کب راج کرے گی خلق خدا؟

وہ ایک ماں تھی اللہ تعالیٰ نے اسے تین نعمتوں سے نوازا تھا اُس کے سرپرست غربت کی چادر اور پاﺅں کے نیچے مفلسی کی زمین تھی مگر پھر بھی وہ اپنے رب کی شکر گزار تھی کہ اللہ نے اسے اپنی نعمتوں سے نوازا ہوا ہے تین بیٹوں کی موجودگی اسے ڈھارس دیتی تھی کہ وہ ایک دن غربت کی اس چادر کو چاک کر ڈالے گی اور روشن مستقبل اس کا منتظر ہوگا غربت کی چکی پیستے پیستے بھی گو ہاتھ گٹے پڑ گئے تھے مگر آنکھوں کے دیئے پھر بھی روشن رہتے کہ اللہ نے اس پر بڑا کرم کیا اسے اولاد کی شکل میں اپنی رحمتوں سے نوازا وہ مایوس ہرگز نہ تھی اس کے تین بیٹے جب اس کے کچے مکان کے بوسیدہ فرش پر بھاگتے پھرتے تھک کر جب چولہے کے پاس اس کے قدموں میں آبیٹھے تو اس کا دن باوجود تنگ دستی کے خوشحال دنوں کی آس میں ہمکنے لگتا وہ غربت کے دن اسی آس کے ساتھ کاٹ رہی تھی کہ ایک دن وہ آئے گا جب اس کے بیٹے بڑے ہو کر کماﺅ پوت بنیں گے اس کے بازو بنیں گے اس کے تینوں بیٹے اس کے لئے اُمیدوں کاواحد سہارا تھے غربت کے اندھیرے میں اُمید کی واحد کرن تھے جب اس ماں کے یہاں یکے بعد دیگرے تین بیٹے پیدا ہوئے تو اس نے ان کے ناموں کو اللہ کے ناموں کے ساتھ جوڑ کر رکھے عبد ا لصبور، عبدالماجد اور عبدالباسط ہاں وہ اللہ کے بندے ہی تو تھے اور اللہ کے ان بندوں کو اللہ ہی کے بندوں نے اللہ کی بنائی ہوئی زمین سے ایسا لاپتہ کیا کہ ان کی ماں زندہ درگور ہوگئی اس کی بوڑھی منتظر آنکھیں اس وقت پتھراگئی جب اس نے تیرہ جنوری کو اپنے بیٹے عبدا لصبور کی نعش وصول کی اس ماں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس معاشرے میں غریب اور مفلس ہونا کتنا بڑا جرم ہے وہ بیٹے کی موت کا صدمہ سہہ گئی اور اب اس کی آنکھیں دو دوسرے بیٹوں کی منتظر تھیں کہتے ہیں کہ مرنے والے کا صدمہ تو برداشت کرلیا جاتا ہے مگر جو آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں ان کا صبر نہیں آتا اور اس دکھیاری ماں کے ساتھ بھی یہ ہوا روحیفہ بانو اپنے بیٹوں کی راہ دیکھتی رہی اَن پڑھ جاہل ماں ہر اس دراور دروازے پر گئی جہاں شنوائی کی کوئی سبیل نظر آتی اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاﺅس ایوان صدر اور وزیراعظم ہاﺅس تک پہنچنے کی تو ان غریبوں کو اجازت نہ تھی لہٰذا وہ اہل حکم کے ایوانوں سے بہت دور سخت سردی میں اپنے اپنے پیاروں کی تصویریں شناختی کارڈ اور یادیں اُٹھائے سخت سردی اور ٹھنڈ میں اپنے اپنے پیاروں کی یادوں کی شمع جلائے اکڑتے رہے جمتے رہے سخت سردی میں ان کی آہیں التجائیں اور نوحے بھی شاید جم گئے ہوں گے جبھی وہ حکمرانوں کے کانوں اور سماعتوں تک نہ پہنچے وہ حکمران جو اپنے آئی فون اور بلیک بیری سے صبح و شام اپنے پیاروں کو I miss youکے SMSسینڈ کرتے ہیں وہ کیا جانیں کہ مس کیا ہوتا ہے اور مس کرنا کس کو کہتے ہیں مس کرنا دراصل لاپتہ ہونا ہوتا ہے یہ اصطلاح بھی کیا خوب ہے وہ سارے جیتے جاگتے انسان ہیں جو لاپتہ کردیئے گئے ہیں۔ وہ کوئی ڈرائنگ روم میں رکھا ڈیکوریشن پیس تو نہیں کہ ایک نہیں تو دوسری سہی وہ ایک ماں ایک فریاد تھی جو جو اس نے جوان بیٹے کی سربریدہ لاش دیکھ کر کی تھی۔

