حج و دیار حبیب ﷺ سے لوٹنے والوں کی زیارت کی فضیلت

 اسلام دین فطر ت اور خیر خواہی کا علمبر دار ہے یہ اپنے ماننے والو ں کے علا وہ نسلِ انسا نی کی فلا ح و بہبود ، فوائد ونفع رسانی کا بھی پورا پورا خیال کرتا ہے ۔ ارکان ِ اسلام کو ہی لیجئے !کلمہ ، نماز ، روزہ ،حج اور زکوٰة جہاں عبادت الہٰی اور اطاعت رسول ہیں وہاں انسانی فکر و عمل کی پاکیزگی اور اجتماعی فوائد کے حصول کا ذریعہ بھی ہیں ۔کلمہ طیبہ کے پڑھنے سے جب ایک انسان مسلمان ہوتا ہے تو اس پر کچھ حدود و قیود کا بھی نفاذ ہو جاتا ہے ۔اب وہ اپنے سابقہ گناہوں سے پاک ہو کر سلامتی وخیر کے حصار میں آگیا ۔اس حصار میں خود اپنے تائیں محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کو بھی اپنے ہاتھ اور زبان سے محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے ۔نماز جہاں عبادت خدا کا عظیم مظاہرہ ہے وہاں اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کی ہمدردی ، غمگساری ،معاشرتی و معاشی خبر گیری ،تہذیبی و تمدنی اثرات اور اخلاقی و روحانی طرز زندگی کا بھی عظیم موقعہ فراہم کرتی ہے ۔اسی طرح روزہ فکرِ معاش سے بے نیازی اور اطاعت ربانی کا سلیقہ سکھاتا ہے ۔زکوٰة محبتِ مال سے بے نیاز کرتے ہوئے اپنے غریب مسلمان بھائیوں کی مدد کا اسلوب سکھاتی ہے اور حج جہاں عبادتِ مالی ہے وہاں عبادت بدنی بھی ہے ۔اس میں اجتماعیت کا فروغ اور نسلی و لسانی تفاخر کا خاتمہ بھی ہے ۔امیری و غریبی کا فرق ختم کرنے والا اسلام کا یہ رکن اپنے اندر بڑی خوبیاں رکھتا ہے ۔حج جہاں ادائیگی کرنے والے کے لئے سامانِ بخشش و ذریعہ رحمت ہے وہاں فریضہ ¿ حج کی ادائیگی کرنے والے”حاجی“ کی زیارت کرنے والے اور دعائیں لینے والوں کے لئے بھی عظیم خوش خبریاں سناتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان معاشرے میں یہ عام رواج ہے کہ جب اُن کے عزیز و اقارب یا پڑوسی و ملنے والے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں یا حج سے واپس لوٹتے ہیں تو مسلمانوں کی بڑی تعداد مبارکباد ی کے لئے اور حج و عمرہ پر روانہ ہونے والے کی زیارت کے لئے اُس کے ہاں جمع ہوتے ہیں ۔اُس کو دعا کے لئے کہا جا تا ہے ۔دربار رسالت ﷺ پر سلام کے لئے عرض کیا جاتا ہے ۔کعبة اللہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا زبان سے نکلتی ہے قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔ اس دعامیں اُسے شامل رکھنے کی یاد دہانی کروائی جاتی ہے ۔یہ التجائیں بارگاہ ربُ العزت میں کرنے کے لئے اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اُس سفر پر جا رہا ہے جس سفر میں قدم قدم پر رحمت باری نے اُسے ڈھانپناہے ۔اُس سفر میں اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخششوں کے خزانے لٹائے جانے ہیں ۔بلکہ نبی اکرم نور مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا:” جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے حج کرے اور اس دوران اپنی بیوی کے قریب نہ جائے اور نہ کوئی گناہ کا کام کرے تو وہ اس طرح گناہوں سے پاک ہو کر لوٹتا ہے گویا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔“(بخاری)

