کتابوں پر تبصرہ

کتابوں ،خیالوں کی دنیا کتنی وسیع ہے ۔یہ آپ کی اپنی دنیا ہے ۔دنیا کی منافقت،ریاکاری اور جھوٹ سے پاک ۔سیاستدان ہوں یا مختلف شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات،سب پبلک پراپرٹی ہیں۔ان پر بات کرنا اٹھارہ کروڑ عوام کا ’’جبری حق ‘ہے۔’’حدادب‘‘رہتے ہوئے ’’خیالوں میں موصول‘‘ ہونے والی کتابوں پر تبصرہ حاضر ہے۔

نگاہ یوسف کی صدا
بظاہرہ دیکھنے میں یہ کتاب ’’چاہ یوسف سے صدا ‘‘ کا پارٹ ٹو محسوس ہوتی ہے ۔دیدہ زیب سرورق پر پوری تصویر کی بجائے دو نگاہیں دکھائی گئی ہیں جو کہ طاقت کے مرکز پارلیمنٹ کی طرف اٹھی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔۔ان نگاہوں کو تلاش کرنے کے لئے مجھے گیلانی صاحب کی بہت سی تصویریں دیکھنا پڑیں تب جا کر یہ بات آشکار ہوئی کہ یہ نگاہیں گیلانی صاحب کی ہی ہیں۔کتاب پر مصنف کے نام کی بجائے ’’ایک واقف حال کے قلم سے ‘‘درج ہے۔کتاب کسی پیش لفظ کے بغیر اس شعر ’’چک گھٹڑی تے ہو جا تیار کڑے ۔تیرا ٹاہلی ہیٹھ قرار کڑے ‘‘ سے شروع ہوتی ہے اور پھر رکنے نہ نام نہیں لیتی۔ کتاب کے تقریباً چارسو صفحات رنگین تصویروں سے ڈھک دیئے گئے ہیں۔اور انہی تصویروں سے گیلانی صاحب کے عروج کی کہانی کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔عدالت میں پیشی کے بعد کی تمام تصویریں بلیک انیڈ وائیٹ ہیں جو کہ کہانی کے اپنے اختتام کی طرف بڑھنے کی نشاندہی ہے۔کتاب میں ایک خط بھی شامل کیا گیا ہے جو کہ گیلانی صاحب نے اپنے زمانہ طالب علمی میں اپنے ہیڈ ماسٹر کو لکھا ہو گا۔کتاب کا مصنف زرداری صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے ’’راجہ صاحب کی لکھائی اس سے اچھی تو نہیں ہو گی‘‘کتاب میں جابجا شعروں سے اپنا مدعا بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔گیلانی صاحب کی وزیر اعظم کے عہدے سے فراغت پر ایک شعر سے اس صورت حال کی عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔’’مالی نے پھول توڑا بلبل کو دکھا دکھا کر ۔بلبل نے باغ چھوڑٓ آنسو بہا بہا کر‘‘

ایک جگہ سابق وزیر قانون کا تذکرہ کرتے ہوئے تبصرہ شامل ہے۔بابر اعوان صحافیوں کو دیکھ کر شیر اور جذباتی ہو جاتے تھے۔ان کی ایک پریس کانفرنس جس میں انہوں نے نچلے دانتوں کو ظاہر کرنے کی کوشش میں ’’نوٹس ملیا کجھ نہ ہلیا ۔۔۔۔۔۔میں لکھ واری بسم اللہ کراں ‘‘خود تو اس نے کھڈے لائن لگنا ہی تھا چک چکا کر مجھے بھی لگوا دیا۔کتاب میں بہت سے اوراق ’’چاہ یوسف سے صدا ‘‘ سے بھی شامل کئے گئے ہیں۔ایک قطعہ جو ’’چاہ یوسف سے صدا میں بھی شامل تھا۔
’’سانس لینے کی اجازت تو ہے مگر
زندگی کے لئے’کچھ اور بھی ‘ درکار ہے
زندگی کے نام پر بس اک اجازت چاہیئے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیئے

اب نہ جانے ان اشعار میں کونسی اجازت ،کونسے درکاراور کونسے جرائم کی اجازت مانگنے کی کوشش کی جارہی ہے۔کتاب میں ’’فراغت‘‘ کے بعد کے واقعات کو بڑے مغموم الفاظ میں بیان کیا گیا۔صدارتی محل میں رہائش کو ‘‘اعزاز‘‘ کی بجائے ’’بیگار‘‘بتایا گیا ہے۔کرپشن کے حوالے سے کتاب میں معلومات میں اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جس کا بھی داؤ چلا اس نے چھرا تیز ہی رکھا ۔اگر مجھ پر الزام ہیں تو ’’راجہ صاحب‘‘ کونسا ’’گنگا نہائے ہیں‘‘ جن کے دودھ کے دانت ابھی نہیں ٹوٹے ان پر گوشت چبانے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔میرے معصوم بچوں کا پھنسانے کی مکروہ کوشش وہ رہی ہے۔کتاب کا اختتام ایک بہت ہی آذاد نظم سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چڑیا کا بوٹ ،آلنے سے گر جائے تو
پھر واپس نہیں آتا،وہ اڑنا سیکھ جاتا ہے
نئے ساتھی مل جاتے ہیں۔انہی میں رچ مچ جاتا ہے
ہاں،اگر ’’چیجی‘‘کا وعدہ کرئے کوئی
میں کوئی پرندہ تھوڑی ہوں،میں واپس آ بھی جاؤں گا۔

