کمال ذہین بچہ (قسط۲)

محترم قارئین :بلا کسی تعصب ،بلاکسی منافرت ،بلاکسی مبالغہ کہ جوحقیقت دکھائی دیتے ہے اور جو میرے مطالعہ کی نظر سے اہم اور معتمد بات گزرتی ہے آپ کی خدمت میں عرض کردیتاہوں ۔کچھ بعید نہیں کہ آپ کو اختلاف بھی ہو ۔لیکن یہ بھی ذہن میں رکھیے گا ضروری نہیں جو آپ سوچ رہے ہوں وہی احسن وہ یا جو میں پیش کررہاہوں وہ تمام کا تمام مبرہ عن العیوب ہو ایسا بھی نہیں ۔بشری عوارض لاحاق ہیں خطا کا ہونا ممکن ہے ۔بجائے اس کے کہ ہم الجھیں جہاں کمی پائیں اصلاح فرمادیں اور جہاں کچھ بہتری پائیں اپنی تحیسن بھرے الفاظ سے نواز دیں تو احقر کا حوصلہ بڑھ جائیے گا۔میں سیرت کا پہلو لیے آگے بڑھ رہاہوں کیوں کہ ہماری ذات سے کردار کی مہک ختم ہوتی چلی جارہی ہے ۔ہما ری زندگیوں سے گفتار کی چمک ماند پڑتی چلی جارہی ہے ۔لہذا ایک کام ،ایک ذمہ داری جانتے ہوءے آپ کی خدمت میں دوسری قسط کے ساتھ حاضر ہوں ۔
لیجیے!

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کم و بیش مختلف عنوانات پر کم و بیش ایک ہزار کتابیں لکھیں ہیں۔ یوں تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے 1286؁سے 1340؁ھ تک لاکھوں فتوے لکھے۔ لیکن افسوس کہ سب کو نقل نہ کیا جاسکا، جو نقل کرلیئے گئے تھے ان کا نام "العطا یا النبویہ فی الفتاوی رضویہ" رکھا گیا۔ ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجزن ہے۔ یوں توعلمی میدان میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کارہائے نمایاں سرانجام دیے، جو رہتی دنیا تک کے لیے نہایت مفید اَثاثہ ہے ۔

آپ کے قلم کا عظیم علمی شاہکار ، فقہی انسائیکلو پیڈیابنام''العطایاالنبویۃ فی فتاوٰے رضویہ'' جس میں منطق ،فلسفہ ،علم الاعداد ،علم النجوم ،علم طب،علم ہیئت،علم توقیت اور شریعت و طریقت کا بیش بہا قیمتی خزانہ موجود ہے ۔تحریرات ِ انیقہ و جزئیات فقیہ پریدطولیٰ امام اہلسنّت عظیم المرتبت،الشاہ احمد رضاخان علیہ رحمۃ الحنان نے فتاوٰی رضویہ میں مدلل،مشرح اوربراہین و دلائل کی روشنی میں تشفی بخش جوابات کو نقل فرماکر امّت مسلمہ پر اک احسانِ عظیم فرمادیا ۔مختلف اطراف سے الحاد و بیدینی کے اُٹھنے والے سیلاب کے استیصال کے لیے عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں امّت مسلمان کے لیے '''العطایاالنبویۃ فی فتاوٰے رضویہ'' کی ضخیم تحفہ عطافرماکربہت بڑاعلمی کارنامہ سر انجام دیا ۔جو برسوں یادرکھا جائے گا۔

