وہ صحابی جن کی گواہی دو گواہوں کے برابر مانی گئی٬

وہ صحابی جن کی گواہی دو گواہوں کے برابر مانی گئی٬ حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک اعرابی کے درمیان گھوڑے کی خریداری طے پائی اور آپ ﷺ نے اس اعرابی سے یہ گھوڑا خرید لیا ۔بات چیت کے بعد یہ اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل دیا تاکہ آپ ﷺ سے گھوڑے کی قیمت وصول کرلے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی چل رہے تھے اور اعرابی آہستہ آہستہ چل رہا تھا ۔ راستہ میں لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ آپ ﷺ نے اس اعرابی سے اس کا گھوڑا خرید لیا ہے ۔ چنانچہ لوگ اس گھوڑے کی قیمت لگانے لگے اور اعرابی سے گھوڑے کی خریداری کے سلسلے میں بات چیت شرو ع کردی ۔گھوڑے کی زیادہ قیمت لگنے پر اس اعرابی نے حضور ﷺ کو آواز دی اور کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھوڑے کو خریدنا چاہتے ہیں تو معاملہ طے کرلیں ، ورنہ میں اس گھوڑے کو فروخت کردوں گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم نے یہ گھوڑا مجھے فروخت کردیا ہے۔ اس اعرابی نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نے تو یہ گھوڑا آپ ﷺ کو فروخت نہیں کیا ۔ اور اس اعرابی نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپﷺ کے پاس کوئی گواہ ہے کہ میں نے یہ گھوڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فروخت کیا ہے۔

اس وقت جہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گزر رہے تھے وہاں پرموجود لوگوں میں حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ موجود تھے جب انھوں نے اعرابی کو یہ پکارتے سنا ۔ تو آپ ؓ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ گھوڑا آپ ﷺ نے تم سے خریداہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خزیمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم کس وجہ سے گواہی دے رہے ہو ؟جب ہمارے درمیان اس گھوڑے کی خریداری کا معاملہ طے پایا تم وہاں موجود نہیں تھے۔ حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں ، آپﷺ کی تصدیق کی وجہ سے جب میں آپﷺ کی بتائی ہو ئی، آسمانی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں ، آئندہ ہونے والے واقعات کی تصدیق کرتا ہوں تو کیا میں اس گھوڑے کی خرید اری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق نہیں کرسکتا “۔

حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے اس جواب پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے اور فرمایا اے خزیمہ ؓ آج سے تم دوگواہوں کے قائم مقام ہو(یعنی تمہاری گواہی دو گواہوں کے برابر ہے)، اورفرمایا” جس کے حق میں یا جس کے خلاف خزیمہ ؓ گواہی دے دیں ، ان کی تنہا گواہی ہی اس کے لئے کافی ہے “۔ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی کو گھوڑا واپس کردیاتھا ۔ دوسرے دن جب اعرابی صبح بیدار ہو ا تو اس کے گھوڑے کی موت واقع ہوچکی تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا سے پردہ فرماگئے تو قران مجید کا کوئی سرکاری نسخہ موجود نہیں تھا اور لوگوں کے پاس قران مجید کے دو نسخے موجود تھے جو انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھ کر یا دوسرے مسلمانوں کے قرانی نسخہ جات سے دیکھ کر خود لکھے تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں ایک طاقتور قبیلے کے سردار مسلیمہ کذاب نے مرتد ہوکر جب نبی ہونے کا اعلان کیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مرتدوں کے خلاف جنگ کی ۔ جو یمامہ کے مقام پر ہوئی اگرچہ اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی لیکن اس جنگ میں چھ ہزار مسلمان شہید ہوئے جن میں بہت سے حافظ قرآن تھے۔

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ قران کے تحفظ پر توجہ دیں۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو کام نبی کریم ﷺ نے نہیں کیا وہ میں کیسے کروں۔ آپ دونوں میں یہ بحث آگے بڑھی اور یہ طے پایا کہ اس سلسلے میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس چلتے ہیں ،آپؓ حافظ قران اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی ہیں وہ جو بھی فیصلہ دیں گے اس پر عمل کیا جائےگا۔

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سامنے جب یہ مقدمہ پیش ہوا تو ان کا بھی فوری یہ جواب تھا کہ جب یہ کام نبی کریم ﷺ نے نہیں کیا تو ہم کیسے کریں۔ تاہم مزید بحث کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر یہ کام کرلیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کوقران پاک کی تدوین کا کرنے کا حکم دیا اور آپکی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کی جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمیت کئی مدد گار بھی تھے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جانب سے مدینہ میں یہ اعلان کرادیا گیا کہ جس شخص کے پاس بھی قران مجید کا کوئی تحریری نسخہ جو رسول اللہ کے سامنے پڑھا ہوا یا تصحیح شدہ موجود ہو تو اس کمیٹی کے سامنے پیش کرے ۔ اس سلسلے میں جو معیارات مقرر کئے گئے تھے ان کے تحت اگر کوئی شخص نسخہ لاکر پیش کرتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے قسم دلواکر یہ تصدیق کرتے کہ یہ وہی نسخہ ہے جس کی تصحیح رسول اللہ ﷺ کے سامنے ہوئی ہے، جب نسخہ لانے والا قسم کھاتا تو اس نسخہ سے استفادہ کیا جاتا ۔ ایک اصول یہ بھی تھا کہ کم از کم دو تحریری نسخوں سے ایک آیت کی تصدیق ہونی چاہیئے۔

اس طرح جب پورا قران لکھا جاچکا تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے پورے قران کا مطالعہ کیا تو انھیں ایک آیت ایسی نظر آئی حافظ ہونے کی وجہ سے ان کے حافظے میں تو تھی لیکن تحریری نسخے میں موجود نہیں تھی۔چنانچہ آپؓ نے گھر گھر جاکر پوچھا کہ کسی کے پاس قران کریم کا کوئی مستند نسخہ تو نہیں ہے خاصی تلاش کے بعد حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک تحریری نسخہ ملا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا ہو ا تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہدایت تھی کہ بطور قران قبول کرنے کے کم از کم دو تحریری نسخے ملنے چاہئیں ۔یہ مسئلہ اس طرح حل ہوا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے اپنی ظاہری حیات طیبہ میں حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کو دو شہادتوں (گواہوں) کے برابر قرار دیا تھا یہ گویا قدرت کی طرف سے اپنے کلام کی حفاظت کا پیشگی انتظام تھا یو ں یہ آیت بھی اس قران پاک میں شامل کرلی گئی۔

اس وقت مدینہ میں موجود جید حفاظ نے اس نسخہ کو پڑھا اور سب اس بات پر متفق تھے کہ مکمل قران اسی ترتیب کے مطابق ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی۔ یوں قرآن مجید کا یہ پہلا سرکاری نسخہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں پوری احتیاط کے ساتھ مکمل ہوا۔

قران پاک پر اعراب لگانے کا کام سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوا۔ بعد میں حاکم بصرہ حجاج بن یوسف کو اس تمام تر سخت گیری کے باوجود اللہ نے یہ توفیق عطا فرمائی کہ اس نے اعراب لگاتے ہوئے قران مجید کے کئی نسخے تیار کروائے ۔ اس طرح زیر و زبر ، پیش ، تشدید اور جزم کے نشانات کی وجہ سے قران کو صحیح طور پر اور غلطی کے بغیر پڑھنا ان لوگوں کے لئے بھی ممکن ہوگیا ۔ جن کی مادری زبان عربی نہیںہے۔ (ماخوذ: ابوداﺅد۔نسائی۔ حیات الحیوان)
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 303749 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.