اور اب مسوری کا ماتم

عام طور سے لوگ یہ بات بھول گئے ہونگے کہ گزشتہ سال جولائی میں مرادآباد کے ایک چھوٹے سے گاﺅں اصالت پور باغ میں ایک لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کے ملزم تسلیم کی تلاش میں پولیس جب اس کے گھر پہنچی اوروہ نہیں ملا تو پولیسیا رعب دکھانے کےلئے ایک افسر نے ایک الماری کو الٹ دیا ،جس پر رکھا ہوا قرآن پاک نیچے گرگیا۔ یہ واقعہ صبح سات بجے کے قریب پیش آیا۔ آناًفاناً اس کے اطلاع آس پاس کے دیہات میں پھیل گئی اور دوپہرکے12 بجے تک ہزاروں افراد منتھر تھانے پر جمع ہوگئے۔کچھ ہی دیر میں غصہ تشدد میں بدل گیا ، تھانے پر حملہ ہوا ،سرکاری املاک کو نقصان پہنچا، نتیجہ میں کئی افراد کی جانیں گئیں، درجنوں افراد گرفتار ہوئے اور ہفتوں پورا علاقہ خوف و ہراس میں مبتلا رہا۔ کچھ لوگ بے آئی میں مارے گئے، کئی بے قصور جیلوں میں پہچائے گئے۔

دوسرا واقعہ اس کے تین ماہ بعداکتوبر میں ردر پور میں ہوا ۔ قرآن پاک کے چند بریدہ اوراق ملنے پر مولانا زاہد رضا خاں نے ایک جلوس لیکر تھانے پہنچے۔ یہاں بھی تشدد ہوا، پانچ مسلمان مارے گئے، درجنوں دوکانیں لوٹی گئیں اور کئی دن کرفیو رہا۔ جو مارے گئے، جن کے کاروبار لٹے، جو مصیبتوں میں گرفتار ہوئے ان کا پرسان حال کون ہے؟۔

اب یہ تیسرا واقعہ 14ستمبر کوضلع غازی آباد کے قصبہ ڈاسنہ سے متصل گاﺅں مسوری میں پیش آیا۔کہا یہ گیا کہ ادھینایک نگر ہالٹ پر کسی نے نویں اور دسویں پارے کے 16 اوراق چلتی ہوئی ٹرین سے پھنکے اورگالیاں دیں۔ ٹرین کا نام کاشی وشوناتھ بتایا گیا ۔ رفیق آباد کی مسجد کے موذن عبدالقادر کا بیان ہے کہ دوپہر ساڑھے بارہ بجے کے قریب حافظ عبدالغفار یہ اوراق لیکر مسجد آئے۔ ان پر کراس کا نشان x بنا ہوا تھا۔ ایک ورق پر ہندی میں نجس جانور کا نام اور ایک موبائل نمبر درج تھا۔ کچھ سمجھدار لوگوں کی رائے ہوئی کہ معاملہ کو طول دینے کے بجائے ان اوراق کو دفنا دیا جائے مگر کچھ لوگ کا اس بات پر اڑ گئے کہ نہیں تھانے چلا جائے۔ مسجد کے امام مجیب الرحمٰن تو دباﺅ میںنہیں آئے البتہ موذن عبدالقادر، جو ایک مہینہ پہلے ہی یہاں آئے ہیں، مجبور ہوگئے اورچالیس پچاس آدمی شام کو ساڑھے پانچ بجے ان کولیکر تھانے پہنچے۔ ان کی طرف سے تحریری شکایت درج کرائی گئی جس میںکہا گیا ہے: ”میں نے دوپہر ایک بجے کے قریب ایک شخص کو ٹرین سے یہ اوراق پھنکتے ہوئے اور گالیاں دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے یہ اوراق اُٹھائے۔ میں نے جب اس نمبر کو ملایا تو جواب میںگالیاں دی گئیں۔“ یہ تحریر ہندی میںعتیق الرحمٰن نے لکھی اور اس کے والدجلیل الرحمٰن کے اصرار پرموذن نے دستخط کردئے۔طرفہ تماشا یہ کہ تیسرے ہی دن عبدالقادر اس تحریر سے پھرگئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے مقامی لوگوں کے اصرار پر دستخط کئے۔بہرحال اسی دوران تھانے کے باہر کم و بیش کئی ہزار کی بھیڑ جمع ہوگئی۔اطلاع ملتے ہی ڈاسنہ کے چیرمین ساجد حسین تھانے پہنچ گئے۔ معاملہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں برا بھلا ان کو بھی سننا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ تھانے میں اس وقت چند لوگ ہی ڈیوٹی پر تھے۔فوراً ہی سی او اجے کمار، ایس ڈی ایم کیشو کماراوراے ڈی ایم (ای) راکیش شرما، ایس پی دیہات جگدیش چند تھانے پہنچ گئے۔ حکام نے ان لوگوںکو سمجھانے کی کوشش کی جو عبدالقادر کو ساتھ لیکر آئے تھے مگر وہ یہ اصرار کرتے رہے پولیس فوراً یہ بتائے کہ موبائل نمبر کس کا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات کمپیوٹر سے دومنٹ میں معلوم کی جاسکتی ہے ۔ اس وقت وہ نمبر سوچ آف بتا رہاتھا۔ افسران نے سروس پرووائڈر کو ہدایت دی کہ اس نمبر کو نگرانی پر لگادیا جائے۔مگر دیکھتے ہی دیکھتے ہجوم تشدد پر اترآیا۔شدید پتھراﺅ شروع ہوگیا۔ تھانے کے احاطے میں کھڑی ہوئی گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔ پولیس عملے نے ایک چھوٹے کمرے میں چھپ کا بمشکل اپنا بچاﺅ کیا۔ ہجوم کی طرف سے جب گولیاں چلیں تب پولیس نے جوابی گولی چلائی۔ (نو) گولیوں کے نشان تھانے کی دیواروں پر موجود ہیں۔“

