یہاں پگڑی اچھلتی ہے

پاکستان کے ایک بڑے اشاعتی ادارے نے اپنے اخبارات کی مین لیڈ میں سرکاری ملازمین کو یہ خبر دے کے انہیں شادی مرگ کی کیفیت میں مبتلا کر دیا تھا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر ساٹھ سال سے بڑھا کر باسٹھ سال کر دی گئی ہے۔میں نے کئی بابوں کو یہ خبر پڑھ کے لڈیاں ڈالتے دیکھا۔یہ میڈیا گروپ نہ صرف اپنے اردو اور انگریزی کے اخبارات چھاپتاہے بلکہ ایک مشہور و معروف نیوز چینل بھی چلاتا ہے۔انگریزی نیوز چینل کا تجربہ بھی کر چکا ہے اور ایک انٹرٹینمنٹ چینل بھی مہارت سے چلا کے اربوں کما رہا ہے۔اس ادارے کی طرف سے یہ خبر بریکنگ نیوز کے طورپہ اپنے قارئین تک پہنچائی گئی اور انہیں سی این جی کے بعد عید کا ایک اور تحفہ دے دیا گیا ۔اس خبر پہ بابوں کی خوشی دیدنی تو نوجوانوں کی مایوسی بھی دیدنی تھی کہ اگر بابوں کو اسی طرح توسیع پہ توسیع ملتی رہی تو نوجوانوں میں بے روزگاری ختم نہیں ہو سکتی۔ہم نے بھی یہ خبر پڑھی اور چونکہ معاملہ کچھ ایسے لوگوں کی خوشی کا تھا جن کو خوشیوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔اس لئے چپ ہو رہے کہ ساٹھ سال کے قریب پہنچ کے تو بندہ بس باربرادری کے ہی کام آسکتا ہے۔اس عمر میں جو لوگ کل وقتی بیویوں کے ہاتھ لگتے ہیں ۔جلد ہی اپنی پنشن بک بیگم کو تھما کے اگلے جہاں سدھار جاتے ہیں۔

تفنن بر طرف،اس میڈیا گروپ کے اس ذہین اور ہونہار رپورٹر نے نہ صرف یہ خبر دی کہ اس معاملے کا نوٹیفیکیشن جاری ہو گیا ہے بلکہ یہ خبر بھی کہ یہ کام پتلی گلی میں داخل ہو کے کیا گیا ہے۔بجائے اس کے کہ اسے پارلیمنٹ سے منظور کروایا جاتا صدر نے پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا انتہائی خفیہ طریقے سے اس کی منظوری بھی دے دی ہے۔ساتھ ہی ہمارے اس دوست نے حسبِ قاعدہ اور حسبِ دستور حکومت کی بد نیتی اور بد انتظامی کا احوال بھی لکھ دیا کہ حکومت کے کچھ چہیتے سکریٹریز چونکہ اس سال ریٹائر ہو رہے تھے ۔انہیں دو سال کی ایکسٹینشن دینے کے لئے حکومت نے یہ سارا سوانگ رچایا ہے۔رپورٹر نے اسی پہ بس نہیں کی بلکہ اس نے ان سارے سکریٹریز کے نام ،عمر اور ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ تک لکھ دی تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔

لیکن بابوں کے ارمانوں پہ اگلے دن کے اخباروں میں چھپی اس خبر نے منوں کے حساب سے اوس ڈال دی کہ یہ خبر جعلی ہے کہ وہ نوٹیفیکیشن جس کو بنیاد بنا کے اتنے بڑے میڈیا گروپ نے یہ بریکنگ نیوز چلائی ہے وہ نوٹیفیکیشن ہی جعلی ہے۔جس اخبار نے یہ خبر دی تھی اس کے آخری صفحے کے نچلے حصے کی سنگل کالمی خبر تھی کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اس خبر اور اس نوٹیفیکیشن سے لا علمی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے ہاں اس طرح کی کوئی تجویز سرے سے زیر غور ہی نہیں۔اب وہ بابے جو سٹھیا کے قلابازیاں کھا رہے تھے وہ سر کے بل کھڑے ہیں اور اس رپورٹر کو، اس میڈیا گروپ کو کوس رہے ہیں کہ ان کی عمر کا لحاظ کئے بغیر ان کے ساتھ اس طرح کا گھناﺅنا مذاق کیا گیا۔مزے کی بات یہ کہ رپورٹر صاحب نے تردیدی خبرکے آخر میں آدھی لائن میں" ادارہ اس غلطی پر معذرت خواہ ہے" لکھ کے حساب چکتا کر دیا۔

