صوفی ازم اور رابعہ بصری

آج شدت پسندی اور دہشتگری سے نجات کے لیے دنیا کی سوچ امن اور بھائی چارے پر مرکوز ہے جس کے لیے دنیا بھر کے دانشور صوفی ازم کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں حضرت آدم سے لیکر حضرت محمد ﷺ تک جتنے بھی مختلف مذاہب کے بانی آئے ان میں سوائے گوتم بدھ کے ہر ایک نے ایک اللہ کی بات کی اور انسانوں کو اسلامی کی تعلیم دی ہر مذہب میں کچھ ایسے لوگ پائے گئے جنہوں نے پیار اور محبت کو فروغ دیا اور صوفی کہلائے صوفی کئی معنوں میں لیا جاتا ہے۔ صوفی کا مطلب اونی لباس ہے۔ چنانچہ ایک خاص طرح کا اونی لباس پہننے والے صوفی کہلائے۔ صفا کے معنی PURITYیعنی خالص کے ہیں اپنی ان صفات کی بنا پر لوگ صوفی کہلائے بعض لوگ صوفی کو صفوی سے اخذ کرتے ہیں جس کا مطلب ہے منتخب لوگ رسول کریم ﷺ کے زمانے مین کچھ لوگ مسجد نبوی کے شمالی کونے میں ہر وقت عباد ت میں مصروف رہا کرتے تھے ان کے حوالے سے بھی بہت زیادہ عبادت گزار لوگوں کو صوفی کہا جاتا ہے آج کے جدید دور میں صوفی ازم کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے۔
Sufism is a science whose objective is reparation of heart and turning it away from all else but God.

صوفی ازم کا مقصد انسانی دل کی درستی اور اسے رب العزت کی محبت کے سوا ہر چیز سے بے نیا ز کر دینا ہے۔ اسلام کی ترویج میں صوفیوں کا ایک خاص رول ہے اسلام میں صوفی ازم کی ابتدا توشعیہ مسلک سے ہوئی مگر اب یہ سلسلہ سنیوں میں زیادہ مقبول ہے ۔بخارا سے شروع ہونے والا سلسلہ نقیبیہ بغداد سے شروع ہونے والا سلسلہ قادریہ اور برات (چشت شریف ) سے شروع ہونے والے سلسلے چشتیہ کے علاوہ صوفیوں کے بہت سے سلسلے ہیں جو تمام مسلمانوں میں یکساں مقبول ہیں۔ صوفی ازم ہمیشہ سے بھائی چارے کی علامت ہے ایک عام عالم رب العزت کو قہار اور جبار بتاتا ہے اور ایک مخصوس رستے سے تھوڑا سادائیں بائیں ہونے کو گناہ قرار دیتا ہے۔ جب کہ ایک صوفی کے نزدیک رب العزت رحیم ہے کریم ہے اور اس کی رحمت اور کرم اس کی بقیہ تمام صفات سے بڑھ کر ہیں وہ اپنے بندوں کو ماں اور باپ سے برھ کر پیار کرتا ہے اور ایک بھٹکا ہوا انسان جب بھی پہنچتا وہ محسوس کرتا ہے تو اس کی رحمت اسے اپنے حلقے میں لے لیتی ہے صوفی کا پیغام ہر ایک کے لیے محبت کا پیغام ہے دنیا بھر کے دانشور آج صوفی ازم پر کام کر رہے ہیں صوفی ازم ایک تحریک کے طور پر دنیا سے روشناس ہو رہا ہے جس پر تمام دنیا کے لوگ جن کا مذہب کچھ بھی ہے جن کارنگ کچھ بھی ہے جن کی نسل کچھ بھی ہے اکھٹے کام کر رہے ہیں اس لیے کہ ان کے خیال میں عقل و دانش اور بھائی چارہ کسی خاص مذہب کسی خاص فرقے اور کسی خاص طبقے کی میراث یا ملکیت نہیں بلکہ یہ انسان کو وراثت میں ملی ہے اور انسانیت ان کی امین ہے یہی صوفی ازم کا پیغام ہے اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ صوفی ازم کیاہے تو آپ کا جواب ہو گا کہ یہ دل کا مذہب ہے ایسا مذہب جس کا سب سے اہم کام انسان کے دل میں خدا کی تلاش ہے صو فی کی زندگی اس کا انداز اس کے اطوار اور اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے حضرت رابعہ بصری کی زندگی ایک رول ماڈل ہے جواپنے وقت کی عظیم صوفی شاعرہ اور قلندر تھیں ۔ قلندر دہ ہوتا ہے جو شادی نہیں کرتا اور روحانیت کی انتہائی منزلوں پر فائز ہوتا ہے قلندر رب العزت کے منتخب لوگ ہوتے ہیں جن میں رب کی محبت کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ پیار محبت اور انسانیت کے زبردست پیامبر ہوتے ہیں۔

