خلیفہ راشد سیدناعثمان ذوالنورینؓ کی سیرت کے چند پہلو

بسلسلہ یوم شہادتِ عثمانؓ:18ذی الحج

سفید مائل زردی رنگت کے سفید ریش بزرگ اپنے مکان کے دریچہ پر کھڑے ہوئے تھے۔ بزرگ کے پر نور چہرے پر چیچک کے نشانات تھے۔ زلفیں کندھوں تک آئی ہوئی تھیں۔وہ اپنے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے لوگوں سے انتہائی مشفقانہ انداز میں فرما رہے تھے:
”اے لوگو! مجھے قتل نہ کرو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو مجھ سے توبہ کرا لو۔ واللہ! اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر کبھی بھی تم اکٹھے نماز پڑھ سکو گے اور نہ دشمن سے جہاد کر سکو گے۔ اور تم لوگوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا“۔

یہ بزرگ تیسرے خلیفہ راشد، سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ تھے۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کاتب وحی بھی تھے اور ناشر قرآن بھی۔ آپ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے چوتھے فرد تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوہرے داماد تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں جن میں سب سے بڑی سیدہ زینبؓ، پھر سیدہ رقیہ ؓ، پھر سیدہ ام کلثوم ؓاور پھر سیدہ فاطمہؓ ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ غزوہ بدر کے موقع پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا جو کہ اس وقت بستر علالت پر تھیں، کی تیمارداری کے لیے رک گئے اور غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔ مگر بقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اصحاب ِبدر کے مثل درجہ عطا ہوا۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال پرُ ملال کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تیسری بیٹی، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ جب وہ بھی وفات پا گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں اسی طرح ایک کے بعد ایک، عثمان کے نکاح میں دیتا جاتا(اورایک روایت کے مطابق سو)۔ خیال رہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وہ واحد ہستی ہیں جن کے نکاح میں کسی پیغمبر کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آئی ہوں۔ اس صفت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔

سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ 12 سال تک امت ِمسلمہ کے خلیفہ رہے اور کئی ممالک فتح کرکے خلافت اسلامیہ میں شامل کیے۔ آذر بائیجان، آرمینیا، ہمدان کے علاقوں میں بغاوت ہوئی، جس کا قلع قمع امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہی ہوا۔ اور اس بغاوت کا سدباب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور کی بغاوتوں کے سدباب کی طرح ہی اہم تھا۔ مزید یہ کہ ایران کے جو علاقے مثلاً بیہق، نیشاپور،شیراز، طوس، خراسان وغیرہ بھی خلافت عثمانی میں ہی فتح ہوئے اور قیصر روم بھی آں محترمؓ کے دور ہی میں واصل نار ہوا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی بحری جہاد کا آغاز ہوا۔ بحری جہاد کی ابتداءکرنے والے لشکر کے لیے جنت کی خوشخبری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لسان مبارکہ سے ارشاد فرما چکے تھے۔ امیرالمومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی اجازت سے اس وقت کے امیر شام سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پہلا بحری بیڑا تیار کیا اور جزیرہ قبرص سمیت کئی اہم خطوں پر پرچم اسلام لہرایا۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شرم و حیا اور جود و سخا کے پیکر تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کبھی زنا نہیں کیا اور نہ ہی کبھی شراب نوشی کی۔ آپ رضی اللہ عنہ انتہائی نرم خو اور سخی تھے۔ متعدد مرتبہ نادار اور مجبور مسلمانوں کے لیے اپنا مال بغیر کسی قیمت کے فی سبیل اللہ خرچ کیا۔ اور کئی دفعہ جہاد کے لیے مالی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مال و زر پیش کیا۔ امام تدبر و سیاست امیر معاویہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: سخاوت جنت کا درخت ہے اور عثمانؓ اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے اور کمینگی جہنم کا درخت ہے اور ابو جہل اس کی ٹہنیوں میں سے ایک ٹہنی ہے (کنزالعمال)۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلی مبارک سے کپڑا نسبتاً زیادہ اوپر اٹھا ہوا تھا اسی اثناءمیں علم ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ چلے آرہے ہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی عجلت میں کپڑا نیچے کر دیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد ام المو ¿منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس ضمن میں استفسار فرمایا تو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا کہ: کیا میں اُس سے حیا نہ کروں جس سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں(مسلم)۔

بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست ِمبارک کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا دست مبارک قرار دیتے ہوئے اُنؓ کی طرف سے بیعت کی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بدولت تقریباً ڈیڑھ ہزار مسلمانوں سے اپنی رضا کا اعلان فرمایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ اللہ آپ کو ایک قمیص پہنائے گا (یعنی خلافت عطا فرمائے گا) لوگ چاہیں گے کہ آ پ وہ قمیص اتار دیں(یعنی خلافت سے دستبردار ہو جائیں) اگر آپ لوگوں کی وجہ سے اس سے دستبردار ہوئے تو آپ کو جنت کی خوشبو بھی نہ ملے گی۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سبائی بلوائیوں کے پرُ زور مطالبہ کے باوجود بھی منصب ِخلافت سے دستبردار نہ ہوئے اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر جان لٹا دی۔ انہی نا ہنجار سبائیوں کے محاصرہ کے دوران آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے دریچہ سے ظاہر ہو کر ان عاقبت نا اندیش سبائی آلہ کاروں کو تنبیہ کی مگر اُن کی عقلیں ماﺅف اور ضمیر مردہ ہو چکے تھے۔

امام جود و سخا، پیکر شرم و حیا، ہم زلف علی مرتضیٰؓ،کاتب ِوحی، ذوالنورین، فاتح افریقہ،خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت و منقبت کے تفصیلی احاطہ کے لیے یہ کالم انتہائی مختصر ہے اس لیے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت مطہرہ کے محض چند پہلو سپرد تحریر کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما ئے، نیز ان مقدس شخصیات کی عظمت کے تحفظ کےلئے ہماری جان، مال اور وقت اپنی بارگاہ عالیہ میں قبول فرما لے،آمین۔

بروایت ترمذی ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہر نبی کے کچھ رفیق ہوتے ہیں، میرے رفیق جنت عثمانؓ ہیں۔ ترمذی ہی کی ایک روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی کا جنازہ لایا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھنے سے انکار فرمادیا ،صحابہؓ نے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم نے تو کبھی آپ کو کسی جنازہ سے انکار کرتے نہیں دیکھا ،تو رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِس شخص کو عثمانؓ سے بغض تھا پس اللہ کو بھی اس سے نفرت ہے۔ بروایت بخاری، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان ذوالنورین رضوان اللہ علیہم اجمعین احد پہاڑ پر چڑھ رہے تھے کہ پہاڑ ہلنے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احد! رک جا! اس وقت تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔غور فرمائیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے پہاڑ کی حرکت بھی برداشت نہیں کرتے بلکہ پہاڑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ رک جا۔ سوچیے! کیا آج صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلافت زہر اگلنے والی زبانوں، لکھتے قلموں اور سازشیں تیار کرتے ذہنوں کی دارو گیر اور سرزنش روک دی جائے؟ نبی کریم، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم تو پہاڑ کی حرکت برداشت نہیں کرتے تو کیا آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں بکنا برداشت کر لیا جائے؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ کے ان مہکتے پھولوں کو ایمان سے عاری مشہور کرنے کا کفریہ منصوبہ بآسانی پنپنے دیا جائے؟ہرگز نہیں! ! ! اللہ تعالیٰ ہمیں عظمت ِصحابہ ؓکے تحفظ کے لیے حتی المقدور سعی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

اسی سبائی سازش کے نتیجہ میں خلیفہ وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیاگیا۔ اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور عام مسلمان بغرض حج مکہ مکرمہ میں تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت سے دست بردار ہونے کو کہا گیا مگر بحکم نبوی آپ رضی اللہ عنہ نے یہ مطالبہ رَد کر دیا۔ اور چالیس دن بھوکے پیاسے روزہ کی حالت میں ان سازشی سبائیوں کے محاصرہ میں اپنے گھر میں ہی مقید رہے۔ دن رات نماز و تلاوت قرآن میں مشغول رہے۔ اوربالآخر 18ذی الحج، 35ہجری کو دوران تلاوت شہید کر دیے گئے۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
Muhammad Irfan Ul Haq Advocate
About the Author: Muhammad Irfan Ul Haq Advocate Read More Articles by Muhammad Irfan Ul Haq Advocate: 30 Articles with 68722 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.