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں دو سو اونٹ مع سازو سامان اللہ تعالیٰ کے راستہ میں نذر کروں گا۔ اس کے بعد پھر رسول کریم ﷺ نے سامان جنگ درستگی اور فراہمی کی طرف مسلمانوں کو رغبت دلائی۔ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں تین سو اونٹ پالان اور سامان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں حاضر کروں گا ۔حدیث کے راوی حضرت عبد الرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ منبر سے اتر تے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے ما علیٰ عثمان ما عمل بعد ھٰذہ ۔ما علیٰ عثمان ما عمل بعد ھٰذہ۔”یعنی ایک ہی جملہ کو حضور سید عالم ﷺ نے دو بار فرمایا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اب عثمان کو وہ عمل کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا جو اس کے بعد کریں گے ۔“

مراد یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا یہ عمل خیر ایسا اعلیٰ اور اتنا مقبول ہے کہ اب اور نوافل نہ کریں جب بھی یہ ان کے مدارج علیا کے لئے کافی ہے اور اس مقبولیت کے بعد اب انہیں کوئی اندیشہ ضرر نہیں ہے ۔(مشکوٰة شریف 561)

تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل میں ہے کہ آپ نے ساز و سامان کے ساتھ ایک ہزار اونٹ اس موقع پر چندہ دیا تھا ۔

حضرت عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جیش عسرہ کی تیاری کے زمانہ میں ایک ہزار دینار اپنے کرتے کی آستین میں بھر کر لائے (دینار ساڑھے چار ماشہ سونے کا سکہ ہوتا ہے )ان دیناروں کو آپ نے رسول مقبول ﷺ کی گود میں ڈال دیا ۔ راوی حدیث حضرت عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ ان دیناروں کو اپنی گود میں الٹ پلٹ کر دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے ۔ ماضر عثمان ما عمل بعد الیوم مرتین ۔یعنی آج کے بعد عثمان کو ان کا کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا ۔سرکار اقدس ﷺ نے ان کے بارے میں اس جملہ کو دو بار فرمایا ۔(کیونکہ صحابہ کرام و اہل بیت محفوظ عن الخطاءہیں۔)مطلب یہ ہے کہ فرض کر لیا جائے کہ اگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کوئی خطا واقع ہو تو آج کا ان کا یہ عمل ان کی خطا کےلئے کفارہ بن جائے گا۔ (مشکوٰة شریف صفحہ561)

تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل میں ہے کہ جب حضرت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جیش عسرہ کی اس طرح مدد فرمائی کہ ایک ہزار اونٹ سازو سامان کے ساتھ پیش فرمایا اور ایک ہزار دینار بھی چندہ دیا اورحضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ صدقہ نے چار ہزار درہم بارگاہ رسالت میں پیش کئے تو ان دونوں حضرات کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:ترجمہ”جو لوگ کہ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔پھر دینے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ تکلیف دیتے ہیں ۔تو ان کا اجر و ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور نہ ان پر کوئی خوف طاری ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔(پارہ3رکوع 4)

حضرت صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمة اللہ علیہ نے بھی اپنی تفسیر خزائن العرفان میں تحریر فرمایا ہے کہ آیت مبارکہ حضرت عثمان غنی اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے حق میں نازل ہوئی ۔

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز نبی کریم ﷺ ،حضرت ابو بکر صدیق ،حضرت عمر فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم احد پہاڑ پر تھے کہ یکایک وہ ہلنے لگا تو رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا :ترجمہ” اے احد! تو ٹھہرجا کہ تیرے اوپر صرف ایک نبی ایک صدیق اوردو شہید ہیں ۔“ (تفسیر معالم التنزیل جلد6صفحہ216)