نومولود بالکل گناہوں سے پاک ہوتا ہے ۔ایسے ہی حاجی جب حج کر لیتا ہے تو وہ اس بے گناہ بچے کی مانند ہوجاتا ہے یعنی اُس کے سابقہ سارے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ۔بلکہ نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ نے موذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو مزدلفہ کی صبح ارشاد فرمایا:”اے بلال رضی اللہ عنہ لوگوں کو خاموش کراﺅ۔پھر ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے اس اجتماع پر فخر فرماتا ہے اور اس نے تمہارے گناہ گاروں کو نیکوں کے سبب بخش دیا ہے اور تمہارے نیکوں نے جو مانگا اُنہیں عطا کر دیا ہے اب اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اپنے گھروں کو لوٹ جاﺅ۔“(ابن ماجہ)

اس فرمان ِ رسول ﷺ سے معلوم ہوا کہ نیکوں کی صحبت فائدہ مند ہے دنیا و آخرت میں کام آتی ہے ۔اسی لئے حاجی سے دعا منگوانے کا حکم ہے بلکہ حدیث پاک میں ہے ایک کہ حاجی چار سو آدمیوں کی شفاعت کرے گا۔(ترغیب)

ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول رحمت ﷺ نے فرمایا جب تم حاجی سے ملو تو اسے سلام کرو اور اس سے مصافحہ کرو اور اس کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے لئے دعائے مغفر ت کراﺅ کیونکہ وہ بخشا ہوا لوٹا ہے ۔(مشکوٰة)

حاجی جب حج کر کے واپس گھر لوٹ کر آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں سے مالا مال ہوتا ہے وہ بارگاہ رب العزت سے مقرب و مقبول بندہ بن کر لوٹتا ہے ۔اس کی دعا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے ۔

اس لئے اس سے ملاقات کرنا اور اس سے دعا کروانا باعثِ سعادت ہوتا ہے ۔نبی مختار ،محبوب پروردگار ،امت کے غمخوار حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا فرمان ہے جس کے راوی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں :” کہ جس وقت تو کسی حاجی سے ملے اس کو سلام و مصافحہ کر اورا س کو اپنی مغفرت کا کہہ اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اس لئے کہ اُس یعنی حج سے واپس آنے والے کو بخش دیا گیا ہے ۔(مسند احمد)

حاجی کو اس کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ملنا اور سلام میں سبقت لے جانا بلکہ ساتھ مصافحہ بھی کرنا چاہئے کیونکہ مصافحہ سنت رسول ﷺ بھی ہے اور اچھے تعلقات کا مظہر بھی ۔ملاقات کے بعد حاجی سے دعا کی التجا کی جائے کیونکہ اس وقت کی دعا قبول ہوتی ہے ۔اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی اخذ ہوا کہ جب اللہ کے خاص نیک بندے یعنی اہل روحانیت ،صالحین ،فقیر و درویش لوگ حج سے واپس تشریف لائیں تو ان سے ملاقات و زیارت کے لئے ضرور حاضری دینا چاہئے ۔

دعا تو اللہ تعالیٰ ہی سے کی جاتی ہے مگر انداز دعا بھی قبولیت دعا میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے ۔جو بندہ جتنی عاجزی و انکساری ،تواضع و نیک نیتی خلوص و خوف الہٰی سے دعا کرے گا ۔اُس کی دعا اتنی ہی تیزی سے قبولیت کی منازل طے کر ے گی ۔ایسا ہی ایک با کردار ،نیک سیرت ،صاحبِ تقویٰ و پرہیز گاری ،عجز و انکساری کا پیکر ولی اللہ صفت بزرگ غلاف کعبہ کو پکڑے حج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کررہا تھا ۔

”الہٰی !اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں اور کلمہ حج میں دو حرف ہیں ح اور ج ، الہٰی! ح سے تیرا حکم اور ج سے میرے جرم مراد ہیں تو اپنے حکم سے میرے جرم معاف فرمادے ۔“

آواز آئی!
”اے میرے بندے تو نے کتنی عمدہ مناجات کیں،پھر کہو۔“
وہ بندہ خدا دوبارہ نئے انداز سے یوں پکارتا ہے:
”اے میرے بخشنہار ،اے غفار! تیری مغفرت کا دریا گنہگاروں کی مغفرت وبخشش کے لئے جوش زن ہے اور تیری رحمت کا خزانہ ہر سوالی کے لئے کھلا ہے ،الہٰی ! اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں اور حج دو حرف پر مشتمل ہے ح اور ج ،ح سے اگر میری حاجت اور ج سے تیرا جود مراد ہے تو توُ اپنے جو دو کرم سے اس مسکین کی حاجت پوری فرمادے۔“

