سلام ٹیچر

یہ بات 1978-79 کی ہے جب دریجی کے دوردرازعلاقے لوہی میں تعلیم کے حوالے سے کوئی خاص سرگرمی نہیں تھی ،اس وقت کے ضلعی تعلیمی آفسران نے لوہی میں تعلیم کے فروغ کے لیے ضلع بارکھان سے تعلق رکھنے والے بجار خان کھیتران کو یہ ذمہ داری سونپی کہ گورنمنٹ بوائز مڈل اسکول لوہی کی تعلیمی کمان سنبھالیں،بجارخان نے اپنے حق کی ادائیگی کے لیے اس دور کے مشکل حالات میں لوہی میں تعلیمی مقاصد کے حصول کے لیے اپنی چھوٹی فیملی سمیت ڈھیرے ڈال لیںاور دس سال تک وہی تعینات رہے ،اس استاد محتر م نے ان دس سالوں کے دوران تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی کھیپ کو تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ،اسی ہیومین ریسورس کی وجہ سے لوہی کے علاقوں میں پرائمری اسکولز میں مقامی ٹیچرز کی تعیناتی عمل میں آئی ،آج بجار خان کھیتران کے شاگردوں میں دریجی کے اسکولوں میں تعینات مختلف ایس ایس ٹیز اور ائے ڈی او شامل ہیں ،دس سال کی کامیاب جہدوجہد کے بعد جب تعلیم کی مضبوط بنیادیں رکھنے میں کامیاب ہوئے تو بجار خان کھیتران واپس اپنے علاقے لوٹ گے مگر افسوس ان کے جانے کے بعد مقامی نوجوانوں نے وہ جذبہ نہ دکھایاجس کے راستہ کھتیران صاحب دکھاکر گے تھے ،ہونا تو یہ چاہے تھا کہ ایک بجار خان کھیتران نے جوکئی بجارخان پیداکیے تھے وہ تعلیم حوالے سے مذید لوگ پیدا کرتے مگر یہ روایات کو جاری نہیں رکھی گی بلکہ آج تک دوسرا کوئی بھی استاد بجار خان کھیتران کی جگہ نہ لے سکا ، پانچ اکتوبر کو دنیابھر سلام ٹیچر ڈئے کے موقع پر بجارخان کھیتران جیسے عظیم اساتدہ کو سلام پیش کرتے ہوئے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیاجاتاہے جنہوںنے مشکل و کھٹن حالات میں بھی اپنے فرض کو بخوبی نبھایااورچراغ علم سے اندھیرے کا خاتمہ کرتے رہے اور لوگوں کے دلوں کو علم کے نور سے منور کرتے رہے ۔اقوام متحدہ کے ادارے یونسیکو کے زیراہتمام مناے جانے والے اس عالمی دن کی تھیم  "اساتذہ کے لیے ایک موقف لے لو "ہے اس موضوع کا مقصد کہ دنیا بھر میں درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ افراد کے لیے مناسب تربیت ،موجودہ پیشہ ورانہ ترقی اور اساتدہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز کو بلند کرنا ہے ۔

سلام ٹیچر ڈے کے موقع پر ملک بھر میں مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جس میں اساتذہ کی عظمت اور اس کے کرادر کے حوالے سے بات کی جاتی ہے اور ان کو خراج تحسیس پیش کی جاتاہے،کہتے ہیں کہ اساتذہ عمارت سازوں کی ایک قسم ہیںجوکہ کسی بھی معاشرے میں نئی نسل کومستقبل کامثبت شہری بنانے کے ذمہ دار ہوتے ہیںوہ علم و فنوں کی تعلیم سے لے کر آداب زندگی اور طرز عمل سکھاتے ہیں،کہا جاتاہے کہ والد دو قسم کے ہوتے ہیں ایک والد وہ ہوتاہے جس کے خون سے انسان پیدا ہوتاہے ،اور ایک والد وہ ہوتاہے جو علم کی روشنی سے انسان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے اس کے دل و دماغ کو روشن کرتاہے اور دولت سے مالامال کردیتاہے اس لےے استاد کو روحانی والدین کا درجہ رکھتے ہیں اس طرح شاگرد ان کے روحانی اولاد ہوتے ہیں،سچ کہاہے کسی نے کہ انسان کو اس کا باپ آسمان سے زمین پر لاتاہے اور اس کا استاد اس کو ا مدراج طے کرواتے ہوئے دوبارہ آسمان کی بلندیوں پر لے جاتاہے-