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ حضور سید عالم ﷺ پہاڑوں پر بھی اپنا حکم نافذ فرماتے تھے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم غیب عطا فرمایا تھا کہ برسوں پہلے حضرت عمر فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہما کے شہید ہونے کے بارے میں حضور خبر دے رہے ہیں ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں
او ر کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خوب جانتے تھے کہ ندی کا بہتا ہوا دھارا رک سکتا ہے ،درخت اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے بلکہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے محبوب دانائے خفایا و غیوب جناب احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ ﷺ کا فرمان نہیں ٹل سکتا ۔ اس لئے آپ اپنی شہادت کا انتظار فرماتے رہے تھے ۔ تو یہ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ جو اپنی شہادت کے منتظر تھے جیسے کہ دولہا دولہن اپنی شادی کی تاریخ کے منتظر ہوتے ہیں تو ان کے حق میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : ترجمہ”تو ان میں سے کوئی وہ ہے جو اپنی منت پوری کر چکا (جیسے حضرت حمزہ و مصعب رضی اللہ عنہما کہ یہ لوگ جہاد پر ثابت رہے یہاں تک کہ جنگ احد میں شہید ہو گئے )اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو(اپنی شہادت کا) انتظار کر رہا ہے ۔“(جیسے حضرت عثمان اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہما۔)(القرآن)

حضرت علامہ اسمٰعیل حقی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں ایک منافق رہتا تھا اس کا درخت ایک انصاری پڑوسی کے مکان پر جھکا ہوا تھا جس کا پھل ان کے مکان میں گرتا تھا ۔انصاری نے سرکار اقدس ﷺ سے اس کا ذکر کیا ۔اس وقت تک منافق کا نفاق لوگوں پر ظاہر نہیں ہوا تھا ۔حضور ﷺ نے اس سے فرمایاکہ تم درخت انصاری کے ہاتھ بیچ ڈالو اس کے بدلے تمہیں جنت کا درخت ملے گا۔ مگر منافق نے انصاری کو درخت دینے سے انکار کر دیا ۔جب اس واقعہ کی خبر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ہوئی کہ منافق نے حضور ﷺ کے فرمان کو منظور نہیں کیا تو آپ نے پورا ایک باغ دیکر درخت کو اس سے خرید لیا اور انصاری کو دیدیا ۔اس پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی تعریف اور منافق کی برائی میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی :ترجمہ” عنقریب نصیحت مانے گا جو ڈرتا ہے اور اس سے وہ بڑا بد بخت دو ر رہے گا جو سب سے بڑی آگ میں جائے گا۔ (پارہ30رکوع12)

اس آیت مبارکہ میں من یخشیٰ سے مراد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں اور الاشقیٰ سے مراد اس درخت کا مالک منافق ۔(تفسیر روح البیان جلد دہم صفحہ408)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور احادیث کریمہ:حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب میں بہت سی حدیثیں بھی وارد ہیں ۔ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت مرہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ زمانہ آئندہ میں ہونے والے فتنوں کا ذکر فرماتے رہے تھے کہ اتنے میں ایک صاحب سر پر کپڑا ڈالے ہوئے ادھر سے گذر ے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ شخص اس روز ہدایت پر ہو گا ۔ حضرت مرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ سے یہ الفاظ سن کر میں اٹھا اور اس شخص کی طرف گیا تو دیکھا کہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں ۔پھر میں نے حضور ﷺ کی طرف ان کا رخ کیا اور پوچھا کیا یہ شخص ان فتنوں میں ہدایت پر ہوں گے ؟ تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں یہی۔

ترمذی شریف میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول مقبول ﷺ نے مستقبل میں ہونے والے فتنہ کا ذکر کیا تو ارشاد فرمایا کہ یہ شخص اس فتنہ میں ظلم سے قتل کیا جائے گا ۔یہ کہتے ہوئے آپ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ فرمایا ۔