رابعہ بصری (رابعہ الادادیہ) عراق کے شہر بصرہ میں 717ءمیں پیدا ہوئیں غالباََ 98یا 99ہجری کا اسلامی سال تھا رابعہ کے معنی ہیں چوتھا یہ چونکہ اپنے والد کی چوتھی اولاد تھیں اس لیے رابعہ کہلوائیں ان کے والد انتہائی غریب آدمی تھے جس دن رابعہ پیدا ہوئیں گھر میں دئیے کے لیے تیل نہیں تھا اور بچی کو پہنانے کے لیے کپڑے بھی نہیں تھے۔ رابعہ کی والدہ نے ان کے والد سے ہمسایوں سے تھوڑا سا تیل لانے کے لیے کہا مگر انہیں رب کے سوا کسی سے مانگنا گوارہ نہ تھا بیوی کے اصرار پر گھر سے باہر آئے کچھ دیر گلی میں کھڑے رہے اور پھر اسی طرح واپس چلے گئے رات کو نبی کریم ﷺ خواب میں آئے اور بشارت دی کہ تمہاری یہ بیٹی رب العزت کو بہت عزیز ہے اور یہ بہت سے لوگوں کو سچائی کے راستے پر لائے گی۔ تم بصرہ کے امیر کے پاس جاﺅ اور ایک دفعہ لکھ کر اسے دو کہ تم ہر رات سونے سے پہلے سو دفعہ درود شریف پڑھتے ہو اور جمعرات کی رات چار سو دفعہ مگر اس جمعرات کو تم سے کوتاہی ہوئی اس لیے نہ پڑھنے کا کفارہ حامل ہذا رقعہ کو چار سو دنیا کی شکل میں ادا کرو بصرہ کے امیر نے رقعہ پڑھا تو اس کی آنکھیں چھلک پڑیں فوراََ چار سو دینارانہیں دیئے اور ہزار دینار دوسرے غریبوں میں بانٹے کہ حضور رسول کریم ﷺ کی نظر کرم اس پر ہے۔

رابعہ کے والد کے فوت ہونے کے کچھ عرصہ بعد بصرہ میں خوراک کی قلت کے سبب ان کے خاندان نے بصرے کو خیر باد کہا راستے میں کارواں کو ڈاکوﺅں نے لوٹ لیا حضرت رابعہ کو مال غنیمت سمجھ کر اپنے ساتھ لے گئے اور منڈی میں جا کر بیچ دیا۔ خریدار کے گھر رابعہ سارا دن پوری محنت سے کام کرتیں اور ساری رات اللہ کی عبادت میں مگن رہتیں ایک رات مالک نے دیکھا کہ رابعہ عبادت کر رہی ہیں اور ایک روشنی کا ہالہ ان کے ارد گرد ہے آپ دعا کر رہی تھیں کہ اے میرے محبوب اے میرے رب میں اگر غلام نہ ہوتی تو سارا دن تیری عبادت میں گزارتی مگر کیا کروں ایک عاجز غلام ہوں اس لیے مجبور ہو ں مالک نے یہ منظر دیکھا تو ڈر گیا صبح ہوتے ہی حضرت رابعہ سے کہنے لگا کہ آپ چاہو تو ایک مالک کی طرح اس گھر میں رہ سکتی ہیں اور اگر جانا چاہیں تو میری طرف سے آزاد ہیں حضرت رابعہ نے وہاں سے جانا پسند کیا اور عبادت کے لیے شہر سے دور ویران اور علیحدہ جگہ چلی گئیں ان کی کل کائنات ایک ٹوٹا ہو ا جگ ایک کھردری چٹائی اور ایک اینٹ تھی جسے وہ تکیے کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔ حضرت رابعہ کے بارے میں بہت سی دلچسپ روایات ہیں۔

صالح اس زمانے کے ایک مشہور عالم تھے ایک دن اپنے شاگردوں کو بتا رہے تھے کہ وہ شخص جو در رحمت کو بار بار کھٹکھٹاتا ہے ایک دن وہ در اسکے لیے ضرور کھلتا ہے حضرت رابعہ نے سنا تو کہنے لگیں ”کھلے گا “کا کیا مطلب وہ در بند ہی کب تھا جو کھلے گا کیسی غلط بات ہے اللہ کی محبت کا دروازہ تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے ایک دن لوگوں نے پوچھا آپ اپنے پاس چھری یا چاقو کیوں نہیں رکھتیں جواب دیاچھری چیزوں کو کاٹ دیتی ہے اور میں کوئی بھی کاٹنے والی چیز اس خوف سے اپنے پاس نہیں رکھتی کہ کہیں میرا اور میرے محبوب میرے رب کا رشتہ کسی وجہ سے کٹ نہ جائے۔

ایک دن کوئی پیغام پہنچانے کے لیے کہیں جا رہی تھیں ایک بدمعاش نے ان کا پیچھا شروع کر دیا اس سے بچنے کے لیے بھاگیں تو گر گئیں بازو ٹوٹ گیا گھر آکر روتے ہوئے اللہ سے فریاد کی کہ الٰہی جو چاہے امتحان لے جو چاہے سزاد ے مگر مجھ سے ناراض نہیں ہونا غیب سے آواز آئی رابعہ ان تکلیفوں کی پرواہ مت کر و روز حشر تمہارا مقام وہ ہو گا کہ فرشتے بھی اس پر رشک کریں گے۔