آواز آئی!
”اے جوانمرد تو نے کیا خوب حمد کی ،پھر کہو۔“
وہ پھر عرض کرنے لگا:
”اے خالق کائنات !تیری ذات ہر عیب و نقص سے اورکمزوری سے پاک ہے تو نے اپنی عافیت کا پردہ مسلمانوں پر ڈال رکھا ہے ،میرے مولا! اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں ۔حج کے دو حرف ہیں ح اور ج ، ح سے اگر میری حلاوت ایمانی اور ج سے تیری جلالت جہانگیری مراد ہو تو توُ اپنی جلالت جہانگیری کی برکت سے اس ناتواں ،ضعیف و نزار بندے کے ایمان کی حلاو ت کو شیطان کی گھات سے محفوظ رکھنا۔“

آواز آئی:
میرے مخلص ترین و صادق بندے ، تونے میرے حکم ،میرے جود و کرم اور میری جلالت جہانگیری کے توسل سے جو کچھ طلب کیا میں نے تجھے عطا فرما یا ۔ہمارا تو کام ہی یہی ہے کہ ہر مانگنے والے کا دامن مراد قبولیت سے بھر دیں مگر بات تو یہ ہے کہ کوئی مانگے تو سہی۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے کوئی راہرو منزل ہی نہیں

حضرت شیخ یحییٰ قدس سرہ جب حج سے فارغ ہوئے تو واپسی پر خانہ کعبہ کے دروازے پر آکر یوُں التجا کرنے لگے۔:”الہٰی دنیاوی بادشاہوں کا معمول و دستور ہے کہ وہ اپنے خدام کو بوقتِ رخصت خدمت گاری کے صلہ میں بیش قیمت تحائف اور گونا گوں انعامات سے عزت افزائی کرتے ہیں اور جب وہ خادم اپنے اپنے خویش و اقربا ،احباب و رفقاءسے ملتے ہیں تو ان سے وہ لوگ تحائف و ہدایا اور تبرکات کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔وہ خدام بادشاہوں سے حاصل کردہ تحائف و تبرکات اپنے عزیز و اقارب کو دیتے ہوئے خوشی و مسرت کی بے کیف لذت سے سرشار ہوتے ہیں ،خدایا !میں تیرا بندہ اور تو میرا ایسا بادشاہ ہے کہ ہر ایک کو بادشاہی تیری ہی عطا کردہ ہے ،تو ان کا بھی حاکم اور مالک ہے ،الہٰی !میں چند روز تیرے اس عزت و حرمت والے گھر کی جاروب کشی اور خدمت سے مشرف ہوا ہوں ،اب میری واپسی ہے ۔کچھ تحائف و تبرکات تیرے آستانہ فیض سے لے جانے کا طالب ہوں۔“

آواز آئی:
”میرے بندے تو اپنے متعلقین کے لئے کیا تحفے طلب کرتا ہے ۔؟“
عرض کیا:
”الہٰی!میں تجھ سے اپنے رفقاءمتعلقین کے لئے رحمت اور مغفرت کے تحفے مانگتا ہوں ،جب میں تیرے کرم سے بعافیت اپنے وطن پہنچوں تو خویش و اقارب کے مطالبہ پر پیش کر سکوں ،تاکہ مجھے شرمساری کا سامنانہ کرنا پڑے۔“

ندا آئی:
”میرے بندے جاﺅ ہم نے تجھے تمہاری طلب سے بھی زیادہ عطا فرمایا، جب توُ اپنے عزیزوں سے ملے تو میری مغفرت و رحمت کی انہیں بشارت سنا دینا اس لےے کہ میںکریم ہوں ،جب گدا کریم کے دروازے پر جاتا ہے تو وہ رد نہیں کرتا ،اے یحییٰ !جاﺅ میں نے تجھے اپنے جود و کرم کے بے پایاں دریا سے ایمانداروں کے لئے شفاعت و مغفرت کے تحفے عطا کر دئے ہیں ۔“
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 614828 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.