بخاری و مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ کے ایک باغ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا کہ ایک صاحب آئے اور اس باغ کا دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا :”دروازہ کھول دو اور آنے والے شخص کو جنت کی بشارت دو ۔“میں نے دروازہ کھو لا تو دیکھا وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔میں نے ان کو حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق جنت کی خوشخبری دی ۔اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس کی حمد و ثنا کی ۔پھر ایک صاحب اور آئے اور انہوں نے دروازہ کھلوایا ۔حضورﷺ نے انکے بارے میں بھی فرمایا ۔”ان کے لئے بھی دروازہ کھول دو اور ان کو بھی جنت کی بشارت دو “میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔میں نے ان کو رسول اللہ ﷺ کی خوشخبری سے مطلع کیا ۔انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناءکی اور اس کا شکر ادا کیا ۔پھر ایک تیسرے صاحب نے دروازہ کھلوایا تو نبی کریم ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا :”آنے والے کے لئے دروازہ کھول دو اور ان مصیبتوں پر جو اس شخص کو پہنچیں گی جنت کی خوشخبری دو ۔“راوی حدیث حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا آنے والے شخص حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں ۔میں نے ان کو آگاہ کیا ۔انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناءکی ، اس کا شکر ادا کیا اور فرمایا اللّٰہ المستعان ۔یعنی آنے والی مصیبتوں پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی جاتی ہے ۔

مسلم شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ :” ایک روز رسول اللہ ﷺ اپنے مکان میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ کی ران یا پنڈلی مبارک سے کپڑا ہٹا ہوا تھا ۔اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے حاضری کی اجازت چاہی ۔حضور ﷺ نے ان کو بلالیا اور وہ اندر آگئے مگر حضورﷺ اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے ۔اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے ۔انہوں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی ۔حضور ﷺ نے ان کو بھی اجازت دیدی اور وہ بھی اندر آ گئے لیکن حضور ﷺ پھر بھی بدستور اس طرح لیٹے رہے یعنی ران یا پنڈلی سے کپڑا ہٹا رہا ۔ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ آگئے اور اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ اُٹھ گئے اور کپڑوں کو درست کر لیا ۔اس کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اندر آنے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہےں کہ جب یہ لوگ چلے گئے تو میں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا ۔یا رسول اللہ (ﷺ) کیا وجہ کہ میرے باپ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ بدستور لیٹے رہے ۔پھر حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ آئے مگر آپ بدستور لیٹے رہے اور جنبش نہیں فرمائی ۔لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ اٹھکر بیٹھ گئے اور کپڑوں کو درست کر لیا ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس سوال کے جواب میں سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔

سبحان اللہ ! حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا درجہ کیا ہی بلند و بالا اور عظمت والا ہے کہ فرشتے آپ سے حیا کرتے ہیں یہانتک کہ سید الانبیائ، نبی الانبیاءجناب احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ بھی آپ سے حیا فرماتے ہیں ۔

ترمذی شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام حدیبیہ میں بیعت رضوان کا حکم فرمایا اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے قاصد کی حیثیت سے مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے ۔لوگوں نے حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔جب سب لوگ بیعت کر چکے تورسول مقبول ﷺ نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کیطرف سے خود بیعت فرمائی ۔لہٰذا رسول اللہ ﷺ کا مبارک ہاتھ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے لئے ان ہاتھوں سے بہتر ہے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے بیعت کی۔

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری علیہ الرحمة والرضوان اشعة اللمعات میں اس حدیث کے تحت تحریر فرماتے ہیں کہ سرکار اقدس ﷺ نے اپنے دست مبارک کو حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا ۔یہ وہ فضلیت ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے ۔یعنی اس فضیلت سے ان کے سوا اور کوئی دوسرا صحابی کبھی مشرف نہیں ہوا۔

ترمذی شریف اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک روز حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے عثمان! اللہ تعالیٰ تجھ کو ایک قمیض پہنائے گا یعنی خلعت خلافت سے سرفراز فرمائے گا۔ پھر اگر لوگ اس قمیض کے اتار نے کا تجھ سے مطالبہ کریں تو ان کی خواہش پر اس قمیض کو مت اتارنا یعنی خلافت کو نہ چھوڑنا ۔اسی لئے جس روز ان کو شہید کیا گیا انہوںنے حضرت ابو سہلہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ حضور ﷺ نے مجھ کو خلافت کے بارے میں وصیت فرمائی تھی ۔اسی لئے میں اس وصیت پر قائم ہوں اور جو کچھ مجھ پر بیت رہی ہے اس پر صبر کر رہا ہوں۔

