نیم حکیم خطرۂ ِ پاکستان (قسط اول)

كسی علاقے ميں ايك تاجر كپڑے كا كاروبار كرتا تھا۔ وہ دور دراز كے شہروں ميں جا كر اپنا كپڑا بيچتا اور واپسی پر طرح طرح كي نئی چيزيں خريد لاتا جنہيں وہ اپنے شہر ميں فروخت كر ديتا۔ اس طرح اسے دور دراز كے علاقوں ميں بھی جاناپڑتا۔

ايك بار وہ كسی علاقے ميں مال بيچنے گيا۔ اس نے ايك درخت كے ساتھ اپنا اونٹ باندھا اور اس كے آگے خربوزے ڈال ديے اور خود بھی چھاؤں ميں بيٹھ كر كھانا كھانے لگا۔ اچانك اونٹ كے گلے سے عجيب و غريب سی آوازيں نكلنے لگيں۔ اونٹ كے گلے ميں خربوزہ پھنس گيا تھا۔ تاجر نے ديكھا تو رو رو كر دہائی دينے لگا كہ "ميرے اونٹ كو بچالو۔"

لوگ دوڑے اور گاؤں كے ايك سيانے حكيم صاحب كو لے آئے۔ حكيم صاحب نے بلا تردد اونٹ كو زمين پر لٹايا اور ايك اينٹ اس كی گردن كے نيچے ركھي اور دوسری اينٹ اس كی گردن كے اوپر آہستگی سے ماری ، جس سے خربوزہ ٹوٹ گيا اور اونٹ بالكل ٹھيك ہو گيا۔

اگلے سال شديد بارشيں ہوئيں۔ تاجر كو اپنے شہر سے نكلنا دشوار ہو گيا۔ جو اس كے پاس جمع پونجی تھي وہ خرچ ہو گئی ۔ اپنے شہر ميں اس كا كوئی كاروبار تھا نہ اس كے پاس كوئی ہنر تھا۔

بہت سوچ بچار كے بعد اس نے حكيم بننے كا فيصلہ كيا۔ اس نے ايك دكان بنا لی، چند جڑی بوٹياں ركھ ليں اور لگا لوگوں كو اوٹ پٹانگ دوائيں دينے۔

انہی دنوں شہر كے حاكم كا والد بيمار ہو گيا۔ اسے گلہڑ كا مرض لاحق ہو گيا تھا۔ گلہڑ ايك ايسا مرض ہے كہ جس كو لگ جائے اس شخص كا گلا بہت زيادہ پھول جاتا ہے، آج كل اس بيماری سے بچنے كے ليے آئيوڈين ملا نمك بہت مفيد ہے۔ بہرحال اس وقت گلہڑ كا مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا۔ لہٰذا حاكمِ شہر نے شہر ميں ڈھنڈورا پٹوا ديا كہ جو كوئی حاكم شہر كے والد كا كامياب علاج كرے گا اس كو بھاری انعام ديا جائے گا۔

جب نيم حكيم يعنی اسی تاجر نے يہ اعلان سنا تو اسے اپنے اونٹ كے ساتھ پيش آنے والا پچھلے برس كا واقعہ ياد آگيا۔ اس نے اعلان كر ديا كہ وہ حاكم شہر كے والد كا علاج كرے گا۔ لوگ حيران رہ گئے كہ پورے شہر ميں صرف اسی كے پاس يہ علاج تھا۔ آخر وہ حاكم شہر كے گھر حاضر ہوا۔ وہاں اور بھی لوگ اكٹھے تھے۔ نيم حكيم نے حاكم ِشہر كے والد كو لٹايا۔

ايك اينٹ اس كی گردن كے نيچے ركھی اور دوسري اينٹ اوپر سے دے ماری۔

بس پھر كيا تھا، بابا جی اللہ كو پيارے ہو گئے۔ مجمع ميں سے كسی نے بلند آواز سے كہا: "نيم حكيم خطرہ جان۔"

