ملالہ:ہیں کواکب کچھ

قوم کی قابل فخر اور جرات مند بیٹی ملالہ یوسفزئی اس اعتبار سے خوش قسمت ہے کہ اپنے عظیم کاز کے لیے بے باک جدوجہد پر اسے اٹھارہ کروڑ پاکستانی عوام کے ساتھ دنیا بھر سے زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ کوئی آنکھ ایسی نہیں جو اس سانحے پر پرنم نہ ہوئی ہو ‘ کوئی ہاتھ ایسا نہیں جو اسکی صحت و تندرستی کے لئے خدا کے حضور نہ اٹھا ہو۔ سیاسی ٬ سماجی ٬ معاشرتی٬ انتظامی٬ علاقائی اور عالمی سطح پر ملالہ کے علاج معالجے کی پیشکشیں کی گئیں وہ جنہیں کروڑوں عوام کی حالت زار کی ہرگز کوئی پروا نہیں بلکہ جن کے باعث عوام آج غربت و افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں وہ بھی ملالہ یوسفزئی کے لئے بے چین و مضطرب ہیں اوراس واقعہ کی شدت و سنگینی کا ادراک و احساس کرکے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے پر تول رہے ہیں۔ وزیر داخلہ حسب معمول بیانات کے نشیب و فراز کے ذریعے اپنی نا اہلی چھپانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں پہلے کہا گیا کہ وہ قاتلوں تک پہنچ چکے ہیں‘ ان کے ناموں کا پتہ چلا لیا گیا ہے ازاں بعد انہوں نے یو ٹرن لیتے ہوئے اپنے ہی بیان سے مراجعت کرتے ہوئے یہ مژدہ سنایا کہ قاتل سرحد پار سے آئے اور حملے کی منصوبہ بندی بھی سرحد پار ہی سے کی گئی ۔ حیرت اس امر پہ ہے کہ وزیرداخلہ اس قدر فعال اور متحرک ہیں کہ سرحد پار منصوبہ بندی کرنے والوں کے نام تک جانتے ہیں اور انہیں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ منصوبہ بندی کہاں کی گئی؟ لیکن گزشتہ چار سالوں سے زائد عرصے میں وہ پاکستان کو لہو لہان کرنے اور ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والوں کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔ ملالہ اس اعتبار سے بھی خوش قسمت ہے کہ اسے علاج کے لیے بیرون ملک بھجوایا گیا اور اس مقصد کے لیے دوبئی سے ائیر ایمبولینس منگوائی گئی پوری حکومتی مشینری اس ضمن میں اپنا بھر پور کردار ادا کررہی ہے۔ ملالہ کا ملال عروج پر ہے اس دلچسپی‘ بے چینی اور فکر کی تہہ میں کچھ نہ کچھ تو ضرور پوشیدہ ہے ‘ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ‘ دال میں کالا بھی واضح کھائی دے رہا ہے جس ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ایک درخواست تک صحیح نہ لکھ پاتے ہوں ‘جہاں مقابلے کے امتحانات میں شریک ہونے والوں کے حالات حاضرہ کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے مضحکہ خیز جواب ان کی تعلیمی قابلیت کی عکاسی کرتے ہوں وہاں ایک کمسن بچی کی ڈائری کی پختہ تحریر کی بی بی سی پر اشاعت متعدد سوالات کو اجاگر کرتی ہے اس کی کم عمری کے ضمن میں اعتراض کا جواب ارفع کریم کی مثال کے حوالے سے دیا جاتا ہے حالانکہ دونوں کے شعبوں میں زمین آسمان کا فرق ہے کیا کسی نے ملالہ یوسفزئی کو ڈائری لکھ کر دینے والے بی بی سی کے نامہ نگار کاسراغ لگانے کی سعی کی؟ ملالہ پر حملہ قابل مذمت ٬ وحشیانہ اور ظلم و بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن ان چار ہزار بے گناہ اور معصوم لوگوں و بچوں کو کیوں فراموش کردیا گیا ہے جن کے معصوم جسموں کے چیھتڑے ڈرون حملوں سے داغے گئے میزائلوں سے بکھر گئے‘ جنہیں کفن اور جنازے کے بغیر دفنا دیا گیا مگر کوئی آنکھ ان کی اس مظلومیت پہ نہ روئی دعاﺅں کے لیے کوئی ہاتھ نہیں اٹھا‘ کسی اسمبلی میں قرار داد مذمت پاس نہ کی گئی‘ کوئی واک نہیں ہوئی ‘ شمعیں نہ جلائی گئیں‘دعائیہ تقاریب کا انعقاد نہ کیا گیا ۔