قرآن و حدیث، فقہ منطق اور کلام وغیرہ میں آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی وسعت نظری کا اندازہ آپ کے فتاوٰے کے مطالعے سے ہی ہو سکتا ہے، آپ کی چند دیگر کتب کے نام درج ذیل ہیں۔ "سبحٰنُ السُّبوح عن عیب کذب مقبوع" سچے خدا پر جھوٹ کا بہتان باندھنے والوں کے رد میں یہ رسالہ تحریر فرمایا جس نے مخالفین کے دم توڑ دیئے اور قلم نچوڑ دیئے۔نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان اس کتاب میں آپ نے قرآنی آیات سے زمین کو ساکن ثابت کیا ہے۔ علاوہ ازیں المعتمد المستند، تجلی الیقین جیسی تقریبا ایک ہزار کتب تحریر فرمائیں ۔اعلٰی حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ احمد رضا خاں قادری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ذات ستودہ صفات کافی نمایاں ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں سے نہ صرف مذہب مخالف کے سیل رواں پر بند باندھا ہے بلکہ مذہب مخالف کے ہر فتنہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ہی عافیت سمجھی اس کے لئے انھیں کافی جدوجہد کرنی پڑی۔ تمام مذہب مخالفین کا پامردی کے ساتھ دلائل و براہین کی روشنی میں دنداں شکن جواب دیا جس سے وہ سب مبہوت ہو گئے۔ لیکن ان کے حوارئین جن کی تعداد اس وقت ہر شعبہ حیات میں کچھ کم نہ تھی ہاتھ دھو کرکے پیچھے پڑ گئے مگر وہ بطل جلیل جو صرف اور صرف احقاق حق اور ابطال باطل ہی کے لئے پیدا ہوا تھا۔ باطل کے آگے جھکنا تو درکنار اسے خاطر میں بھی نہ لایا۔ خود ہی فرماتے ہیں،
کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرہ میں لاتا نہیں کتا تیرا

(آ پ کا عشق رسول ):
ایک عاشق تھے ۔ایک محب تھے ،شہر نبی و ذات بنی کے پروانے تھے ۔اپنی محبتوں و عقیدتوںکو ایک بہترین عمدہ و صنف شاعری کے عروض و قوافی کا بے مثل کلام جو شان رسالت مآب میں بنام حدائق بخشش پیش کیا ۔جو آج بھی عاشقوں کی زبانوں پہ جاری و ساری ہے ۔
مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

ایسا محبت بھرا کلام لکھا کہ یہ نعتیہ کلام مسلمانو، مومنو اور صوفیوں کی زبان پر جاری ہوگیا ہے۔

آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے قرآن مجید کااردو ترجمہ کیا جو کہ اردو کے موجودہ تراجم میں سب پر فائق ہے جس میں فقط لفظی ترجمہ پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ عربی دانی کی بہترین نظیر ہے جس میں ادب و تعظیم ،فصاحت و بلاغت کی خوشبو نمایاں ہے ۔اس ترجمہ قران کو "کنز الایمان" کے نام سے موسوم کیا گیا۔
حقیقت ہے کہ :
تمہاری شان میں جو کچھ کہوں اس سے سو تم ہو
قسیم جام عرفاں اے شہ احمد رضا تم ہو
مزین جس سے ہے تاج فضیلت تاج والوں کی
لعل پرضیا تم وہ در بے بہا تم ہو

علم کا عمل سے گہر اتعلق ہے۔امام اہلسنّت ،امام عشق و محبت ،قاطع بدعت ،محی السنۃ الشاہ امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ایک باعمل عالم تھے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جہاں علم ظاہری کے مراتب طے فرمائے وہاں علم باطنی کے لیے ٥جمادی الاولیٰ ١٢٩٤؁ھ کو مارہرمطہر ہ میں دستِ حق پرست ،سند الکاملین ،حضرت سیدنا شاہ آل رسول احمدی تاجدار مارہرہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر شرف بیعت حاصل فرمایا۔زہد و تقویٰ میں ترقی پاتے پاتے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مرشد برحق نے جمیع سلاسل میں خلافت واجازت عطافرمائی ۔

