”قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان“ اپنے نام کا حق ادا کرے۔

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی جانب سے موصول 16اکتوبر کے پریس ریلیز اوراس کے بعد دیگر اخباروں یا مدیران کے تبصرہ سے جو باتیں واضح ہو رہی ہیں اُس سے یہی سمجھ آرہی کہ کونسل کو ملنے والے بجٹ سے اردوزبان کا کچھ بھلا ہو نہ ہو اردو سے جڑے ہوئے افراد کا کچھ مالی فائدہ ضرور ہو جائے۔ حالانکہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یو این آئی نے اردو سروس اُس وقت شروع کیا تھا جب تکنیکی وسائل محدود تھے، پھر بھی اردو اخباروں کو نیوز فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جب اردو اخباروں کو بنی بنائی خبریں ملنے لگیں تو اکثر مالکانِ اخبار نے ایڈیٹنگ کا کام کاتبوں سے لینا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ اردو ایڈیٹر ز ، مترجم اور پروف ریڈر ز کو چھٹی دے دی جس کی وجہ سے ادارے کو معقول رقم کی بچت ہونے لگی اور اخبار نکالنا ایک فائدہ مند تجارت بن گیا۔ اب جب کمپیوٹر آگیا تب تو خیر مالکان کے دونوں ہاتھ گھی میں اور سرکڑاہی میں ہیں، یعنی بچت ہی بچت۔ کتابت کے زمانے میں چار صفحات پر مشتمل اخبار کے لئے کم سے کم چھ خوش نویس، چار ایڈیٹر مع پروف ریڈر ، ایک پیسٹر اور ایک منیجر کام کرتے تھے۔ جبکہ کمپیوٹر کی سہولت ملنے کے بعد اب صرف دو کمپوزر دو ایڈیٹربغیر پروف ریڈر سے لے لیا جاتا ہے۔ چند ہی اخبار ایسے ہیں جس میں ایک صفحہ کے لئے کم سے کم ایک ایڈیٹر اور ایک کمپوزر کام کرتا ہے۔ ایسی صورت میں خبروں کا معیار وہی ہو سکتا ہے جس معیار کا کونسل میں بیٹھ کر مدیران نے اظہارِ خیال کیا ہے۔ ان لوگوں نے اپنی کوتاہی کے لئے یو این آئی اردو سروس کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ہم نے خود جب اخبار میںشائع شدہ املا کی غلطیوں کی جانب توجہ دلایا تو جواب یہ ملا کہ ہمارے یہاں ”پروف ریڈنگ کا کوئی شعبہ نہیں ہے“۔

اخبار کے معیار کے متاثر ہونے کے بارے میں مدرسے کے فارغین کے پیشہ صحافت سے جڑنے کے بارے میں ہے کہ وہ اکثر انگریزی اور ہندی زبان کم جانتے ہیں،حالانکہ کم واقفیت والے کو ملازمت پر رکھ کر کم اجرت دے کر اخبار نے خود اپنا معیار خراب کیا ہے۔اس میں فارغین مدارس کا کیوں قصوروار ٹھہرایا جارہا ہے؟ لیکن دوسری طرف اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ وہی مدارس کے فارغین جب پختہ ہو جاتے ہیں تو بہتر اور معیاری کام بھی کر رہے ہیں۔ رہی بات ٹائپسٹ، کمپوزر یا مترجم کے نہ ملنے کی تو اس بارے میں ہم یہی جانتے ہیں اس کا پروڈکشن خود این سی پی یو ایل نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ ملک کے کونے کونے میں کمپیوٹر، کیلی گرافی اور اردوسکھانے کے مراکز قائم کیے ہیں۔ یقینا انہیں معیاری کھیپ تیار کرنی چاہئے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ خود کونسل کیسے ایک معیاری کھیپ تیار کرسکتی ہے جبکہ ان کے یہاں کام کرنے والے کا بھی معیارپختہ اور بہتر نہیں ہے۔ ثبوت کے لئے وہی 16اکتوبر کا پریس ریلیز ملاحظہ فرمائیں جس میں لفظ ”بالعموم“ کی دو جگہ دو ہجے لکھی گئی ہے۔