حاکم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دوبار جنت خریدی ہے ۔ایک بار تو بیر رومہ خرید کر اور دوسری بار جیش عسرہ کےلئے سامان دے کر ۔ بیر رومہ کی خریداری کا واقعہ یہ ہے کہ سرکار اقدس ﷺ مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو اس زمانہ میں وہاں بیر رومہ کے علاوہ اور کسی کنوئیں کا پانی میٹھا نہ تھا ۔یہ کنواں وادی عقیق کے کنارے ایک پر فضا باغ میں ہے جو مدینہ طیبہ سے تقریباً چار کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔اس کنوئیں کا مالک یہودی تھا جو اس کا پانی فروخت کیا کرتا تھا اور مسلمانوں کو پانی کی سخت تکلیف تھی تو رسول اللہ ﷺ کی ترغیب پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے آدھا کنواں بارہ ہزار درہم میں خرید کر مسلمانوں پر وقف کر دیا ۔اور طے یہ پایا کہ ایک روز مسلمان پانی بھرینگے اور دوسرے دن یہودی ۔مگر جب یہودی نے دیکھا کہ مسلمان ایک روز میں دو روز کا پانی بھر لیتے ہیں اور میرا پانی خاطر خواہ نہیں بکتا تو پریشان ہو کر بقیہ آدھا بھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آٹھ ہزار درہم میں بیچ دیا ۔اس کنوئیں کو آج کل بیر حضرت عثمان کہتے ہیں ۔

آپ کی خلافت:حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب تاریخ الخلفاءمیں تحریر فرماتے ہیں کہ زخمی ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی طبیعت جب زیادہ ناساز ہو ئی تو لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ یا امیر المومنین آپ ہمیں کچھ وصیتیں فرمائےے اور خلافت کے لئے کسی کا انتخاب فرما دیجئے ۔تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ خلافت کے لئے علاوہ ان چھ صحابہ کے جن سے رسول اللہ ﷺ راضی اور خوش رہ کر اس دنیا سے تشریف لے گئے ہیں میں کسی اور کو مستحق نہیں سمجھتا ہوں ۔پھر آپ نے حضرت عثمان ،حضرت علی ،حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ،حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن وقاص ۔رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام لئے اور فرمایا کہ میرے لڑکے عبد اللہ مجلس شوریٰ میں ان کے ساتھ تمہیں گے لیکن خلافت سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوگا ۔پھر آپ نے فرمایا کہ میں اپنے بعد خلیفہ ہونے والے کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور سب انصار و مہاجرین اور ساری رعایا کے ساتھ بھلائی سے پیش آتا رہے ۔

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا اور لوگ ان کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو گئے تو تین روز بعد خلیفہ کو منتخب کرنے کے لئے جمع ہوئے ۔حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا کہ پہلے تین آدمی اپنا حق تین آدمیوں کو دیکر دست بردار ہوجائیں ۔لوگوں نے اس بات کی تائید کی تو حضرت زبیر ،حضرت علی کو ،حضرت سعد بن وقاص حضرت عبد الرحمن کو اور حضرت طلحہ حضرت عثمان کو اپنا حق دیکر دست بردار ہو گئے ۔رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔

یہ تینوں حضرات مشورہ کرنے کے لئے ایک طرف چلے گئے ۔وہاں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اپنے لئے خلافت پسند نہیںکرتا اب آپ لوگوں میں سے بھی جو خلافت کی ذمہ داری سے دست بردار ہونا چاہے وہ بتا دے اس لئے کہ جو بری ہوگا ہم خلافت اسی کے سپرد کریں گے اور جو شخص خلیفہ ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ حضور ﷺ کی امت میں سب سے افضل ہو اور اصلاح امت کی بہت خواہش رکھتا ہو ۔اس بات کے جواب میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ یعنی دونوں حضرات چپ رہے ۔تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا آپ لوگ اس انتخاب کا کام ہمارے سپرد کر دیں ۔قسم خدا کی میں آپ لوگوں میں سے بہتر اور افضل شخص کا انتخاب کروں گا ۔دونوں حضرات نے فرمایا کہ ہم لوگوں کو منظور ہے ہم انتخاب خلیفہ کا کام آپ کے سپرد کرتے ہیں ۔

