وادی سوات کی گل مکئی

کل پوری رات میں نے ایک ایسا ڈراﺅنہ خواب دیکھا ہے جس میں فوجی ہیلی کاپٹر ڈرون حملے اور طالبان دیکھائی دیتے ہیں سوات میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد میں ایسے خواب باربار دیکھتی ہوں مجھے اسکول جاتے ہوئے بہت خوف محسوس ہورہا تھا پھر ماں نے مجھے ناشتہ دیا اور میں اسکول کے لئے روانہ ہوگئی آج اسمبلی میں ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے کہا ہے کہ کل سے طالبان کے خوف سے اسکول یونی فارم بھی ختم کیا جارہا ہے انہوں نے کہا ہے کہ کل سے لڑکیاں گھر کے لباس میں آئیں گی آج ہماری کلاس میں 27میں سے صرف گیارہ طالبات حاضر ہوئیں تھیں........

کل کی رات بھی اور راتوں کی طرح پُرسوز تھی فائرنگ کی آواز یں آرہی تھیں اس رات میں تین مرتبہ نیند سے بیدار ہوئی اور ہر مرتبہ میں انتہائی خوفزدہ تھی آج اسکول نہیں جانا تھا لہٰذا میں 10بجے تک سوتی رہی ایسا طالبان کے خوف سے تھا پھر میری سہیلی آگئی اور ہم ہوم ورک ڈسکس کرنے لگے جس میں کچھ خاص نہیں تھا آج میں نے اپنی ڈائری پڑھی جو بی بی سی اُردو سروس میں شائع ہوئی ہے میں نے اپنا قلمی نام ”گُل مکئی“ رکھا ہے میری امی کو میرا یہ نام بہت پسند آیا انہوں نے میرے ابو سے کہا کیوں نہیں کہ ہم اس کا نام گُلِ مکئی ہی رکھ دیں یہ بہت پیارا نام ہے اور مجھے بھی بہت پسند ہے۔ میرے والد کہنے لگے کچھ دنوں پہلے ایک آدمی میرے پاس تمہاری ڈائری کا ایک پرنٹ آﺅٹ لے کر آیا اور مجھ سے کہنے لگا کس قدر لاجواب اور جرات مندانہ لکھا ہے ! میرے ابو نے مجھے بتایا کہ وہ مسکرائے مگر انہوں نے اِس آدمی کو یہ نہیں بتایا کہ گُلِ مکئی نام کی یہ لڑکی میری ہی بیٹی ہے۔

گُلِ مکئی ملالہ یوسف زئی کے والد ضیاءالدین یوسف زئی تو کسی کو نہ بتاسکے کہ گُلِ مکئی اُن ہی کی بیٹی ہے مگر آج قوم کا ہرفرد یہ کہہ رہا ہے کہ ملالہ اُس کی بیٹی ہے پاکستان کی بیٹی ہے پاکستانی بچیوں کا سرمایہ افتخار ہے امن کی علمبردار اور تعلیم کی روشنی ہے۔ حوروں کی سی معصوم صورت پاکیزگی سچائی اور جرات کا نمونہ 14سالہ پختون پاکستانی بیٹی جو کہ ہفتم جماعت کی طالبہ ہے وہ آج صبح حسب ِ معمول گھر سے اسکول کے لئے نکلی تعلیم حاصل کی جو کہ ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے اور واپسی گھر جانے کے لئے وین میں دوسری تمام ہم جماعت ہجمولیوں کے ہمراہ سوار ہوئی اُمیدوں خوشیوں اور جگمگاتی آنکھوں والی یہ معصوم بچیاں یہ نہیں جانتی تھیں کہ چند لمحے بعد کیا ہونے والا ہے وین بس چلنے ہی والی تھی کہ ایک کلاشنکوف بردار طالبان نے اندر جھانکا اور پوچھا ملالہ یوسف زئی کون ہے؟ دوستوں نے گھبرا کر ملالہ کی طرف اور ملالہ نے تشویش زدہ نگاہوں سے اُن کی طرف دیکھا اور پھر ہر طرف خون بکھر گیا........