جب حکومت کے اس ادارے کی اتنی فاش غلطی ہو سکتی ہے جسے ہول سیل میں اردو کے معیار کو برقرار رکھنے اور بہتر کرنے کا ٹھیکہ ملا ہوا تو دیگر اداروں کی کیا صورتِ حال ہو سکتی ہے، اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ غالباً 1998کی بات ہے جب کونسل کے ڈائرکٹر نے کونسل سے شائع شدہ نور اللغات کو اِن پیج اردو سافٹ ویئر میں شامل کرنے کو کہا تھا اور جب یہ پروجیکٹ میرے پاس آیا(اُس وقت اِن پیج سے متعلق اردو کا کا م میرے ذمہ تھا) تو صرف ایک ہفتہ کے مطالعہ کے بعد ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ لغت عالمی میعار کے اردو سافٹ ویئر ان پیج میں شامل کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔ لہٰذااِس تبصرہ کے ساتھ میں نے نور اللغات کی چاروں جلدیں کونسل کو واپس کردی۔ یہی نہیں کونسل خود ابھی تک کوئی میعاری سافٹ وئیر بھی نہیں دے سکی جس سے اردو اشاعتی کام کے فروغ میں نمایاں فرق ظاہر ہو۔ ایک ناشر بنایا تھا وہ بھی نا قابل استعمال، صرف چنددنوں کی شہرت کے لئے۔ ان پیج اردو جو کسی طرح عالمی معیار کا بن گیا وہ بھی 1998کے ورزن سے لوگ بہت زیادہ خوش ہیں۔ جس کے بھی کمپیوٹر میں سافٹ ویئر ہے وہی کہتا ہے کہ سب سے Latestہمارے پاس ہے۔ کون سا ورزن ہے بھائی؟ "Latest Urdu 2009"میں نے کہا بہت خوب۔ کہاں سے خریدا؟ پاکستان سے منگوایا ہے۔ دروغ گوئی ایسے کہ میرے ہی مضمون کو توڑ مروڑ کر نیا مضمون تیار کیا اور کہہ رہے ہیں کہ تازہ ترین معلومات یہ ہے جو ہم کہہ رہے ہیں اور تازہ ترین سافٹ ویئر وہ ہے جو میرے کمپیوٹر میں ہے۔حد تو یہ ہے کہ ان پیج اردو کے لئے اردو میں جو مینوول ہم نے تیار کیا تھا اسے کئی افراد اور ادارے کتابی شکل دے کر مختلف انداز میں چھاپ کر پھیلا رہے اور اپنا پیٹھ خود ٹھوک رہے ہیں۔خود اردوکونسل بھی اپنے تربیتی اداروں کے لئے ان پیج کے لئے گائیڈ بک نہیں تیار کر سکی۔ وہ ان پیج سافٹ ویئر کے مینوول کے اردو حصہ کو چھاپ کر طلباءکو فراہم کرتی ہے۔سن دو ہزار کے وقفہ میں ایک اردو داں نے ان پیج کے بارے میں گائیڈ بک کمپنی کو فراہم کرنے کی کوشش کی یہ کہہ کر کے کہ” آپ کو ایک اچھا گائیڈ بک مل جائے گا اور ہمیں کچھ مالی تعاون“ ۔ اس بارے میں جب میں نے اس کی تفصیل طلب کی تو وہی بات پھر سامنے آئی کہ جس شخص نے کونسل میں ملازمت کے دوران ان پیج کے مینول کوکاٹ چھانٹ کے گائیڈ بک تیار کیا تھا وہی اس مسودے کو پھر سے بھنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ آخر وہ گائیڈبک اتنا ہی معیاری تھا تو قومی کونسل نے ایک ہی ایڈیشن کے بعد اُسے کیوں موقوف کر دیا اور اِن پیج کے مینول کو چھاپ کر کیوں استعمال کر رہی ہے؟

اب آپ ذرا اردو والوں کی تکنیکی معلومات پر بھی روشنی ڈالی جائے۔ ابھی تک جتنے لوگ بھی اردو کے فروغ کے لئے تکنیکی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، سب کے سب القط ہیں۔ کوئی مکمل اور معیاری نہیں ہے۔کسی نے ان پیج سے یونیکوڈ اور یونیکوڈ سے ان پیج میں بدلنے کا ایک پروگرام (سافٹ ویئر) بنایا جو مفت میں انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ استعمال کرنے والے بتا سکتے ہیں کہ کتنا کارگرہے؟ کسی نے اردو زبان میں لکھے متن کو ہندی میں اور ہندی کو اردو میں تبدیل کرنے کاپروگرام (سافٹ ویئر) بنایا جو قیمتاً دستیاب ہے۔ اخباروں میں تو کسی کام کا ہوا نہیں۔ناقص ہونے کے باوجود اسے کئی اداروں نے حاصل کیا۔ نتیجہ کیسا ہے؟ جب آپ سائن بورڈ اور بینر پر نظر ڈالیںگے تو اندازہ ہوگا۔ اُن جگہوں پر لگے بورڈ کو دیکھیں جہاں اردو کی خانہ پری کے لئے ہندی لکھے الفاظ کو کنورٹر کے ذریعہ اردو میں بدلا گیا ہے۔اس کا ہجے اور ملاحظہ فرمالیں، اور اگر اردو زبان کے لئے آپ کے دل میں ذرا سی بھی ہمدردی اور غیرت ہوگی تو اپنا سر ضرور پیٹ لیں گے۔ جناب سر پیٹنے سے اردو زبان فروغ نہیں پائے گا، کرنے کی ضرورت ہے۔کچھ کیجئے۔ جو کام کے لائق ہیں اُن سے کام لیجئے۔ جو چاپلوس ہیں اُن کو کنارے کیجئے۔