اب اس کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لیکر ایک طرف گئے اور ان سے کہا کہ اے علی ! آپ اسلام قبول کرنے میں سابقین اولین میں سے ہیں اور آپ رسول اللہ ﷺ کے قریبی عزیز ہیں ۔لہٰذا آپکو اگر خلیفہ مقرر کردوں تو آپ قبول فرمالیں اور اگر میں کسی دوسرے کو آپ پر خلیفہ مقرر کر دوں تو اس کی اطا عت کریں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے منظور ہے ۔

اس کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو لیکر ایک طرف گئے اور ان سے بھی تنہائی میں اسی قسم کی گفتگو کی تو انہوں نے بھی دونوں باتوں کو تسلیم کر لیا ۔جب ان دونوں حضرات سے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس قسم کا عہدو پیمان لے لیا تو اس کے بعد آپ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی بیعت کر لی ۔

تاریخ الخلفاءمیں ابن عساکر کے حوالے سے ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بجائے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اس لئے منتخب کیا کہ جو بھی صائب الرائے تنہائی میں ان سے ملتا وہ یہی مشورہ دیتا کہ خلافت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہی کو ملنی چاہےے وہ اس کے لئے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔چنانچہ ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حمد و صلوٰة کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے فرمایا اے علی ! میں نے سب لوگوں کی رائے معلوم کر لی ہے ۔خلافت کے بارے میں سب کی رائے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے لئے ہے ۔یہ کہہ کر آپ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ میں سنت خدا ، سنت رسول اللہ ﷺ اور دونوں خلفاءکی سنت پر آپ سے بیعت کرتا ہوں ۔اس طرح سب سے پہلے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے بیعت کی پھر تمام مہاجرین و انصار نے ان سے بیعت کی ۔

مسند امام احمد میں حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ سے اس طرح مروی ہے کہ انہوںنے فرمایا کہ میں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کیوں بیعت کی ؟ انہوںنے فرمایا کہ اس میں میرا قصور نہیں ہے ۔ میں نے پہلے حضرت علی ہی سے کہا کہ میں کتاب اللہ و سنت رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم کی سنت پر آپ سے بیعت کرتا ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا ۔اس کے بعد میں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے اسی قسم کی گفتگو کی تو انہوںنے قبول کر لیا ۔(تاریخ الخلفائ)

غنیة الطالبین جو حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی تصنیف مشہور ہے ۔اس میں بھی یہی روایت مذکور ہے ۔

آپ کے زمانہ خلافت کی فتوحات:حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی فتوحات کا دائرہ برابر وسیع ہوتا رہا ۔چنانچہ آپ کے زمانہ خلافت کے پہلے سال یعنی 24ہجری میں ”رے “ فتح ہو ا ۔رے خراسان کا ایک شہر ہے جو آجکل ایران کا دار السلطنت ہے اور اسے تہران کہتے ہیں۔ 26ہجری میں شہر سابور فتح ہوا ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ملک شام کے گورنر تھے انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کئی بار یہ درخواست پیش کی تھی کہ بحری بیڑا کے ذریعہ قبرص پر حملہ کی اجازت دی جائے مگر آپ نے اجازت نہ دی لیکن جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اصرار بہت زیادہ ہوا تو آپ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ آپ سمندر اور بادبانی جہازوں کی کیفیت مفصل طریقہ سے لکھ کر مجھے روانہ کرو ۔انہوں نے لکھا کہ میں نے بادبانی جہاز کو دیکھا ہے جو ایک بڑی مخلوق ہے اور اس پر چھوٹی مخلوق سوار ہوتی ہے ۔جب وہ جہاز ٹھہر جاتا ہے تو لوگوں کے دل پھٹنے لگتے ہیں اور جب وہ چلتا ہے تو عقلمند لوگ بھی خود زد ہو جاتے ہیں ۔اس میں اچھائیاں کم ہیں اور خرابیاں زیادہ ہیں ۔اس میں سفر کرنے والوں کی حیثیت کیڑے مکوڑوں جیسی ہے ۔اگر یہ سواری کسی طرف جھک جائے تو عموماً ڈوب جاتے ہیں اور اگر بچ جاتے ہیں تو اس حال میں ساحل تک پہنچتے ہیں کہ کانپتے رہتے ہیں ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا خط اس مضمون کا پڑھا تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ وَاللّٰہُ لَا اُحمِلَ فِیہِ مُسلِمًا اَبَدً ا۔یعنی قسم ہے اللہ کی میں ایسی سواری پر مسلمانوںکو کبھی سوار نہیں کر سکتا ۔(تاریخ الخلفاء)

اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قبرص پر مسلمانوں کا حملہ نہیں ہو سکا ۔لیکن جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت آیا تو ان کے حکم سے 27ہجری میں جہاز کے ذریعہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لشکر لیجا کر قبرص پر حملہ کیا ۔اس کو فتح کر لیا اور جزیہ لینے کی شرط منظور کر لی ۔

جس لشکر نے بحری راستہ سے جاکر قبرص پر حملہ کیا تھا اس لشکر میںمشہور معروف صحابی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ محترمہ ام حرام بنت ملحان انصاریہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ موجود تھے ۔آپ کی بیوی جانور سے گر کر انتقال کر گئیں تو ان کو وہیں قبرص میں دفن کر دیا گیا ۔اس لشکر کے متعلق اللہ کے محبوب دانا خفایا و غیوب جناب محمد مصطفےٰ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ عبادہ بن صامت کی بیوی بھی اس لشکر میں ہو گی اور قبرص ہی میں اس کی قبر بنے گی ۔ چنانچہ یہ پیشین گوئی حرف بحرف صحیح ہوئی اور کیوں نہ ہو کہ ندی کا بہتا ہوا دھارا رک سکتا ہے درخت اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے بلکہ بڑے سے بڑا پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے مگر اللہ کے محبوب پیارے مصطفےٰ ﷺ کا فرمان نہیں ٹل سکتا ۔

اسی 27ھ میں جرجان اور دار بجرد فتح ہوئے اور اسی سال جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کو مصر کا گورنر بنایا تو انہوں نے مصر پہنچ کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حکم سے افریقہ پر حملہ کیا اور اسکو فتح کر کے ساری سلطنتوں کو حکومت اسلامیہ میں شامل کر لیا ۔اس جنگ میں اس قدر مال غنیمت مسلمانوں کو حاصل ہوا کہ ہر سپاہی کو ایک ایک ہزار دینار اور بعض روایت کے مطابق تین تین ہزار دینار ملے ۔دینار ساڑھے چار ماشہ سونے کا ایک سکہ ہوتا ہے ۔اس فتح عظیم کے بعد اسی 27ھ میں اسپین یعنی ہسپانیہ بھی فتح ہو گیا اور 29ھ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حکم سے بعض دوسرے ممالک بھی فتح ہوئے ۔30ھ میں جو ر، خراسان اور نیشاپور صلح کے ذریعہ فتح ہوئے ۔اسی طرح ملک ایران کے دوسرے شہر طوس ،سرخس ،مرو اور بیہق بھی صلح سے فتح ہوئے ۔ اسقدر فتوحات سے جب بے شمار مال غنیمت ہر طرف سے دار الخلافت میں پہنچنے لگا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اس فراخ دلی سے مال تقسیم فرمایا کہ ایک ایک شخص کو ایک ایک لاکھ بدرے ملے جبکہ ایک بدرہ دس ہزار درہم کا ہوتا ہے ۔(تاریخ الخلفاء)

شہادت:حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ 35ھ 18 ذی الحجہ میں شہید ہوئے جبکہ آپ کی عمر بیاسی (82)سال کی تھی آپ کے جنازہ کی نماز حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ حش کوکب کے مقام پر جنت البقیع میں دفن کئے گئے ۔

اللہ تعالیٰ آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے ۔آمین
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 615509 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.