یہ بات تصدیق طلب ہے یہ 16اوراق درحقیقت کہاں سے آئے تھے اور سپرفاسٹ ٹرین سے اگر کسی نے کچھ کہا تھا تو وہ سنائی کیسے دے گیا؟پہلے کہا گیا کہ حافظ عبدالغفار لائے تھے، پھر کہا گیا کہ کچھ بچے ان کواٹھاکر لائے تھے۔ان متضاد اطلاعات کی وجہ سے معاملہ گنجلک ہوگیا ہے۔سوال یہ بھی ہے اصل شکایت کنندہ کے بجائے رپورٹ موذن سے کیوں درج کرئی گئی ؟ جانچ ہوگی تو بہت سے سوال اٹھیں گے۔ لیکن ہنگامہ کھڑا کرنے والوں کے بے تدبیریاں صاف نظر آرہی ہیں۔اس واقعے میںایک شخص 35 سال کا اورسات نوجوان 19 اور 14سال کے درمیان عمروں کے لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ ایک لاش دودن بعد کھیت میں ملی ہے۔ ممکن ہے متوفی گولی لگ کر بھاگا ہو اور راستہ میں دم توڑ دیا ہو۔ایک گولی اس لڑکے کو لگی جو تھانے کے سامنے مکان کی چھت پر کھڑا تھا۔ مطلب یہ کہ نال کا رخ اوپر کی طرف تھا۔دودرجن کے قریب لوگ زخمی ہوئے جن میں ایس آئی رمیش چند اور دیوان پھولچند شامل ہیں۔رمیش کو گولی لگی اور پھولچند کو پتھر لگا۔

