عدیل برکی سے عبد اللہ گل تک

کبھی کبھی ایک چھوٹی سی بات انسان کو مدتوں خوش رکھنے کا باعث بن جاتی ہے ۔کوئی ایک چھوٹا سا کام جسے انسان عمر بھر نہیں بھلا پاتا۔ اگر دیکھا جائے تو بظاہر یہ معمولی سا کام معمولی ہرگز نہیں ہوتا ۔ ایک ایسا کام جو بھلے آپ نے نہ کیا ہو لیکن اس پر آپ کو فخر محسوس ہو وہ معمولی نہیں ہو سکتا ۔ عظیم قومیں اپنی عادتوں سے پہچانی جاتی ہیں اور اب مجھے یوں لگنے لگا ہے جیسے ہم عظیم قوموں میں شمار ہونے جا رہے ہیں ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ایف سی کالج یونی ورسٹی میں اردو ادب کے حوالے سے قائم طلبہ سوسائٹی کا صدر تھا۔ سالانہ پروگرام میں شام غزل کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان بھر سے معروف گلوکار تشریف لائے انہی میں عدیل برکی بھی شامل تھے ۔مجھے یاد ہے کہ ان دنوں رفاقت علی خان اور عدیل برکی بھاری معاوضہ لینے والے فنکاروں میں شمار ہوتے تھے لیکن میرے بلانے پر تھوڑی سی مجھ سے دوستی او ر زیادہ تر نوجوانوں کی محبت میں وہ بلامعاوضہ تشریف لائے ۔ رفاقت علی خان نے اس پروگرام کے فورا ً بعد امریکا شو کرنے جانا تھا ۔اس لیے وہ اپنی پرفارمنس کے فورا بعد روانہ ہو گئے البتہ عدیل برکی کو آخر میں بلایا گیا ۔ عدیل برکی نے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بعد ایک ایسا کام کیا جو مجھے آج بھی یاد ہے اور سچ پوچھیں تو میرے دل میں اس شخص کی عزت و احترام بھی اسی وجہ سے زیادہ ہے ۔ ہوا کچھ یوں کہ تقریباً ایک گھنٹہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بعد عدیل برکی نے پورے ہال سے کھڑے ہونے کی درخواست کی اور قومی ترانہ پڑھنا شروع کر دیا ۔ سب نے ان کے ساتھ ساتھ قومی ترانہ پڑھا اور اس کے فورا بعد میں نے پروگرام کے اختتام کا اعلان کر دیا ۔ میں اس تاثر کو ختم نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ ایک عظیم فنکار نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ اس کے لیے پاکستان کا قومی ترانہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ بعد میں میں نے مختلف پروگراموں میں دیکھا کہ قومی ترانہ پڑھنا عدیل برکی کی عادت بن چکی ہے ۔ وہ جہاں بھی جاتا ہے سب کو کھڑا کروا کرپاکستان کا قومی ترانہ ضرور پڑھتا ہے۔ اس کے دل میں پاکستان کی محبت بستی ہے ۔ اس بار چھ ستمبر کے موقع پر میں نے جنرل حمید گل کے بیٹے عبداللہ گل کو بھی اسی روپ میں دیکھا ۔ انہوں نے ایوان اقبال میں محسنان پاکستان کی جانب سے منعقد کی گئی دفاع پاکستان کانفرنس دوران پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے سے پہلے عوام سے کھڑے ہونے کی درخواست کی تو میری آنکھیں بھیگ گئیں ۔ عین ممکن ہے مجھے عبد اللہ گل کے کچھ نظریات سے اتفاق نہ ہو ۔ حمید گل اور عبداللہ گل کی بعض باتیں ایسی ہیں جن سے مجھے شدید اختلاف ہے ۔ مجھے ان سے جن باتوں پر اختلاف ہے میں ان کے سامنے اس کا برملا اظہار بھی کرتا ہوں اور ان پر ہماری باقاعدہ بحث بھی ہو جاتی ہے لیکن مجھے ان کی جدوجہد اور پاکستان اور ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب سے محبت پرکبھی شک نہیں ہوا ۔ اس دن عبد اللہ گل نے جب پاکستان کا نعرہ لگانے سے قبل لوگوں سے کھڑے ہونے کی درخواست کی تو میں نے اسی تقریب میں عبد اللہ گل کو مبارک باد دیتے ہوئے اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ جب بھی پاکستان کا نام آئے آپ اسی طرح لوگوں سے کھڑا ہونے کی درخواست کیجئے گا ۔ پاکستان کا احترام اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنے وطن کا نام لینے سے قبل کھڑے ہو جائیں ۔ میں ان تمام لوگوں کا احترام کرتا ہوں جو میرے وطن کا احترام کرتے ہیں ۔ اب تو اکثر یوں ہوتا ہے کہ سینماگھر ، تھیٹر اور دیگر ایسے مقامات جہاں قومی ترانہ پڑھا جائے یا سنوایا جائے وہاں آدھے سے زیادہ لوگ یوں بیٹھے ہوتے ہیں جیسے یہ کسی اور ملک کا قومی ترانہ ہے ۔ چند منٹ اپنے وطن کے احترام میں کھڑا ہونے سے کسی کی شان میں کمی ہرگز نہیں آ جاتی لیکن اگر آپ اپنے وطن کے احترام میں کھڑے نہیں ہو سکتے تو پھر اپنے آپ کو زندہ قوموں میں شمار کرنا چھوڑ دیں۔ زندہ قومیں اپنے وطن کا احترام کرتی ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے فنکاروں میں صرف ایک عدیل برکی نہیں ہے اور میں یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ اگر ہمارے فنکار اپنے وطن کا احترام کرتے ہوئے عدیل برکی کی پیروی کریں تو یقینا ان کے قد کاٹھ میں اضافہ ہو گا اور عوام ان کے اس اقدام کا خیر مقدم کرے گی ۔ یاد رہے ہمارے جتنے بھی بڑے فنکار بام شہرت تک پہنچے ان کی شہرت اس وطن سے محبت کی بنا پر تھی۔ نو رجہاں نے لاتعداد گانے ریکارڈ کروائے لیکن اسے اصل شہرت 1965 کی جنگ میں محاذ پر جا کر جنگی ترانوں کی ریکارڈنگ سے ملی ۔ اسی طرح میں یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے لیڈر اگر عبد اللہ گل کی طرح پاکستان کا نام لیتے وقت اس وطن کے تقدس کا خیال رکھیں تو ان کے سیاسی قد کاٹھ میں یقینا پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہو گا ۔ میں اس وطن کے احترام کرنے پر اس لیے بھی زور دیتا ہوں کہ اس کی مٹی سے آج بھی شہیدوں کے لہو کی مہک آتی ہے ۔ اس کی فضاﺅں میں آج بھی ماﺅں بہنوں کی چیخیں گونج رہی ہیں ۔ یہ مہک اور یہ چیخیں صدیوں تک ان فضاﺅں میں موجود رہیں گی اور ہمیں ہر صورت ان کا احترام کرنا ہے۔ یہ لہو ہمارے بزرگوں کا ہے ۔ یہ چیخیں ہماری ماﺅں ، بہنوں کی ہیں ۔ یہ ان لوگوں کی نشانیاں ہیں جن میں سے اکثر کو کفن اور قبر تک نصیب نہ ہوئی ۔ ہم ان گمنام محسنوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے تو نہیں جا سکتے لیکن ان کی قربانیوں اور احسانوں کااعتراف کر سکتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں اس وطن کا احترام کرنا ہو گا ۔ عدیل برکی سے عبد اللہ گل تک ہر وہ شخص ہمارے لیے محترم ہے جو ہمارے وطن کا احترام کرتا ہے ۔میں ہر اس شخص کو سلام کرتا ہوں جسے اس بات کا پاس ہے کہجہاں جانا ہے وہاں پاکستان کا نام لینا ہے اور جب بھی پاکستان کا مقدس نام لینا ہے تو پہلے کھڑے ہونا ہے۔ ۔
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 49681 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.