سنت رسول ﷺ پر پابندی کیوں؟

ایک طرف پوری دنیا کے مسلمان یہودیوں اور صلیبیوں کی سرور کون و مکاں ﷺ کی شان ارفع نشاں میں کی جانے والی خباثتوں کے صدمے سہ رہے ہیں تو دوسری طرف قرآن و سنت کے نام پر وجود میں آنے والے ملک پاکستان میں امریکی ہائی کمان اور پاکستان کی حکومت و افواج پاکستان کی ہائی کمان کی طرف سے فوج میں دفاع وطن کی غرض سے بھرتی کے لیئے آنے والے باریش نوجوانوں کو سنت رسول منڈانے کا کہا جارہا ہے۔ اس قسم کی پابندی ہرگز مناسب نہیں اور نہ ہی پاکستان کے مسلمان اس پابندی کو قبول کریں گے۔ فوجی بھرتی دفتر میں جانے والے چند نوجوانوں نے مجھے بالمشافہ بتایا کہ ہم بھرتی دفتر گئے تو وہا ں کے عملہ نے کہا کہ تمہیں داڑھی منڈانے کا کہا جائے تو منڈا دوگے ؟ جس پر امیدواروں نے کہا کہ یہ کیسی بات ہے ہم نے داڑھی سنت رسول سمجھ کر رکھی ہے۔ آپنے خود داڑھی رکھی ہوئی ہے اور ہمیں داڑھی منڈانے کا کہ رہے ہیں کیونکہ وہاں موجود ذمہ دار فرد کی داڑھی تھی۔ اس نے کہاکہ ہم کیا کریں اوپر سے احکامات ہیں۔ اس طرح چند نوجوان بھرتی ہونے سے انکاری ہوگئے اور انہوں نے عملہ کو جواب دیا کہ ہم کسی صورت میں سنت رسول نہیں منڈائیں گے۔ افواج پاکستان میں اس قسم کی پابندیا ں کیوں نافذ کی جارہی ہیں ؟ قوم اس سے بے خبر نہیں ۔ امریکہ داڑھی والوں کو دہشت گرد قراردیتا ہے اور ہمارے ملک کی پالیسیا ں امریکہ کے تابع ہیں۔ دور غلامی میں انگریزوں نے داڑھی پر پابند لگائی ہوئی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ پابندی قائم تھی بعد میں داڑھی رکھنے کے لیئے باقاعدہ افسران بالا کو درخواست دینے اور اجازت ملنے پر داڑھی رکھنے کی اجازت ملتی رہی۔ پھر جنر ل ضیاءالحق صاحب کے دور میں داڑھی سے پابندی اٹھا لی گئی مگر داڑھی رکھنے والے کو اپنے دفتر میں داڑھی رکھنے کا اندراج کراناتھا۔ وہ بھی اس لیئے کہ داڑھی رکھنا مذاق نہ بن جائے۔ کہ کبھی رکھیں اور کبھی منڈادیں۔ اسکے بعد پاک فوج کے کئی جرنیلوں نے بھی سنت رسول ریش مبارک رکھیں ۔ اب بھر صلیبیوں کے کہنے پر سابقہ خباثت واپس لائی جارہی ہے۔ تو میں اتنا بتادوں کہ سنت رسول کی مخالفت کرنے والے کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ سنت رسول میں لا محدود برکتیں ہیں۔یہ سنت رسول وہ اسوہ حسنہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ترجمہ بے شک رسول ﷺ کی ذات میں تمہارے لیئے بہترین نمونہ ہے(سورة احزاب آیہ نمبر21)۔ صلیبیوں اور یہودیوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کو سنت رسول ترک کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ جب مسلمان اپنے رسول ﷺ کی سنت کو ترک کریں گے تو اللہ تعالی کی رحمتیں اور نعمتیں جو پیارے نبی ﷺ کے وسیلہ سے امت کوحاصل ہوتی ہیں ان کا نزول رک جائے گا۔ اور پھر نام کے مسلمان رہ جائیں گے جبکہ کام کے لحاظ سے یہودوہنود اور نصاری ہوں گے ۔ بر صغیر میں انگریزوں نے اپنی آمد کے بعد بنیادی کام یہی کیا کہ مسلمانوں کا کلچر تبدیل کیا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا قیام ۔ سرکاری سندات پر ملازمتیں۔ سوٹ اور ٹائی، کھانے کے انگریزی آداب، کھڑے ہوکر کھانا، سنت رسول ہاتھ سے کھانے کی بجائے چھری کانٹے سے کھانا، یہاں تک کہ رفع حاجت اس انداز سے کہ جسم اور کپڑوں کا پاک رہنا محال، فوجی میسوں اور کلبوں میں سوٹ ٹائی اور اپنی رانی بیگم کے ساتھ داخلے لازمی قرار دیئے گئے۔ شراب نوشی عام تھی اور فوجی افسران کا یہ طرہ امتیاز سمجھا جاتا تھا مگر اللہ بھلاکرے جنرل ٹکا خان اور پھر جنرل ضیاءالحق کا کہ جنہوں نے ام الخبائث پر میسوں میں اور پھر کلبوں میںپابندی لگادی۔ ام الخبائث پر ملک میں سر عام پابند ی کا سہرا جناب ذوالفقار علی بھٹو شہیدرحمة اللہ علیہ کو بھی جاتا ہے۔ اس وقت موضوع بحث داڑھی ہے جو سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سیدالانبیاء ﷺ تک تمام انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام نے رکھی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، ائمہ اہل بیت کرام ودیگر جملہ ائمہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شریعت کے مطابق داڑھیاں رکھیں۔ ان سے پیار کرنے والے متبعین اور علما کرام، مشائخ عظام نے شرعی داڑھیاں رکھیں۔ مسلمان جرنیلوں اور حکمرانو ں نے داڑھیاں رکھیں۔ عام مسلمان اس اپنے مسلمان ہونے نشان قرار دیتے ہوئے رکھا کرتے تھے اور آج بھی داڑھی کی وہی حیثیت برقرار ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سیدنا حضرت آدم علیہ السلام اور انکی اولاد میں تشریف لانے والے انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام بھی داڑھیاں رکھتے تھے تو یہ چٹ کرانے کی قباحت کب پیدا ہوئی؟ قرآن کریم میں ایک ملعون قوم کے کرتوتوں کا ذکر ہے اس قوم کی طرف حضرت لوط علیہ السلام تشریف لائے۔ یہ خبیث اپنے ہم جنسوں کے ساتھ بد فعلی کے مرتکب تھے۔ اس برائی کو اولا ایجاد کرنے والی یہی قوم تھی۔ چہرہ صاف رکھنے کے لیئے یہ لوگ داڑھیاں صاف کرتے تھے۔ پھر اس قوم پر آسمان سے پتھر برسے۔ اور یہ قوم اللہ کے عذاب کا شکار ہوئی۔صلیبی ممالک میں آج بھی ہم جنس پرستی کے نام سے بد فعلی جاری ہے بلکہ اسے قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ چونکہ انگریز کی غلامی نے مسلمانوں کو قرآن و سنت فہمی سے بیگانہ ہی کردیا کہ اب مسلمانوں کے نزدیک سنت طریقو ں کو وہ مقام حاصل نہیں جو ایک مسلمان کی شان ہونی چاہیئے۔ اب میں چاہوں گا کہ اپنے قابل رحم مسلمان بھائیوں بہنوں کے سامنے قرآن و سنت کی روشنی میں سنت رسول پر عمل کے لزوم کی دلیل یہ ہے کہ ارشاد باری تعالی ہے : ترجمہ: اے محبوب ! تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہوتو میرے فرمانبردار ہوجاﺅاللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورة آل عمران آیہ نمبر 31) سورة احزاب کی آئت نمبر 21 کا اوپر حوالہ دیدیا ہے کہ انسانی زندگی کے معمولات ہر انسان کو سرانجام دینے ہیں۔ دنیا میں آنے والا ہر بچہ حوش سنبھالتا جاتا ہے اور اپنے اعمال کی ادائیگی میں کسی نہ کسی کی پیروی کرتا ہے۔ یعنی چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ کامیاب اور مطمئن عمل کے لیئے کسی کامل رہنما کی پیروی کامیابی کی امین ہے۔ انسان کے خالق کا احسان عظیم ہے کہ اس نے اکمل الکاملین سیدالعالمین ﷺ کو نوع انسانی کی رہنمائی کے لیئے بھیجا۔ مجمع الصفات انسانی فطرت کے عین مطابق احکامات الہی پر عمل کرکے دکھانے والی ذات ہمہ جہت کمال کے اس درجہ پر ہیں کہ اس درجہ سے اوپر کوئی مقام ہی نہیں۔ انسانی فطرت کے عین مطابق اور عمل میں انتہائی سہل ہے۔ یہی داڑھی کو لے لیں کہ داڑھی رکھ کر کبھی کبھار خط کرالینا آسان ہے جبکہ منڈانا ( شیو ) کتنا مشقت والا کام ہے۔ اگر روزانہ چٹ نہ کریں یا نہ کرائیں تو دیکھنے والے کہتے ہیں شیو بڑھی ہوئی ہے۔ اگر خود کریں یا کرائیں تو پیسے اور وقت کا ضیاع ہے۔ اب یہ ملاحظہ فرمائیں کہ کائنات کے امام حجة العالمین خاتم الانبیاءو المرسلین ﷺ داڑھی بارے کیا فرماتے ہیں: بخاری شریف کتاب للباس میں سیدنا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روائت ہے: ترجمہ( سرور کون و مکاں ﷺ نے فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو تم داڑھیاں بڑھاﺅ اور مونچھوں کو کٹاﺅاور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب کبھی حج یا عمرہ کرتے تو داڑھی کو مٹھی میں پکڑ لیا کرتے تھے پس جو مٹھی سے زائد ہوتی اس کو کتروادیتے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے حافظ اب حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فتح الباری شر بخاری میں لکھتے ہیں: ترجمہ: یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ٹھوڑی کے نیچے سے داڑھی کو پکڑ کر چار انگل کے نیچے سے جو داڑھی بچتی تھی اس کو کاٹ دیا کرتے تاکہ وہ لمبائی میں برابر ہوجائے پھر تحریر فرماتے ہیں:۔یعنی میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کا مطلب جو میری سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما قبضے سے زیادہ داڑھی کے کترنے کو حج کے ساتھ مخصوص نہ سمجھتے بلکہ داڑھی بڑھانے کے حکم نبوی ﷺ کو داڑھی کی اس صورت کیساتھ مخصوص سمجھتے تھے یعنی مٹھی سے زیادہ بیڈھب لمبی چوڑی داڑھی نہ ہو اور اس کی تائید میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کی لمبی بیڈھب داڑھی دیکھی تو اپنے ہاتھ سے ایک قبضہ سے زائد کاٹ دی۔ علامہ عینی رحمة اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کی شر ح میں اسی طرح لکھا ہے۔ ترمذی شریف کی حدیث کا ترجمہ: سرور کون و مکاں ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو حکم فرمایا کہ مونچھیں کٹاﺅ اور داڑھیاں بڑھاﺅ۔

اس موضوع پر کثیر دلائل ہیں۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ کیا عمل خلاف سنت ہے اور کیا نہیں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا لھذا پاکستان میں کسی بھی محکمہ میں رسول پاک ﷺ کی کسی سنت پر پابند ی توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہے۔ جنرل کیانی اس کا نوٹس لیں کیونکہ وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے داڑھیاں رکھیں مثل انکے قریبی بزرگ ماسٹر شہسوار مرحوم کے۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128176 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More