اس نے کہا میں ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کروں گی جنہوں نے اس کے بیٹے لاپتہ کئے بے پناہ تشدد کیا حد یہ کہ وہ جان سے چل گئے وہ حاکم ظالم ہیں پیروں پیغمبروں پر بھی ایسی گزری جو آج ہم پہ گزار رہی ہے اللہ ان کو تباہ کرے گا جو مظالم ہم پر ڈھائے گئے ہیں وہ انشاءاللہ ان کے سامنے بھی آئیں گے وہ روتی رہی چلاتی رہی فریاد کرتی رہی نہ آسمان پھٹا نہ زمین کا سینہ شق ہوا کہتے ہیں مظلوموں کی آہ عرش کو بھی ہلا دیتی ہے کب ظلم و ستم کے کوگراں روٹی کی طرح اُڑجائیں گے کب محکوموں کے پاﺅں تلے یہ دھرتی دھرتی دھڑ، دھڑ دھڑکے گی کب اہل حکم کے سرکے اوپر کب بجلی کڑکڑکڑکے گی؟؟
منصف ہو تو اب حشر بپاکیوں نہیں کرتے
مر جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

جوان بیٹے کی تشدد زدہ لاش دیکھ کر ماں نے بین کیا تھا ماتم کیا تھا فریاد کی تھی آہ زاری کی تھی مگر ۔۔۔ وہ زندہ تھی اپنے دو اور بیٹوں کو زندہ دیکھنے کی آرزو اسے زندہ رکھے ہوئے تھی وہ ماں جو 26جنوری سے لے کر تیرہ فروری تک اپنے جوان قطرہ خون عبدا لصبورکومنوں مٹی تلے دفنا کر بھی زندہ تھی وہ ماں تیرہ فروری کو اپنے دو بیٹوں عبدالماجد اور عبدالباسط کو کورٹ کے کٹہرے میں زندہ کھڑا دیکھ کر زندہ نہ رہ سکی وہ مردہ بیٹا دیکھ کر جی گئی تھی مگر دو زندہ بیٹوں کا حال دیکھ کر اس کا دل بند ہوگیا وہ ظالموں کا یہ وار نہ سہہ سکی اس نے تشدد سے ادھ موئے ہوئے اپنے زندہ بیٹوں کو دیکھا اور مرگئی اس کے قلب کی حرکت رک گئی اور آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوگئیں ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ کب مٹے گا کب انصاف ملے گا کیا سارے انصاف روز قیامت ہی ہوں گے یہ دنیا انصاف سے خالی ہی رہے گی بھیڑیے دندناتے رہیں گے لوگ لاپتہ ہوتے رہیں گے فیض صاحب نے 1979ءمیں کہا تھا کہ
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
جب اہل حکم کے سر اوپر
یہ بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب محکوموں کے پاﺅں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
سب تاج اچھالے جائیں گے
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
تب راج کرے گی خلق خدا

آج 2012ءمیں یہ بوڑھی ماں اپنے جوان بیٹوں کا ماتم کرتے ہوئے نوحہ خواں ہے کہ
کب دیکھیں گے؟؟
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
کب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
کب محکوموں کے پاﺅں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
کب اہل حکم کے سر اوپر
کب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی؟؟
کب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اُٹھوائے جائیں گے
کب اہل صف مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
کب تاج اچھالے جائیں گے
کب تخت گرائے جائیں گے
کب راج کرے گی خلق خدا؟؟
کب راج کرے گی خلق خدا؟؟
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 45065 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.