ہماری خوش خلقی کا مذاق تو مت اڑائیے

امریکہ کے نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ نے اپنی ویب سایئٹ پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پاکستا ن دنیا کے 151خوش ممالک میںسولہویں نمبر پر ہے یہ رپورٹ دراصل لندن کے ایک سماجی ادارے نیو اکنامکس فاﺅنڈیشن جو وائس آف امریکہ کے مطابق ” بین الاقوامی “ہے نے چند روز قبل اپنی ویب سائیٹ پر” آن لائن“ کی تھی۔

مجھے یہ رپورٹ پڑھ کر خوشی اور حیرت ہوئی۔۔۔۔۔۔پھر میں نے سوچا اب دیکھو ہم تو وہ ہیں جو رپورٹ پڑھ کر ہی خوش ہوجاتے ہیں ہمارا پاکستان اور ہم پاکستانی ایسے نہیں ہیں کہ جو خوشحال ممالک کے باشندے ہونے اوروہاں رہنے کے باوجود بدحال ہیں۔

رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ اس فہرست میں امریکہ کو ایک سو پانچویں نمبر پر رکھا گیا ہے، برطانیہ 41 ویں اور چین کو خوشحال ممالک میں ساٹھ واں نمبر دیا گیا ہے۔

میرا خیال ہے کہ اگر اس طرح کا سروے مذکورہ ادارے کی جانب سے دنیا کی بدحال شخصیات کے بارے میں کیا جاتا تو اس کے نتائج سے یہ ظاہر ہوتا کہ امریکہ کے صدربارک اوبامہ دنیا کی بدحال شخصیات میں151ویں آدمی ہیں۔

حیرت اس بات پر کہ ہم پاکستانی بیروزگاری، مہنگائی ،بجلی ، گیس کی لوڈشیدنگ،سیلاب کی تباہ کاریوں اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث خودکشی تک کرنے پر مجبور ہیں لیکن مذکورہ ادارے کی نظر میںدوسرے ممالک خصوصاََ ترقی یافتہ ملکوں سے زیادہ ” خوش“ ہیں ۔حیرت اس بات پرزیادہ ہے کہ امریکی نشریاتی ادارے نے اسے درست تسلیم کرکے دنیا بھر میں پھیلانے کی کوشش کی۔

مجھے اندازہ لگانا مشکل ہورہا ہے کہ یہ طنزیہ خبر ہے یا فکریہ ؟اس سروے کے یہ نتائج میرے لیئے ہی نہیں بلکہ میرے ہم وطنوں کے لیئے بھی تکلیف دہ اور ”زخموں پر نمک چھڑکنا“ کے مترادف ہے۔

میرا خیال ہے کہ لندن کے اکنامکس فاﺅنڈیشن نے پاکستان کے خاص ، سیاست دانوں ، بیوروکریٹس، تاجروں اور نام نہاد این جی اووز چلانے والوں تک اپنے ریسرچ کو محدود رکھااور نتائج اخذ کرلیئے تاکہ ہمیں ناخوش اور خدا کے ناشکرے بھی قرار دیا جاسکے ساتھ ہی دنیا بھر میں ہمیں بدنام کیا جاسکے۔

یہ سچ ہے کہ مختلف انٹرنیشنل ویب سائٹس نے ہمارے ملک کے صدر آصف زرداری کو ملک کا دوسرا بڑا امیرترین شخص قراردیا ہے اور ان کے اثاثوں کی کل مالیت ایک اعشارہ آٹھ بلین ڈالر بتائی گئی ہے اسی طرح میاں نواز شریف کو فہرست میں چوتھے نمبر کے امیر بتایا گیا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کی آمدنی کے باقائدہ کوئی ذرائع نہیں ہیں لیکن وہ بھی یا ان کی جماعت بھی کروڑوں ڈالر مالیت کے اثاثے کی مالک ہیں اس کے باوجود وہ شائد اس طرح خوش نہیں ہیں جیسا کہ رپورٹ میں تاثر دیا گیا ہے ۔

جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر نئی گاڑی کراچی ، اسلام آباد اورلاہور کی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ جب وہ گاڑی کسی بھی سگنل پر رکتی ہے تو اس کے پیچھے دوڑنے والوں کی تعداد ایک یا دو سے زائد ہوتی ہیں جو اس لیئے گاڑی کے قریب جانا چاہتے ہیں کہ اس کی صفائی کرکے دو یا تین روپے حاصل کرلیں ۔

میرے ملک کو جسے خوش قرار دیا گیا ہے میں مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے خودکشی کا رجحان بڑھ گیا ہے اس میں 24 فیصد تک کا رواں سال اضافہ ہوا ہے ۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق جاری سال کی پہلی سہ ماہی میں 392 افراد نے خودکشی کی جس میںدو سو بیاسی مرد اور ایک سو بارہ خواتین تھیں۔ میرا ملک غیروں کی نظر میں”خوش ملک“ ہے لیکن یہاں کے تقریباََ ہر شہر ،گاﺅں،دیہات اور علاقے روزانہ کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے بجلی سے محروم رہتے ہیں۔کیا کوئی اس دور میں بھی بجلی کے بغیر خوش رہ سکتا ہے؟

میرے ملک کو خوشحال ملک قرارد دینے والوں کے لیئے عرض ہے کہ یہاں بیروزگاری کاRatio بڑھ کر 5.5 فیصد ہوگیا جو گذشتہ سال 5.6 فیصد تھااور یہاں جو روزگار ہے اس کی صورتحال یہ ہے کہ مزدور کی کم از کم تنخواہ آج بھی پانچ ہزار ہے۔اس تنخواہ میں کوئی کیسے خوش رہ سکتاہے؟

میرے ملک کے مختلف شہروں خصوصاََ کراچی اور پشاور میں فائرنگ اور بم کے دھماکوں سے روزانہ ہی دس بارہ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں یا انہیں ٹارگیٹ کرکے ماردیا جاتا ہے۔ان شہروں کے لوگ نامعلوم دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنے اپنے علاقوں اور گھروں میں یرغمال ہوکر رہ گئے ہیں ، کیا ان حالات میں بھی کوئی خوش رہ سکتا ہے؟

میرے ملک میں معاشرتی مسائل اس قدر بڑھ رہے ہیں کہ لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے پھر بھی ہم پر” خوش رہنے کا الزام“ لگایا جارہا ہے ۔یہ بات باعث حیرت نہیں تو اور کیا ہے؟؟۔

میرے ملک کے لوگوں کو ہوٹلوں میں دیکھ کران کے خوش ہونےکا اندازہ لگانے والوں کو چاہئے کہ وہ ہوٹلوں کے باہر سڑک پر بیٹھے ہوئے درجنوں افراد کی طرف بھی ایک نظر ڈالیں جن کے چہرے بچے کچے کھانے کے انتظار میں بھوک سے مرجھا جاتے ہیں۔۔۔کیا کوئی بھوکا بھی خوش رہ سکتا ہے؟۔

میرے ملک کی کاروں اورجیپوں پر نظر ڈالنے والوں کو کسی ہفتے اور اتوا ر کو سی این جی اسٹیشنوں پر بھی نظر ڈال لینی چاہئے جو بند رہتے ہیں ، ان کے بند رہنے سے لوگ کس طرح ”خوش “رہ سکتے ہیںذرا اس کی بھی تو وضاحت کی جائے؟۔

یہ بات سہی ہے کہ ہم بحیثیت پاکستانی قوم برے سے برے حالات کے باوجود خوش دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ہم خوش اخلاق اور خوش مزاج ہیں۔ہمار ے چہرے اس لیئے خوشی سے چہکتے ہیں کہ ہمیں ہرحال میں خوش رہنے کا سبق دینِ اسلام نے دیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم تن من اور دھن سے خوش ہیں خدا کے لئے ہماری خوش مزاجی ،خوش خلقی یاخوش طبعی کا مذاق تومت اڑائیے ۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152792 views I'm Journalist. .. View More