ادارہ کس غلطی پر معذرت خواہ ہے اس کا کوئی ذکر نہیں۔اخبار میں خبر کی اشاعت کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔خبر رپورٹر ڈھونڈھ کے لاتا ہے۔اس خبر کو چیف رپورٹر دیکھتا ہے کہ وہ رپورٹنگ کے شعبے کا انچارج ہوتا ہے۔ پھر خبر نیوز ایڈیٹر کے پاس جاتی ہے۔وہ اس کے وزن کا اندازہ لگاتا ہے۔اس کی جگہ متعین کرتا اور خبر کی سرخی نکالتا ہے۔بڑی سرخی اور فرنٹ اپر پیج کو تو ایڈیٹر بھی دیکھتا ہے اور بڑے اخباری گروپوں میں تو باقاعدہ گروپ ایڈیٹر مین لیڈ کو اپروو کرتا ہے اور یوں کوئی بھی خبر اخبارات کی شہہ سرخی بن کے قاری تک پہنچتی ہے۔آپ ذرا اندازہ لگائیے کہ رپورٹر کا تو ان بڑے اداروں میں بھی تقریباََ وہی حال ہے جو آج سے پچاس سال پہلے ہوا کرتا تھا۔وہ اب بھی عید شبرات پہ شہر کے سیاسی اور متمول حضرات سے عیدی کا طلبگار ہوتا ہے لیکن نیوز ایڈیٹر، ایڈیٹر اور گروپ ایڈیٹر تو آجکل کافی مزے میں ہوتے ہیں۔انہوں نے اس خبر کو شائع کرنے سے پہلے متعلقہ محکمے سے استفسار کیوں نہیں کیا؟اخبارات کے دفاتر میں تو ٹیلی فون کا لاکھوں کا بل آتا ہے۔گروپ کے ٹی وی چینل اور سارے اخبارات نے اس خبر کو نشر اور شائع کیا لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کم ازکم اپنی ساکھ ہی کے کے لئے اس خبر کی تصدیق کر لیتا۔

چونکہ اس خبر میں اس یتیم حکومت کے لتے لینے کا سارا سامان موجود تھا اس لئے صرف ایک جعلی نوٹیفیکیشن کی بنیاد پہ حکومت کے حسبِ قاعدہ لتے لے لئے گئے اور بعد میں حقیقت کھلنے پہ اس کی ایک سنگل کالمی نام نہاد تردیدی خبر لگا کے حکومت کا منہ بند کر دیا گیا حالانکہ اس خبر میں پرانی خبر کی کوئی تردید نہ تھی۔اصول ہے کہ خبر جتنی بڑی لگائی جائے تردید بھی اسی مناسبت سے لگائی جاتی ہے لیکن حکومت چونکہ خود نالائق ہے اور طاقتور میڈیا مالکان سے لرزاں بھی، اس لئے کسی حکومتی اہلکار کو بھی اس بڑے میڈیا گروپ کے ساتھ پھڈے کی ہمت نہیں ہوئی۔ قمر زمان کائرہ جو روز اپنے حریفوں کے لتے لیتے نظر آتے ہیں،اس معاملے میں قانون کی طرح خاموش رہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں بزرگسرکاری ملازمین کی دل شکنی،حکومت کو نا اہل ثابت کرنے اور اس کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش اور ملک کے صدر کو بدنام کرنے کی سازش کرنے کے جرم میں اس میڈیا گروپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا جاتا حکومت دبک کے بیٹھ گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں۔ملک کا منہ زور اور مادر پدر آزاد میڈیا جو مرضی چھاپے۔جس کے مرضی جذبات مجروح کرے اسے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔سنسنی پھیلانے اور پیسہ کمانے کی دوڑ لگی ہے اور ہر کوئی یہ دوڑ جیتنا چاہتا ہے۔ حکومت اس لئے چپ ہے کہ الیکشن سر پہ ہیں ۔اس حالت میں بھڑوں کے چھتے میں کون ہاتھ ڈالے؟انصاف کے باقی ذمہ داروں کے نزدیک خبر کا غلط یا صحیح ہونا کوئی بڑا مسئلہ ہی نہیں۔باقی رہے عوام ،وہ تو ہوتے ہی جانور ہیں انہیں اپنے چارے سے غرض ہے وہ نتھوڈالے یا خیرا۔ان کا کام چرنا ہے سو وہ چر رہے ہیں۔پتہ نہیں اور کتنی جعلی اور غلط خبریں روزانہ ہم پڑھتے ہوں گے اور ان پہ اپنا بلڈ پریشر کم زیادہ کرتے ہوں گے لیکن اس سے میڈیا گروپوں حکومت اور انصاف کے ایوانوں کو کیا فرق پڑتا ہے؟ہماری خوشی یا غم کا ان دولت کے پجاریوں سے کیا علاقہ؟اخبار کی سنگل کالمی خبر غلط ثابت ہو جائے تو اخبار کے دفتر میں صفِ ماتم بچھ جاتی ہے۔یہاں لیڈ جعلی ہوتی ہے اور کسی کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی۔کیا کبھی ہمارے ملک میں بھی غلطی پہ معذرت کا اصول رواج پائے گا یا یہاں غریب کی جورو ہمیشہ کی طرح سب کی بھابھی کا رول ہی ادا کرتی رہے گی۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268809 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More