سلالہ سے ملالہ تک

پاکستان میں اب تک ڈرون حملوں میں ہزاروں بے گناہ افراد مارے جا چکے ہیں جن میں خواتین‘ بچے‘ بوڑھے سبھی شامل ہیں‘ عالمی دہشتگرد امریکہ دہشتگردی کے نام پر مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے‘ حکرانوں کے غلط فیصلوں نے عظیم پاکستانی فوج کو بھی عجیب مخمصے میں ڈال رکھا ہے‘ پاک افواج نے ہمیشہ مشکل ترین حالات میں وطن عزیز کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا‘ یہی وجہ ہے کہ آج تک مملکت خداداد پاکستان کرہ ارض پر قائم و دائم ہے‘ جب امریکی طیارے نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا تو پوری قوم میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی جو کہ ایک با ضمیر اور خود مختار قوم کی طرف سے فطری رد عمل ہے‘ امریکہ اور اس کے حواری روز اول سے ہی عالم اسلام اور پاکستان کیخلاف سازشوں کا تانا بننے میں مصروف ہیں‘ اس تمام صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان اور عالم اسلام کو اپنی خارجہ پالیسی ازسر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے‘ شدید مشکلات اور بحرانوں میں گھری ہوئی پاکستانی قوم کو آئے روز کسی نہ کسی نئے مسئلے‘ قدرتی آفت یا حکمرانوں کی طرف سے دیئے جانے والے ”تحائف“ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چند دن قبل وادی سوات تعلق رکھنے والی قومی امن ایوارڈ یافتہ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس کی موجودہ صورتحال قوم کے سامنے ہے‘ انسانیت کے ناطے ملالہ یوسفزئی پر کئے جانے والے حملے کی مذمت ہونی چاہئے‘ لیکن جس طرح پاکستانی حکومت‘ پاکستانی اور عالمی میڈیا ملالہ یوسف زئی کے کیس کو اہمیت دے رہا ہے اُس کی کڑیاں کہیں اور جا کر تو نہیں ملتیں؟ قارئین کرام افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے موقر ترین اخبارات جو ظاہر ہے پاکستان میں رہتے ہوئے ہی کام کر رہے ہیں‘ آجکل ان کی خبروں میں بی بی سی اور سی این این کا حوالہ ضرورت سے زیادہ ہی نظر آتا ہے‘ مثال کے طور پر میری نظر سے ایک خبر گزری جس کا متن تھا کہ ”بی بی سی کے مطابق ملالہ یوسف زئی کی گاڑی کے ڈرائیور کا کہنا تھا کہ۔۔۔۔ فلاں فلاں“ اسی طرح ”طالبان کے ترجمان نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے حملہ کی ذمہ داری قبول کر لی“ وغیرہ وغیرہ‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی بی سی اور سی این این غیر ملکی میڈیا ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے موقر ترین اخبارات اور میڈیا سے زیادہ پاکستان میں رسائی رکھتے ہیں؟ اور اگر ہاں تو کیوں؟ غیر ملکی میڈیا پاکستان کے ہر معاملے میں ٹانگ کیوں اڑاتا ہے؟ طالبان کا فون سب سے پہلے بی بی سی کو کیوں جاتا ہے؟ جرائم کی خطرناک حد تک شرح رکھنے والے ملکوں امریکہ بھارت اور برطانوی میڈیا کو اپنے ملک میں ہونے والے جرائم کیوں نہیں نظر آتے؟ اس غیر ملکی دوغلے میڈیا کو ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ افراد اور چھوٹے چھوٹے بچے نظر نہیں آتے؟ بی بی سی اور سی این این اُن کیلئے واویلا کیوں نہیں کرتے؟ کیا کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ ملالہ یوس زئی پر حملہ سے قبل 10 دن تک بی بی سی کا نمائندہ ان کے گھر قیام پذیر کیوں تھا؟ ایسی کیا وجہ ہے جس کیلئے پاکستان کے بد ترین دشمن بھارت میں بھی ملالہ کیلئے احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں؟ امریکی صدر باراک اوبامہ اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون اندھے ہیں یا بہرے جو انہیں ہزاروں ملالاﺅں کی چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی؟ حکومت وقت کو وہ لوگ کیوں نہیں یاد آتے؟ اُن کا علاج معالجہ سرکاری سطح پر کیوں نہیں کروایا جاتا؟ میاں شہباز شریف‘ صدر زرداری‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ الطاف حسین وغیرہ کو وہ سسکیاں اور آہیں بھرتے ہوئے یتیم‘ مسکین کیوں نہیں یاد؟ اُن کو علاج کیلئے بیرون ملکی بھجوانے کے انتظاما ت کیوں نہیں ہوتے؟ مذہبی ٹھیکیدار ملاﺅں کو ڈرون حملوں کیخلاف بھی فتوے دینے چاہئیں کہ نہیں؟ بے حسی اور مردہ ضمیری کی یہ صورتحال دیکھتے ہوئے سوچ اور فکر رکھنے والے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کہیں سلالہ کی طرح ملالہ واقع بھی امریکہ کی International Politics) (کا حصہ تو نہیں؟

سوالات بدستور اپنی جگہ موجود ہیں اور وہ یہ کہ ملالہ کیس کو عالمی میڈیا‘ بھارت‘ امریکہ‘ بان کی مون وغیرہ اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں؟ وہ ملالہ واقع کی آڑ میں کونسا نیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں؟ عالمی امن کے ان ٹھیکیداروں کو ڈرون حملوں کا شکار بے گناہ لوگ‘ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم اور فلسطین میں اسرائیلی دہشت گردی کیوں نہیں نظر آتی؟ اِس پر اُن کی زبانیں گنگ کیوں ہو جاتی ہیں؟ قوم کو اس طرح کے واقعات پر یکطرفہ طور پر جذباتی ہونے کی بجائے تصویر کے دونوں رُخ دیکھنے چاہئیں‘ ہم جتنےمرضی آزاد خیال ہوں ہمیں بحیثیت مسلمان اپنی اقدار‘ تعلیمات‘روایات اور حضور اکرم ﷺ کے احکامات اور اُن کے بتائے ہوئے رساتوں پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ وطن عزیز میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکہ‘ بھارت اور برطانیہ کا عمل دخل مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاتا‘ مختاراں مائی جیسے کیسز پر پراپیگنڈہ کرنے والے غیر ملکی میڈیا کو وطن عزیز کے سائے سے بھی دور رکھنا چاہئے اس کیساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا کو چاہئے کہ وہ وطن عزیز کا صحیح تشخص اجاگر کرنے میں اپنامثبت اور تعمیری کردار ادا کرے‘ عالمی دہشتگرد امریکہ‘ اسرائیل‘ بھارت اور ان ممالک کا غلیظ میڈیا سلالہ سے ملالہ تک ہر واقع پر مسلم امہ اور پاکستان کی کردار کشی کرتا آرہا ہے اور کرتا رہے گا‘ ہمیں پُر امن پاکستان کیلئے ”حقیقی ناسوروں“ کو ختم کرنا ہوگا‘ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ملالہ اور اس کی ساتھیوں کے ساتھ ساتھ تمام بیماروں کو صحتیابی عطاءفرمائے‘ آمین۔
Faisal Azfar Alvi
About the Author: Faisal Azfar Alvi Read More Articles by Faisal Azfar Alvi: 20 Articles with 15727 views Editor "Mubaligh" Islamabad
Writer of Column "Kaala Da'eraa"
Member: All Pakistan Newspapers & Editors Forum (APNEF)
Member: Action Committee APNEF
.. View More