حضرت حسن بصری انتہائی ضعیف تھے نوجوان رابعہ بصری سیکھنے کے لیے ان کے پاس جایا کرتی تھیں۔ ان دنوں صوفی حضرات سیکھنے اور سکھانے کے لیے مناظرے کی طرز پر ایک دوسرے کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ مجبور اور عاجز لونڈی رابعہ انتہائی مذہبی اور فکری شخصیت حسن بصری سے ہمیشہ جیت جاتیں جس دن رابعہ نہ جاتیں حسن بصری درس و تدریس کا کام نہ کرتے کسی نے پوچھا تو بولے کہ وہ محلول جو میں نے ہاتھیوں کے لیے تیار کیا ہے چیونٹیوں کو کیسے پلا سکتا ہوں۔

حضرت رابعہ بصری کا شمار ان صوفیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے صرف اور صرف خدا کی محبت میں اپنی ذات کو کھونے کا تصور پیش کیا اور ان کا بنیادی فکری تصور اور مقصد محبوب حقیقی میں فنائے ذات یا فنا فی اللہ ہے صرف اسی فنا میں سزا اور جزا سے بالا تر صدق کی انتہائی صورتیں اور وحدت کی حقیقی تصدیق حاصل کی جا سکتی ہیں۔ خدا انسان کی ذاتی انانیت کو فنا کر دیتا ہے ۔ فنائے ذات کا تصور صوفیانہ فکر میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے رب العزت کا فرمان ہے۔ ” جب بندہ میرے قریب تر آتا ہے تو میں بندے سے پیار کرتا ہوں اور جب اسے پیار کرتا ہوں تو اس کی سماعت اس کی بصارت اس کے قدم اس کے ہاتھ اور اس کی قوت گویائی بن جاتا ہوں“۔

حضرت رابعہ بصری نے سزا اور جزا کی پوری عمارت کو مسترد کر دیا وہ دعا کرتیں کہ اے میرے رب میں اگر جنت کے لالچ کے بغیر عبادت کروں تو جنت دینا اور اگر دوزخ کے عذاب کے ڈر سے عبادت کروں تو دوزخ دینا کہتے ہیں ایک دفعہ وہ اپنے ایک ہاتھ میں پانی اور دوسرے ہاتھ میں آگ لے کر بھاگی جا رہی تھیں۔ کسی نے پوچھا کہاں جا رہی ہیں جواب دیا اس آگ سے جنت کو آگ لگانے اور اس پانی سے دوزخ کی آگ بجھانے تا کہ آئندہ کوئی بھی سچی محبت کے سوا خوف یا لالچ میں خدا کی عبادت نہ کرے۔

رابعہ بصری اپنے اس نظریے پر مرتے دم تک قائم رہیں۔ کسی نے پوچھا کہ کیا وہ شیطان سے نفرت کرتی ہیں تو جواب دیا کہ یاد الٰہی میں مصروفیت کے سبب شیطان کے بارے میں سوچنے کی مہلت ہی نہیں ملی۔ کسی نے پوچھا کیا۔ آپ محمد ﷺ سے محبت کرتی ہیں جواب دیا نہیں میں ان کی بے حد تعظیم کرتی ہوں مگر محبت صرف اپنے محبوب اپنے رب سے کرتی ہوں خدا کے سواکسی اور سے محبت کرنے کا مطلب اسے خدا مان لینا ہے بہت سی روایات کے مطابق حضرت رابعہ بصری نے انسانی مخلوق سے بھی کوئی چیز لینے سے ہمیشہ انکار کیا کیونکہ ان کے نزدیک ایسا کرنا تو کل اور توحید کے عقیدے کی نفی ہے۔

رابعہ بصری کی صوفیانہ شاعری ان کے بعد فرید الدین عطار کے حوالے سے ہم تک پہنچی ہے اس شاعری کا ایک خاص انداز اور خاص پیغام ہے اسی انداز اور اسی پیغام کو ان کے پیشرو مولانا رومی اور بہت سے دوسرے صوفی شاعروں نے اپنایا، پہلی صدی ہجری میں ایک عورت کا اسلام کی ترویج کے لیے زندگی بھر کام کرنا ان لوگوں کے لیے بھی ایک پیام ہے جو اسلام میں عورت پر پابندیوں کی بات کرتے ہیں رابعہ بصری کے بقول 1۔یاسیت اور تقدیر پرستی کی بجائے توکل سچے عمل کی کنجی ہے2۔محبت اور عبادت سزا کے خوف یا جزاءکی توقع کے بغیر کرنی چاہیے۔3۔ مخلوق سے کچھ مانگنا، اثبات وحدت سے انکار ہے۔4۔ بت سے مانگنے کا مطلب منشائے الٰہی سے انکار ہے۔ 5۔ اللہ پر بھروسہ مستقبل کے لیے ہر منصوبہ بندی یا پس اندازی کو دائرہ عمل سے خارج کر دیتا ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 452742 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More