بندیا چمکے گی
موصول ہونے والی کتاب 9999صفحات پر مشتمل ہے۔جسے اٹھانے کے لئے مجھے اکثر اوقات ’’چک‘‘ جیسے عذاب میں مبتلا ہونا پڑتا ہے۔سرورق پر بارش میں نہاتے ہوئے ادا کارہ کی تصویر دی گئی ہے۔یہ ماضی کی ایک ہیروئن کی آب بیتی ہے جو کتاب کے بغور مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ’’کھل کر چمک نہیں سکی‘‘جس کی وجہ سے وہ بڑھاپے میں ’’خوار‘‘ ہو رہی ہے۔کتاب میں چھ ہزار لوگوں کی پروفائل ہیں جہنوں نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں ان کو اس بڑھاپے میں پرپوز کیا ہے۔کتاب میں مصنف کے نام کے طور پر ’’بن دیا‘‘ کا نام دیا گیا۔نہ جانے اس نام کو جوڑنے کی بجائے اکیلا کیوں کر دیا گیا شائد اس سے مراد دیئے یا روشنی کے بغیر زندگی کا تصور دیا گیا ہو۔پیش لفظ جو یقیناً بن دیا کا ہی لکھا ہوگا۔ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔’’ہم نے بچے پیدا نہیں کرنے۔بہت کر لئے ،بہت پال لئے،جس نے ہم سے شادی کرنی ہے وہ بچوں کے لئے نہ کرئے۔‘‘اسی پیش لفظ میں مصنف لکھتا یا لکھتی ہے۔’’نجی ٹی وی کا پروگرام ہمارے لئے بہت سود مند تھا ۔دھڑا دھڑ رشتے آ رہے تھے۔بس گلو بادشاہ سے منہ ماری ،گلو بادشاہ کا یہ کہنا کہ مجھ سے اپنے پول نہ کھلوا لینا میرے لئے ایک ڈرون حملہ ہی تھا ،جس میں ناحق ماری گئی۔میں گھبرا ہی گئی کہ کہیں یہ آن ائیر میرے پول ہی نہ کھول دے ۔کیونکہ ایک فلمی اداکارہ کی زندگی ایک بند کتاب ہوتی ہے اور اس بند کتاب کے اندر بھی ایک کھلی کتاب ہوتی ہے۔ جسے واقفان حال ہی جانتے ہیں۔اور اس کے بعد ٹی وی ہوسٹ سے بھی ہم نے بنا سوچے سمجھے بگاڑ لی جس کا نتیجہ ایک لمبے وقفے کی صورت میں نکلا اور ہمیں شو کے درمیان سے ہی اٹھا دیا گیا۔وہ جس پروگرام سے ہماری ارمانوں کی ڈولی اٹھنی تھی وہاں سے ہم ناکام لوٹ آئے‘‘۔کتاب میں جابجا اداکارہ کی فلمی تصویریں دی گئی ہیں۔موجودہ تصاویر سے اجتناب برتا گیا ہے۔کتاب میں مصنف نے ماضی اور حال کے بارش کے نغموں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔مصنف کا کہنا ہے’’ماضی میں بارش کا گانے کے لئے کہانی کی سچویشن ہی ایسی ہوتی تھی کہ ہیرو ،ہیروئن کو چھوڑنے جا رہا ہے اور موسم پہلے سے ہی خراب دکھایا جاتا تھا۔آج کی طرح اچانک بارش شروع ہو نہیں ہو جاتی تھی۔‘‘مصنف نے اداکارہ کے بارشی گانے ’’کچھ دیر تو رک جاؤ برسات کے بہانے ‘‘کو اسی کی دہائی کا بہترین گانا قرار دیا۔بہت سے بوڑھے فلم بین شوقین صرف اس گانے کے لئے روزانہ تین ،تین شو بھی دیکھتے رہے۔’’بندیا چمکے گی ‘‘کا بغور مطالعہ کرنے پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ اداکارہ بیوی سے ذیادہ آیا بننے کے لئے دوڑ دھوپ کر رہی ہے۔
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 32444 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.