اردو زبان کے تعلق سے ابھی تک خوش کن جملے زباں زد عام ہے۔ انہی جملوں کے ذریعہ چاہے ہندوستان میں اردو کا بدلتا ہوا منظر نامہ پیش کیا جائے یا ذرائع ابلاغ کی وسعت کے گن گائے جائیں۔ دیگر زبانوں کی طرح اردو اخبارات کے بھی کئی ایڈیشن شائع ہو رہے ہیں۔ کتابیں دھڑا دھڑ شائع ہو رہی ہیں۔ اردو صحافت اور اخبارات بھی اب مقابلہ آرائی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ سب چیزیں اطلاعاتی تکنیک میں بہتری کی وجہ سے ہوئی ہیں نہ کہ صحافتی سوچ میں بہتری کا نتیجہ ہیں۔کمپیوٹر تکنیک اور اطلاعاتی تکنیک کی وجہ سے آج صرف پیش کش (Presentation)بہتر ہوئی ہے جس کی وجہ سے اخبارات و رسائل اور کتابیں خوبصورت دکھائی دے رہی ہیں۔ معیاری اعتبار سے کچھ خاص نہیں، اس کا ذکر 16اکتوبر کی میٹنگ میں شامل صحافیوں نے بھی کیا۔

اخبارات رنگین چھپنے لگے۔ کتابوں کے ٹائٹل رنگین امیج کے ساتھ شائع ہونے لگے۔ علم اور اطلاع پہنچانے کے نام پر غلطیوں سے پُر کتابیں، بے ربط الفاظ و جملوں سے پُر اخبارات ہم اردو والوں کو وافر مقدار میں مل رہیں ہیں اور چند ہی مہینوں میں ردی کا ڈھیر بن جارہی ہیں۔ ہاں یہاں خوشی کی بات ہے کہ کم از کم اس معاملے میں تو مسلم قوم کو شکایت نہیں۔ ورنہ وہ تو ہر میدان میں شاکی نظر آتی ہے۔ کبھی حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔ کبھی مسلم لیڈروں کو بکاہوا سرکاری پٹھو قرار دیتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

گرچہ پرانی کتابوں کا کمپیوٹرائزیشن کا عمل بہت تیزی میں ہو رہا ہے لیکن دو بنیادی خامیوں پر اب بھی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ وہ اردو کی ابتدائی درس و تدریس اور خط کی توسیع و تشریح۔ خط ہے کیا؟ طرزِ تحریر کیا ہوتی ہے؟ یہ کتابیں یہ اخبارات ہم تک کیسے آتی ہیں۔ مشینی کتابت اور دستی کتابت میں موافقت کیوں نہیں ہے؟ کیا یہ موافقت ممکن ہے؟ وغیرہ۔ املا کے بارے میں بالکل بے توجہی برتی جارہی ہے خاص طور پر بچوں کی کتابوں میں، جس کی وجہ سے موجودہ نسل اردو لکھنے میں زیادہ غلطیاں کر رہی ہیں۔ اکثر بڑے ادارے اپنا ایک الگ املا استعمال کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مسئلوں کا کیا حل ہے؟ ان مسئلوں کا حل تو سرکاری و غیر سرکاری طور پر ان اداروں کو پیش کرنا چاہئے جو اردو کے فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں۔ بلکہ انہیں ہی عملی اقدام بھی کرنا چاہئے۔ اب وہ زمانہ آچکا ہے کہ اردو اشاعت بھی 99فیصد کمپیوٹر تکنیک کا مرہون منت ہے۔اور دستی کتابت مفقود ہو چکی ہے۔ لہٰذا ان حالات میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کمپیوٹر تکنیک کو بہتر بنایا جائے تاکہ اردو زبان بہتر طریقے سے فروغ پائے۔
Feroz Hashmi
About the Author: Feroz Hashmi Read More Articles by Feroz Hashmi: 3 Articles with 2792 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.