اکھلیش سرکار اس واقعہ سے ہکا بکا ہے۔ بغیر ضابطہ کی انکواری کے ایس ایچ او، پی کے سنگھ کو معطل کردیا گیا اور سی او کو اجے کمار کولائن حاضر کردیا گیا ہے۔ایس ڈی ایم کیشوکمار کو بھی معطل کئے جانے کی خبر ہے۔ درایں اثنا پی کے سنگھ کی طرف سے نامعلوم پانچ ہزار افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگئی ہے۔ لیکن فی الحال گرفتاریاں نہیں کی جارہی ہیں۔ قرآن کے اوراق بھی پولیس نے رفیق آباد کی مسجد کے امام کی سپردگی میں دے دئے ہیں جو مقدمہ میں گواہی کے طور پر پیش ہونگے۔یہ اس لئے کیا گیا کہ علاقے میں یہ بات پھیل رہی تھی غیر مسلموں کے ہاتھ لگانے سے قرآن کی مزید بے حرمتی ہوگی۔ ظاہر ہے یہ سارے اقدامات ماحول کو ٹھنڈا کرنے کےلئے ہیں۔ ممکن نہیں کہ ماحول ٹھنڈا پڑجانے کے بعد کاروائی نہ ہو۔ جس دن سے سماجوادی سرکار بنی ہے ہر ماہ کوئی نہ کوئی سانحہ پیش آرہا ہے۔ پہلے کوسی کلاں کا منظم فساد ٹھیک اسی طرز پر ہوا جس پر یوپی میں کئی دہائیوں سے ہوتے رہے ہیں۔ اس کے بعد پرتاپ پوراور بریلی وغیرہ میں منظم مسلم مخالف فسادات ہوئے۔ ان کا جو سیاسی اثر اگلے الیکشن پر پڑیگا ، اس کی نشاندہی کی یہاں ضرورت نہیں۔ہرچند کہ قرآن کے احکام سے لاپرواہی اور اس کے اوراق کی غیرمصدقہ بے بیحرمتی پر یوں چراغ پا ہونے کو ہم اسلامی تقاضوں اور ملّی مصلحتوں کے منافی تصور کرتے ہیں مگر فی الحال تشدد کے ان واقعات کے ایک دوسرے پہلو تک گفتگو کو محدود رکھیں گے۔
تشدد کے یہ واقعات

اس سے قبل حال ہی میں آسام کی خونریزی پر احتجاج کے دوران ممبئی ، لکھنؤ، الہ آباد اور چند دیگر مقامات پر تشدّد کے واقعات ہوئے ۔ ان سب واقعات میں عموماً نوجوان پیش پیش رہتے ہیں۔جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جانچ کے مطالبات، پولیس پرظلم و زیادتی، انتظامیہ پر جانبداری اور بدانتظامی کے الزامات اورجوابی الزامات تک پہنچ کر بات رہ جاتی ہے۔ سوال مسلمانوں کے حد سے بڑھی ہوئی حساسیت کا بھی اٹھتا ہے۔لیکن نوجوانوں میں تشدد کے اس رجحان کے اصل اسباب پر نظر عموماً نہیں جاتی۔

پر تشدد احتجاج کے ان واقعات میں ایک چیز جو مشترک نظرآرہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ تیزی ہر مسلک اورہر مکتب فکر کے نوجوانوں میں یکساںابھررہی ہے۔ مثلاً ردورپور اور ممبئی میں یہ نوجوان بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے،لکھن ¿و وغیرہ میں مظاہرے جمعیة علماءہند نے کرائے تھے اور مسوری کے علاقے میں ناخواندگی بہت ہے اور اکثر مسلمانو ں کی ذہنی ساخت تبلیغی جماعت کے سانچے میں ڈھلی ہے۔ تشدد پسندی کےلئے بدنام سیمی فکری اعتبارسے جماعت اسلامی کے قریب تھی۔ اور یہ بات سب جانتے ہیںکہ ان میں سے کوئی بھی جماعت یا مسلک تشدد پسندی کا ہرگز حامی نہیں۔ بعض بریلوی علماءکی تقاریر اور انداز فکر میں بیشک مسلکی شدت پسندی ہوتی ہے مگر تشدد پر اترآنے اورپولیس سے ٹکراجانے کی تلقین ہرگز کوئی نہیں کرتا۔ملت کی ساری جماعتیں تشدد کو روح اسلام کے خلاف تسلیم کرتی ہیں اسی لئے اس سے کوسوں دور ہیں ۔ اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ ملت کے نوجوانوں میں تشدد پسندی کا مزاج پنپ رہا ہے ؟