غور طلب امر یہ ہے کہ پسماندہ علاقے کی معصوم بچی کو کس نے قلمی نام اختےار کرنے اور اس نام سے لکھنے پر مجبور کیا۔ نو برس کی عمر میں اسے اپنی اصلیت ظاہر کرنے اور چھپانے کا شعور کیسے آیا؟ تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے والی ملالہ کے لیے آئیڈیل شخصیت تو سردار الانبیائ ہونے چاہئے تھے جنہوں نے علم کی اہمیت کو اجاگر کر کے علم حاصل کرنے کی تلقین کی مگر ملالہ نے لاکھوں افراد کے قاتل اوبامہ کو امن کا علمبردار اور اپنا آئیڈیل قرار دیا ‘وہ پاک فوج جو ملالہ کی صحت یابی کے لیے کوشاں ہے ملالہ اسی فوج کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا کر یہ کہتی رہی ہے کہ اسے پاک فوج پر شرم آتی ہے ۔ شکوک و شبہات کے سائے اس لیے بھی طویل ہوتے ہیں کہ ہم اس قدر بے حس ہیں کہ ہم پر ان ماﺅں کی المناک موت کاکوئی اثر نہ ہوا جنہوں نے بھوک سے بلکتے بچوں کا پیٹ نہ بھر سکنے کے باعث ٹرینوں کے آگے کود کر خود کشی کرلی‘ ہم نے بے روزگاری کے سبب پھندوں سے جھولتے نوجوانوں کے لاشے بھی فراموش کردئیے۔ ارباب اختیار کے دل تو اس وقت بھی نہ پسیجے جب اقتدار کے ایوانوں کے باہر اور چوکوں چوراہوں میں انصاف نہ ملنے پر لوگ تیل چھڑک کر خود سوزیاں کرتے رہے‘ ہم نے تو سانحہ بلدیہ ٹاﺅن میں آگ کے بھیانک شعلوں سے زندہ جل کر مر جانے والے 300 افرادکو فراموش کردیا پھر ہم ملالہ کے لیے کیوں اتنے ملول ہیں؟ عامتہ الناس کی جانب سے تو ملالہ کے لئے دکھ اور افسوس کے جذبات قابل فہم ہیں لیکن ”اقتداریوں“ کی پریشانی بے جا نہیں ہے۔ عوام کے جسموں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے والے ملالہ کی سانسوں کی بحالی کے لیے بلا وجہ ریاستی وسائل صرف نہیں کررہے۔ ملالہ نے اب تک محض شعور ہی اجاگر کیا ہے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا کہ وہ تعریف و تحسین کی مستحق قرار پاتی یہاں تو شعور بیدار کرنے اور ملک و قوم کو پاﺅں پر کھڑا کرنے کی تجاویز دینے والوں کو یوں دھتکار دیا جاتا ہے گویا انہوں نے کسی نا قابل معافی جرم کاارتکاب کرلیا ہو۔کون نہیں جانتا کہ ہم نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ایٹم بم کے خالق کو پوری دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جس نے ہمیں ایٹم بم کا تحفہ دے کر ہمارے چاروں طرف منڈلاتے ان گدھوں سے بچایا جو ہماری بوٹیاں نوچنے کے لیے بے چین تھے۔ کیا ملکی تاریخ میں کسی کارنامے کو اس پر فوقیت دی جا سکتی ہے؟ سیاست کی غلاظتوں اور اقتدار کی غلام گردشوں میں پرورش پانے والی مکروہ سازشو ں اور بد عنوانی کی نفرت انگیز داستانوں سے آگاہی کے باوجود وہ اس دشت کے سیاحی میں کیوں غوطہ لگانے کے لیے بے چین و بے قرار رہی۔ ملالہ پر توڑے جانے والے ظلم کا ملال نہ کرنا ظالموں کے موقف کو تقویت فراہم کرنا ہے لیکن زہرہلاہل کو قند کہنے کا کےا کوئی جواز موجود ہے؟
Qamar Ghaznavi
About the Author: Qamar Ghaznavi Read More Articles by Qamar Ghaznavi: 9 Articles with 5827 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.