ڈبل ایکسیڈنٹ

 ( مزاح پر لکھنے کی ایک کوشش کی ہے )

میں اپنے آفس میں بیٹھا کام میں مشغول تھا ،اچانک ایک آدمی دفتر میں زخموں سے چور، سفید پٹیوں میں ملبوس لڑکھڑاتا ہوا دروازہ ناک کئے بغیر اندر داخل ہوا،اس نے یک ٹک مجھے گھورنا شروع کر دیا میں ابھی اسی صورتحال کے بارے سوچ ہی رہا تھا کہ وہ اسپرنگ کی طرح اچھلا اور نعرہ لگاتے ہوئے مجھ سے لپٹ گیا اور کہنے لگا کہ ارے!۔تُو تو” بابو“ بن گیا، زور سے اس نے میری ٹائی کو پکڑا اور اپنی طرف کھینچتے ہوئے مجھ سے استفسار کیا کہ مجھے پہچانا؟؟؟میں اس افتاد پر بوکھلایا ہوا تھا ابھی کوئی جواب ہی نہیں دیا تھا کہ وہ خود ہی بول پڑاکہ اب تم کیا پہچانو گے تم تو’ صاحب ‘بن گئے ہو۔

اس نے اپنے منہ سے پان کی پچکاری میرے آفس کی چمکتی دیوار پر پھینکی میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا تووہ مزے سے میرے سامنے والی کرسی پر قبضہ جماکر بیٹھ چکا تھاا ور اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے ہنس رہا تھا ،میں کبھی دفتر کی اس دیوار کی طرف دیکھ رہا تھا جس پر اس نے پان کی پچکاری پھینکی تھی تو کبھی اس ناہنجار کو غصے سے تک رہا تھا لیکن وہ بدستور اپنے پیلے دانتوں کی نمائش میں مصروف تھا میں نے اپنی ٹائی کی ناٹ کو درست کیا اور گلہ کھنکار کر اس سے پوچھا ۔کون ہو تم اور یہ کیا حرکتیں کر رہے ہو؟؟؟وہ بدستور مسکراتے ہوئے گویا ہوا !میں تیرا بچپن کا دوست ہوں۔

او بھئی !اپنا راستہ لو اور نکلو یہاں سے ،میںنے لہجہ ذرا سخت کیا تو اس کے چہرے پر حیرت کے آثار نظر آئے اور کہا یار میں تیرا بچپن کا دوست اور پڑوسی ارشد ہوں۔
کون ارشد؟
ارشد عرف ارشی دھبّو۔۔
اوہ۔ارشی !!!!یہ کیا حالت بنا رکھی ہے ؟؟میں نے تو آپ کو پہچانا بھی نہیں تھا یہ تو زخمی کیسے ہوا؟اورآجکل کیا کرتے ہو ؟؟؟

میرے سوالات کے جواب میں پہلے تو وہ دانتوں کی نمائش کرتا رہا ،پھر یہ کہل کر کہ پہلے چائے بسکٹ منگواﺅ اس کے بعد آپ کو تفصیل سے بتاﺅں گا،چارو ناچار اس بن بلائے مہمان کے لئے چائے اور بسکٹ سے تواضع کرنا پڑی۔
بابو صاحب! میں ان دنوں کمال کرتا ہوں۔
کمال؟؟؟
جی بابو جی!اس دور میں جو کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ہیں۔
مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا کہ صورت سے تو اجڈ اور جاہل نظر آتے ہو لیکن باتیں تم بھی کمال کرتے ہو،یہ بتاﺅ کہ زخمی کیسے ہوئے ہو؟؟؟
تکلیف سے کراہتے ہوئے اس نے جواب دیا کہ” ڈبل ایکسیڈنٹ “ہو گیا تھا۔
ڈبل ایکسیڈنٹ؟؟؟؟یہ کیا ہوتا ہے اور کیسے ہوا؟

جی صاحب جی! ڈبل ایکسیڈنٹ ہوا تھا وہ ایسے کہ میں بائیک پر کانوں میں مائیک لگا کر عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی کاایک دردناک گانا سنتے ہوئے جا رہا تھا کہ راستے میں سڑک کے کنارے ایک پری چہرہ کو دیکھا،اس حسین و جمیل چہرہ کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا اچانک اس نے اپنی خوبصورت بڑی آنکھوں سے جب میری طرف دیکھا ،نظروں سے نظریں ٹکرائیں تو دل مچل اٹھا ،دونوں ہاتھوں سے دل کو تھاماتو یہ بھول گیا کہ میں اس وقت بائیک چلا رہا ہوں ،ہاتھ جو چھوڑے تو بائیک ایک چمکتی دمکتی کار سے ٹکرائی ،زور سے دو طرح کی آوازیں آئیں ایک تو موٹر سائیکل ٹکرانے کی’ ٹھاہ‘ کی آواز اور دوسری تکلیف سے میری ’آہ ‘کی آواز۔ان آوازوں میں دل کی آواز بھی خاموش ہوگئی اور عیسیٰ خیلوی کا گانا بھی ۔پھر مجھے کچھ ہوش نہیں رہا لیکن آج بھی میںاس خوبصورت دلنشین چہرے کو ڈھونڈ رہا ہوں کہ جس کی وجہ سے میں اس حال میں پہنچاہوں۔

اس نے ایک لمبا سانس لیا اور پانی کا گلاس پینے کے بعد امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ صاحب جی!میرا ایک کام تو کردو ،آپ اخبار میں لکھتے ہو ،میرے بارے بھی لکھ دو شاید وہ حسینہ اخبار پڑھ کر مجھ سے رابطہ کر لے اور میری تلاش کا یہ ناکام سفر تکمیل کو پہنچ جائے ۔
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 187106 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.