والدین کی فرمابردار بیٹی اساتذہ کی ہردل عزیز شاگردہ دوستوں کی بے لوث سہیلی سوشل میڈیا پر پانچ ہزار سے زائدہ افراد کی طرف سے پسندیدگی کی سند حاصل کرنے والی ملالہ یوسف زئی مکئی کا یہ پھول طالبان کی نگاہوں میں خاربن کر کھٹک رہا تھا آج انہوں نے اس مشعل کو بجھانے کی جو ناپاک کوشش کی ہے انشاءاللہ وہ ناکام ہوگی ملالہ پورے پاکستان کی بیٹی ہے اور قوم کا ہر ہر فرد اور بچہ اُس کے لئے سراپا دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملالہ کو مکمل صحت ار زندگی عطا کرے وہ شمع ہے روشنی ہے اُمید کی کرن ہے اُن بچوں کے لئے جو نامساعد حالات اور طالبان کے خوف کا شکار ہو کر اس کول نہیں جاسکتے کتابوں کی شکل تک نہ دیکھ سکتے تھے ملالہ نے اُن کی آنکھوں کو اُمید کی کرن مہیا کی تھی۔

نیدرلینڈ میں واقع کڈز رائٹس فاﺅنڈیشن نامی بچوں کی امداد کے لئے قائم کی گئی ایک تنظیم نے ملالہ کو بچوں کے عالمی امن ایوارڈ کے لئے نامزد کیا جو کہ پوری قوم کی بیٹوں کے لئے فخر کا باعث بنا ملالہ نے اُس دور میں جب کہ خیبر پختونخواہ میں تعلیم تو دور کی بات کتابوں کانام تک لینا گناہ تھا آواز حق بلند کیا اور مینگورہ (سوات) سے گُلِ مکئی کے فرضی نام سے بی بی سی اُردو سروس کے لئے باقاعدگی سے ڈائری لکھنا شروع کی اپنی اس ڈائری میں وہ سوات اور اپنے علاقے میں (جو کہ طالبان کے زیر تسلط تھا) کے بارے میں اپنے خیالات احساسات جذبات اور اپنی خواہشات دنیا والوں سے شیئر کرتی تھی انتہائی معصومانہ اور جرات کے ساتھ لکھی گئی ملالہ کی یہ ڈائری بہت جلد ملکی و غیر ملکی ابلاغ میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی اِس کی ڈائری سے متعلق دو بین القوامی اداروں نے دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جس میں اِس نے کھل کر بچیوں کی تعلیم حاصل کرنے پر پابندیوں کی مخالفت کی تھی ملالہ کی ڈائری کیا تھی وہ اِس کے دل کی آواز تھی اُس کی ناکام تمنائیں تھیں اُس کے خواب اُس کی آرزوئیں اور اُس کی خواہشات تھیں دل سے جو آواز نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پَر نہیں طاقت ِ پروآز مگر رکھتی ہے کے مصداق معصوم ملالہ سوات میں بچیوں کی تعلیم کے حصول میں درپیش مسائل کو دلائل کے ساتھ دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ طالبان غلطی پر ہیں تعلیم سب کا حق ہے جنس کی بنیاد پر اس میں ہرگز کوئی تفریق ممکن نہیں ہے ملالہ امن اور بہادری کا نام ہے وہ امن کی سفیر ہے علم کی شمع ہے وہ پاکستانی بچیوں خصوصاً سوات کی بچیوں کے لئے ہمت اور حوصلے کی مثال ہے اُس کی آنکھوں میں چمکتے خواب کوئی ایسی لاحاصل آرزویں نہ تھیں کہ جن کو حاصل کرنا ناممکن ہو وہ تو بس جینا چاہتی ہے پڑھنا چاہتی ہے آگے بڑھنا چاہتی ہے اپنے ہونے کا ثبوت دینا چاہتی ہے لہٰذا اُس نے علم َ بغاوت بلندکیا اور قلم کو ہتھیار بنایا لیکن ہوا کچھ یوں کہ
خطا یہ تھی کہ جینے کی آرزو کی تھی
سزا یہ دی کہ آنکھوں سے چھین لیں نیندیں

امن اور علم کی یہ کمسن سفیر CMHپشاور میں زیر علاج ہے اور ہم میں سے ہر ایک اُس کے لئے دُعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے شفائِ کاملہ اور زندگی دے تاکہ وہ ایک بار پھر پاکستان کی دوسری بیٹوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑی ہو کائنات شازیہ اور ملالہ ہم تمہارے لئے دُعا گو ہیں۔
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 45069 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.