ہمارے استاد کو قوم کا ممارکہا جاتاہے اسے روحانی والدین کا درجہ دیا جاتاہے یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس کا تعلق پیغمبری پیشے سے ہے اس پیشے کا مقصد ہی انسان سازی ہے جو ایک صف کا درجہ رکھتاہے جس پر تمام صفات کا ہی نہیں ساری زندگی کا دارومدار ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے میں استاد کے بارے میں عموماغیر سنجیدہ قسم کی رائے رکھی جاتی ہے اور انہیں وہ مقام نہیں دیا جاتاجس کے وہ حقدار ہیں دوسرے طرف ہمارے اساتدہ بھی اپنے پیشے سے مخلص نظر نہیں آتے جس کی وجہ سے معاشرے کے اندر اساتدہ کے کردار پر سوال کیے جانے لگے ہیں جیو ٹی وی کے پروگرام ذرا سوچئے کے مطابق پاکستا ن میں ڈیلی 25% اساتذہ اپنے فرائض سے غیر حاضر ہوتے ہیں،جس کی بنیادی وجہ اقراپروری ،تعلیمی کرپشن ، تعلیمی آفسران کی انتظامی کمزرویاں،تعلیمی عمل میں سیاسی مداخلت ،ٹیچرز یونین ،اور دیگر کئی عوامل شامل ہیں، ضلع لسبیلہ میں بھی اگراساتذہ کا تعلیمی عمل میں بہتر کرادار کا جائزہ لیں تو کئی خوبصورتی حقیقوں کے ساتھ بعض تلخ باتیں بھی سامنے آتی ہیں مگر ان کو بیان کرتے ہوئے قلم کو توہین اساتذہ کو مجرم قرار دینے کا ڈر لگتاہے مگر یہ حققیت ہے کہ ہمارے ہاں وہ اساتذہ کا وہ کردار نہیں جتنا ماضی میں رہاہے یا جس کی موجودہ دور میں امید کی جاتی ہے ،لسبیلہ کا تعلیمی عمل پرائمری سطح سے لے کر ہائی سطح تک پر مفلوج سا ہے ، تعلیمی عمل کی بہتری میں تعلیمی آفسران سمیت لرننگ کوآڈنیٹر ز کے کردار کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔اسکولوں میں اساتدہ کی کارکردگی دیکھنے کے لیے یہ لرننگ کوآرڈنیٹر فیلڈ کے اندر موجود ہوتے ہیں ، اسکولوں میں اساتدہ کی حاضری کو یقینی اورتدریسی عمل کے طریقہ کار کو مفیدبنانے کےلے لرننگ کوآرڈنیٹر کو آفسران بالا کے ساتھ بیٹھ کر موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ، اساتذہ کی پیشہ وارنہ تربیت ایک اہم عنصر ہے مگر ہمارے ہاں استعدکاری کا عمل ہمیشہ متنازعہ رہاہے ،کبھی ٹریننگ کی شرکاءپر، کبھی ٹیرنر پر، کبھی ٹی اے ڈی اے پر ،اور کبھی تو ٹریننگ دینے والے ادارے پر مسلہ ،ان مسائل کے باوجود بھی اگر ٹریننگ کا انعقاد ہو بھی جائے تو دوسری طرف غیر سرکاری ادارں اور محکمہ تعلیم کے پاس ایسے کوئی واضح نظام نہیں جس کے ذریعے یہ معلوم کیاجائے کہ ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ٹیچرزنے اپنے لرننگ و تدریسی معارتوں کو کس طر ح اطلالق کیا؟آیا اساتذہ کو ٹریننگ کے عمل سے گزارنے کے بعد ان کی صلاحیتوں میں اضافہ بھی ہوا یاصرف وہ ٹریننگ سفری و ڈیلی الاونس کے حصول کے لیے ہی کارآمد رہی؟، اس سیکھنے اور سکھا نے جیسے کام کے عمل کو کارآمد بنانے کے لیے حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو مانٹرننگ کا موثر نظام واضح کرنا ہوگا، ہمارے ہاں اساتذہ کی یونینز کی رواں سال جہد وجہد کے حوالے سے اہم ترین سال رہا جس کے اندر اساتذہ نے سخت حالات میں مسلسل جہد وجہد کرنے کے بعد اپنے حقوق کے حصول کو ممکن بنایا اور کئی مراعات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ،اساتذہ کے ٹائم اسکیل کی سہولت کی فراہمی کے ساتھ ان کا گریڈ ز کو بڑھایا گیا ہے ساتھ میں گزشتہ بجٹ میں کنوئنس الاونس کا بھی اعلان کیا گیا ہے ،حکومت کی طرف سے فراہمی کی جانے والی مراعات کے باوجود بھی تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل کی بہتری کے امکانات فوری طور پر نظر نہیں آرہے ہیں جوکہ لمحہ فکریہ ہے ،اسکولوں