اس كے بعد نيم حكيم كے ساتھ جو ہوا سو ہوا مگر يہ كہاوت مشہور ہو گئی۔

اسی طرح کے نیم حکیم وطنِ عزیز پاکستان کے طول وعرض میں وافر و کثیر تعداد میں جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہمارے والدِ گرامی سے ملنے کوئی صاحب آئے، والد صاحب نے ان کے ذریعہ روزگار کا پوچھا تو گویا ہوئے میں ڈاکٹر ہوں۔ پھر انہوں نے اپنے تخصصات (Specializations) کا ذکر بھی شروع کر دیا۔ ان کے لب و لہجے اور وضع قطع سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ بھی کوئی نیم حکیم ہی ہیں، اتفاق سے ان کے ساتھ ان کی ایک عدد "ڈاکٹرنی" بھی موجود تھی۔ والدِگرامی نے ان سے پوچھا ، "کیا آپ “Circumcision Case” بھی کرتے ہیں؟ (اس سے مراد ختنہ ہے، ان کو یہ سوال انگریزی میں پوچھا گیا تھا)۔ وہ صاحب فوراً بولے ، جی بالکل کرتے ہیں، پوچھا کون کرتا ہے، جواب دیا یہ میری اسسٹنٹ ہیں، نرس ہیں، یہی کرتی ہیں۔

وہ صاحب لفظ "Case" سے مراد زچگی کا کیس سمجھ رہے تھے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علمِ طب و جراحت سے بالکل بے بہرہ ان حکماء اور ڈاکٹر حضرات کے پیچھے ایک منظم مافیا سر گرم عمل ہے۔ جو ان لوگوں کو ایک جواز اور بنیاد فراہم کرتا ہے۔ آج کے اس کالم میں ہماری کوشش ہو گی کی آپ کو اس موت بانٹتی حکمت اور "ڈاکٹری" کی سستی ڈگریوں اور ان ڈگریوں کےحاملین کے وجود میں آنے کی وجوہات بارے معلومات فراہم کر سکیں۔

علمِ طب مسلم تاریخ کا ایک شاندار باب ہے۔ نبی اکرم ﷺ، صحابہ کرام ، محدثین، فقہاء، علماء کرام اور تمام مسلم مشاہیر رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادوار میں طب کو ترقی ملی۔ طب نبوی پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ تاریخ سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ بغداد علومِ طب کا مرکز رہا ہے اور ابو بکر الرازی، جابر بن حیان، علی بن ربان الطبری جیسے عظیم حکماء مسلمان ہی تھے۔ مزید یہ کہ جب علومِ اسلامیہ سکھانے کے لئیے مدارس میں درسِ نظامی پڑھانے کا سلسلہ شروع ہوا تو اس میں بھی علم طب کو شاملِ نصاب کیا گیا۔احادیثِ رسول ﷺ کے مجموعات میں کثیر تعداد میں امراض کے لئیے تیر بہدف نسخے موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء کرام اور بزرگان دین اپنے مریدین و متوسلین کو طبی و روحانی مشاورت بھی فراہم کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علوم کی اہمیت کے پیش نظر ان میں تخصص کا سلسلہ بھی چل نکلا اور اس مقصد کے لئیے باقاعدہ کلیات و جامعات بھی وجود میں آ گئیں۔ اہل مغرب نے بو علی سینا، الرازی، الطبری اور ابنِ حیان جیسے مسلم حکماء کے تعلیمات و تصنیفات سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور ان کی کتب کااپنی زبانوں میں ترجمہ کر کے تحقیق شروع کی ، یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں اہلِ مغرب طب کے بلند ترین ستاروں پر کمند ڈال چکے ہیں۔

پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں سینکڑوں کی تعداد میں ہومیو پیتھک ، یونانی، انقلابی، اسلامی ، طبی اور نا جانے کون کون سے ناموں سے منسوب ادارے اور کالج موجود ہیں۔ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ ایک حکیم جس کے سرٹیفیکیت کو "فاضل الطب والجراحت" اور ہومیوپیتھک ڈاکٹر جس کے سرٹیفیکیٹ کو " ڈی۔ایچ۔ایم۔ایس" کہا جاتا ہے، اس کے داخلے کے لیئے اہلیت کا معیار کیا ہے۔

(جاری ہے)

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Iftikhar Ul Hassan Rizvi
About the Author: Iftikhar Ul Hassan Rizvi Read More Articles by Iftikhar Ul Hassan Rizvi: 62 Articles with 236626 views Writer and Spiritual Guide Iftikhar Ul Hassan Rizvi (افتخار الحسن الرضوی), He is an entrepreneurship consultant and Teacher by profession. Shaykh Ift.. View More