عبادت و ریاضت کی منازل طے ہورہی ہیں ۔تشنگانِ علم و ہدایت جوق در جوق بریلی کی اس ہستی کی جانب بڑھے چلے آرہے ہیں ۔جو آیا تہہ دامن تھا عشق مصطفی کی دولت سے بہرمند ہوکر گیا۔غبارآلود دلوں کو جلا بخشی ۔علم کے پیاسوں کو علم نافع کے جام پلائے کہ انکی رہتی نسلیں سدھر گئیں ۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ ادب و تعظیم کی بے مثل نظیرتھے کہ اپنے بڑوں کا ادب ،چھوٹوں پر شفقت ،حقوق اللہ کا پاس اور حقوق العباد کالحاظ آپ کی شخصیت کا گرانقدر سرمائیہ افتخار تھا۔اللہ والے اللہ کے بندوں سے کس قدر پیار کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ فخر سلف ،بقیہ ئ خلف ،عمائد علما ء کی آنکھوں کی ٹھنڈک اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لوگوں کو رخصت کرنے کے لیے پھاٹک پر تشریف لائے سردی کا موسم تھا ۔ایک کپڑا اوڑھے ہوئے تھے ۔کہ خادم کو دیکھا جو خالی داماں تھا۔فرمایا: تمہارے پاس کچھ رکھنے کونہیں ۔خادم کا جواب منفی میں سن کر اسے اپنااوڑھا ہوا کپڑا سونپ دیا فرمایا:آپ رکھ لیں ۔سبحان اللہ ۔

ان پاکباز ہستیوں کے فیض نظر ہی بدولت پیار و محبت کے دیپ چلے ۔انارکی ،نفرتیں و عداوتیں کم ہوئیں ۔بکھرے ہوئے سمٹ گئے ،بگڑہوئے سنور گئے ،بچھڑے ہوئے مل گئے ۔ جب اعلٰی حضرت کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا ایک غلام عاشق امام احمد رضا فاضل بریلوی کی شخصیت مراد لی جاتی ہے۔

(سفر حج):
اعلٰی حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ اللہ الحنان نے دو مرتبہ حرمین طیبین کی زیارت فرمائی۔ پہلی مرتبہ ہمراہ والد ماجد مولانا نقی علی خاں رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے 1295ھ / 1877ء کو اور دوسری مرتبہ 1324ھ / 1905ء کو دوسری مرتبہ جب بارگاہ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے تو شوق دیدار کے ساتھ مواجہہ عالیہ میں درود شریف پڑھتے رہے۔ امام احمد رضا رضی اللہ تعالٰی عنہ کو امید تھی کہ ضرور سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم عزت افزائی فرمائیں گے اور زیارت جمال سے سرفراز فرمائیں گے لیکن پہلی شب تکمیل آرزو نہ ہو سکی۔ اسی یاس و حسرت کے عالم میں ایک نعت کہی جس کا مطلع ہے،
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

قسمت جاگ اٹھی، ارمانوں کی بہار آ گئی۔ خوشیوں کے کھیت لہلہانے لگے، ہوائیں وجدمیں آگئیں۔ ایک مومن مسلمان کی مراد یوں پوری ہو گئی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کے عشق کی معراج ہو گئی۔ تمام رسولوں کے سردار حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے عالم بیداری میں اعلٰی حضرت علیہ الرحمۃ کو اپنا دیدار نصیب فرمایا۔

اعلٰی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی شاعری آپ کے عشق رسول کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ خود ہی ارشاد فرماتے ہیں۔ جب سرکار اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی یاد تڑپاتی ہے تو میں نعتیہ اشعار سے بےقرار دل کو تسکین دیتا ہوں ورنہ شعر و سخن میری طبع نہیں۔ (سوانح اعلٰی حضرت)

اس عظیم ہستی کے عالم اسلام پر بہت سے احسان ہیں جنھیں تاقیامت یادرکھا جائے گاجو بھلائے نہ بھولیں ۔وہ ہمہ گیر ،عالمی شخصیت تھے جن کی سوچ کی وسعتیں کوہ ہمالیہ کی سی بلندی رکھی تھیں ۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 545827 views i am scholar.serve the humainbeing... View More