میں تدریسی عمل کے نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ و طالبات امتحانات میں نقل کرنے پر مجبور ہیں بلکہ بدقسمتی سے نقل کے فروغ میں بھی اساتذہ کرام ملوث ہورہے ہیں،پرائمری سطح لے کر ہائی لیول تک بوٹی مافیا خاتمہ محکمہ تعلیم کے ایک چیلنچ ہے کیونکہ نقل کے ناسور کی وجہ سے لسبیلہ کے نوجوان گزشتہ کئی سالوںسے مقابلہ جاتی امتحانات میں مقابلہ نہیں کرپارہے ہیں،لسبیلہ میںان تمام تر تعلیمی مسائل کے باوجود اساتذہ کی ترقی کے حوالے سے بہت کچھ حوصلہ مند باتیں ضرور موجود ہیں اپنے مضمون میں ان کا ذکر یقینا ان کی حوصلہ افزائی ہوگی گزشتہ کئی سالوں سے اساتذہ کی ہونے والی تقرریوں پر چھائے ہوئے بادل راواں ماہ چھٹ رہے ہیںاور امید ہے کہ بھرپور میرٹ کی بنیاد پر اس مائہ لسبیلہ میں 100 کے قریب نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو بطورٹیچر تعیناتی کے تقررنامے جاری کیے جارہے ہیں جس سے امید ہے کہ تعلیمی عمل میںنئے اساتذہ کے بھرتوں کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس سے لسبیلہ میں تعلیمی حوالے سے بڑی خوش گوار تبدیلی آئیگی ، گزشتہ کچھ عرصے سے اساتذہ کی پروفیشنل فیلڈ میں ڈگری کے حصول کا رحجان تیزی سے بڑھ رہاہے جوکہ سیکھنے کی گنجائشیوں کو مذید فروغ دے رہاہے حکومت بلوچستان اور یوایس ایڈ کی طرف سے ایلمینری کالج اوتھل میں ADE کی ڈگری متعارف کروائی گی ہے جس میں بہت سارے نوجوان حصہ لے رہے ہیں اس کے علاوہ حب میں قائم بلوچستان کالج آف ایجوکیشن اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی جیسے ادارے ا ساتذہ کی پیشہ وارنہ صلاحیتوں کے اضافے کے لیے بھرپور معاونت فراہم کررہاہیں لسبیلہ کے اساتذہ کی طرف سے تعلیمی صلاحیتوں کی بہتری کے کوششوں کی بڑی مثال کراچی میں ہمددر یونیورسٹی میں بڑی تعداد میں ایم ایڈ ،بی ایڈ اور ایم فل کی ڈگری کے حصول کے لیے داخلہ لینا ہے جس سے ثابت ہوتاہے کہ لسبیلہ میں اساتذہ اپنی پیشہ وارنہ صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے نمایا ں کوشش کررہے ہیں جو کہ یقینا لسبیلہ کے طلبہ و طالبات کی تعلیمی کارگردگی میں اضافے اور لسبیلہ میں تعلیمی ترقی کا موجب بنے گی، اگر چہ یہ امرحوصلہ افزاءاور باعث اطمینان ہے کہ اساتذہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھا رہے ہیںحکومت بھی کسی حد اساتذہ کے مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کوششوں میں ہے اور لسبیلہ میں غیر سرکاری ادارے اساتذہ کی پیشہ وارنہ تربیت کے عمل کو فروغ دینے کی کوششوںمیں لگے ہوئے ہیں ، اسی طرح اساتذہ کی تکریم اور وقار کی ببحالی کے لیے اس ہر سال پانچ اکتوبرکو منائے جانے " سلام ٹیچر ڈے" بھی معاشرے میں استاد کے کردار کو زندہ رکھنے اور طلبہ کے دلوں میں اس کی اہمیت کا احساس اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتاہے ،تاہم اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں بالخصوص پرائمری سکولوں میں نسل نو کی تربیت اس انداز سے کریں کہ وہ اپنے اساتذہ کا نام عزت و فخر کے ساتھ لے سکیں اور سینہ تان کر کہہ سکیں کہ فلان استاد میرا استاد ہے ،میری تعلیم و تربیت کے تمام مثبت پہلووں میں فلاں استاد کا ہاتھ ہے -
Khalil Roonjah
About the Author: Khalil Roonjah Read More Articles by Khalil Roonjah: 12 Articles with 17284 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.