اقلیتی کمیشن کااشارہ
قومی اقلیتی کمیشن نے آسام کے حالیہ فساد پراپنی رپورٹ میں بالواسطہ طور سے اس سبب کی نشاندہی کردی ہے جس کی بدولت مسلم نوجوانوں میں شدّت پسندی پنپ رہی ہے۔ کمیشن نے خبر دار کیا ہے کہ اگر ظلم اور زیادتی کا دور ختم نہیں ہوااور دبے کچلے مسلمانوں کے ساتھ انصاف کا رویہ اختیار نہیں کیا گیا توبہت زیادہ اندیشہ ہے کہ سرکاری رویہ سے بد دل نوجوان تشدد پسندوں کے چنگل میں پھنس جائیں گے۔“ کمیشن کے چیرمین وجاہت حبیب اللہ ایک منجھے ہوئے سول افسر ہیں۔ کشمیر کے حالات سے ان کو گہری واقفیت ہے۔ ان کی اس بات کو ہلکے میں نہیںلیا جانا چاہئے کہ ظلم و زیادتی اور مسلسل ناانصافی مظلوم ومہقور کے مزاج میں درشتی پیدا کرتی ہے۔ نوجوان جذبات میں مغلوب ہوکر آسانی سے شدت پسندی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ یہ الزام تو بے بنیاد ہے کہ مسلم نوجوان دہشت گردی میں ملوّث ہوجاتے ہیں لیکن اگر ان کے مزاج میںدرشتی آرہی ہے تو اس کےلئے وہ خود ذمہ دار نہیں بلکہ ہماری قومی جمہوری حکومت کا وہ رویہ اصل سبب ہے جو اس نے آزادی کے بعد سے مسلم اقلیت کے تئیں اختیار کر رکھا ہے۔

ان کے اوپر ظلم کرنے والے مزے میںرہتے ہیں اور وہ آہ بھی کرتے ہیں غداری کے الزام میں دھر لئے جاتے ہیں۔اس کی مثال 1992اور اس کے بعد کے واقعات ہیں۔ بابری مسجد کو شہید کرنے والے اور اس کے بعد ملک بھر میں مسلم کش فساد برپاکرنے والے آزاد ہیں اور اس کے ردعمل میں رونما ہونے والے واقعات کے ملزموںکو دنیا بھر سے ڈھونڈڈھونڈ کر سزا دلوادی گئی ۔مسلم نوجوانوںکے اوپرسرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہیں، ریزرویشن کی پالیسی میں جانبداری نے ان کےلئے تعلیم کا حصول بھی مشکل کردیا ہے۔ آئے دن کے فسادات، دہشت گردی کے جھوٹے الزامات اور اعلا تعلیم یافتہ نوجوانوں کی مسلسل گرفتاریوں نے ان میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کردیا ہے۔ ان کو یقین نہیںآتاکہ وہ ایک سیکولر ملک کے باشندہ ہیں۔ سرکار کی جانبدارانہ روش نے قومی نظام کو عملاً اکثریتی فرقہ کی جاگیر بناکردرکھ دیا ہے۔ یوپی اے نے کچھ نیک ارادوں کا اظہار ضرور کیاتھاجس پر اقلیتی فرقہ نے اعتماد بھی کیا مگر اقلیتی وزارت کا سربراہی ملت کے ایسے سپوت کو تفویض کردی گئی جس کا ذہن تحفظات سے پر ہے اور اقلیتوں کی بہبود کا کوئی خانہ ہی اس میں نظر نہیں آتا۔ اعلان شدہ اسکیمیوں کا نفاذ ناقص ہے اور ان پر نگرانی کا نظام اس سے بھی زیادہ غیر اطمینان بخش ہے۔ ایسی صورت میں اگر مسلم نوجوان کو جلد غصہ آجاتا ہے اور عواقب کی پرواہ کئے بغیر وہ ویسے تشدد پر آمادہ ہوجاتا ہے جیسا ممبئی میں ہوا، مرادآباد میںہوا یا مسوری میں ہوا توانتظامی اقدامات اور گرفتاریاں اس کا علاج نہیں۔ اس کا علاج انصاف ہے۔ نہ ہوگا تو’مرتا کیا نہ کرتا‘ کی مثل جذبات یونہی بات بے بات مشتعل ہونگے ۔ ملک کے ایک بڑے طبقے میں سرکار کے تئیں ایسا رویہ کسی خیر کی علامت نہیں ہے۔ ظلم اور زیادتی کو اپنا شعار بناکر تو انگریز ہار گئے ، موجودہ دیسی حکمراں بھی ان کے نقش قدم پر چلیں گے تو دیر سویر اس کا انجام ملک کےلئے خوش آئند نہیںہوگا۔جہاں تک یوپی کی موجودہ سرکار کا معاملہ تو سید احمد بخاری صاحب کا یہ تبصرہ برحق ہے اس حکومت نے اتنا مایوس کیا ہے اب مسلمانوں سے یہ کہنے کا بھی منہ نہیں رہا کہ اگلے چناﺅ میں ووٹ ایس پی کو ہی دینا۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164151 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.