بھارتی وزیر داخلہ، خارجہ سیکرٹریز کا دورہ پاکستان اور مسئلہ کشمیر

پاکستان میں اس وقت جہاں الیکشن کا وقت قریب تر آ ن پہنچا ہے،بلدیاتی الیکشن کے نام پراایک نئی سیاسی گیم کھیلی جارہی ہے وہاں پاکستان کی موجودہ حکومت بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی بارہا دے چکی لیکن من موہن سنگھ ہیں کہ ان کو اوپر سے اجازت ہی نہیں مل رہی کہ وہ خود پاکستان آسکیں لیکن ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اپنے وفد کو جن میں وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا،سیکرٹری خارجہ رانجن میتھائی،ہائی کمشنرشرت سبروال،راگھاوندرا شاستری ،وائی کے سنھا اور سید اکبرالدین شامل ہیں کو پاکستان بھیجا ہے، چھ سال کے بعد مشترکہ وزارتی کمشن کی بحالی پر قومی اور بین القوامی میڈیا کی نظریں اس وقت بھارتی وفدپر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں ،اپنے اس اہم دورہ کے دورے کے دوران اس وفد کی ملاقاتیں پاکستانی صدر آصف زرداری،وزیر اعظم راجہ پرویزاشرف،ایم کیو ایم سمیت حکومتی اتحاد کی پارٹی رہنماﺅں سمیت میاں نواز شریف اور دیگر اپوزشن جماعتوں کے رہنماﺅں سے ہوئی ہیں،بھارتی وزیر اعظم تو نا معلوم وجوہات کی بنا پر پاکستان آنے سے قاصر ہیں لیکن ان کے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کو پاکستانی حکومت نے جس طرح ہائی پروفائل پروٹوکول دیا وہ سمجھ سے بالاتر ہے،کیونکہ دونوں ملکوں کی عوام کی اکثریت دونوں ملکوںکے درمیان تصفیہ طلب معاملات جن میں کشمیر ،سیاچن ،پانی،ڈیمز،سرکریک ،کارگل اور دیگر سنجیدہ نوعیت کے تقاضوں کو ابھی بھول نہیں پائے ہیں ،خاص طور پر کشمیر کا معاملہ جس پر دونوں ملک جنگیں تک کر چکے ہیں کو سائیڈ لائن ہوتا ہوا کوئی نہیں دیکھ سکتا کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم ابھی اتنے کم نہیں ہوئے، گمنام قبروں کا معاملہ اتنے جلد کون بھول سکتا ہے ؟بھارت سے شکوے شکایات اتنے کم نہیںہوئے کہ ان سے آنکھیں پھیر لی جائیں لیکن موجودہ پاکستانی حکومت مستقبل میں ایک بار پھر اپنی پارٹی کی حکومت کو عوام سے منتخب کروانے کیلئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کر نے کی کوشش کر رہی ہے جس کا عوام کو فائدہ کم اور مستقبل میں نقصان زیادہ ہوتا صاف نظر آتا ہے ،گو کہ عوامی سہولیات کیلئے اس دورہ میں کچھ اہم کا م کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس کو احسن اقدام بھی قرار دیا جا رہا ہے ان کاموں میں دونوں ملکوں کے درمیان آٹھ مختلف اقسام کے ویزے جاری کرنے کا اعلان کیا گیا گیا ان ویزوں میں سفارتی ،غیر سفارتی،ٹرانزٹ ،سیاحت،تاجروں میڈیا ،سول سوسائیٹی کے عہدیداروں کیلئے ترجیحی بنیادوں پر ویزے جاری کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ،500پاکستانی شہریوں کے اجمیر شریف جبکہ بھارتی سکھوں کو اپنے مذہبی تہوار پاکستان میں منانے کیلئے آسان شرائط پر ویزے دیئے جائیں گے ،دونوں ملکوں کے درمیاں کرکٹ سریز کے دوران شائقین کو آسان شرائط پر جلد ویزا جاری کیا جائے گا ،قیدیوں کے تبادلے سمیت اجمل قصاب کو پھانسی دیئے جانے کے فیصلے،ڈیوڈ ہیڈلے اور زیب الدین انصار ی سے متعلق بھی بات کی گئی اور بھارت کی جانب سے سربجیت سنگھ کی رہائی سمیت لشکر طیبہ اور حافظ سعید کے خلاف کاروائی کا با ضابطہ مطالبہ پھر سے کیا گیا جبکہ حاظ سعید نے ایس ایم کرشنا کا وفد سمیت پاکستان کا دورہ کشمیر کاز کیلئے نقصان دہ قرار دیا ہے ،حافظ سعید کا موقف ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کے حل تک بھارت سے دوستی اور تجارت کا سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔ اس کے علاوہ بھارت نے پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے پر پھر سے شدید مذمت کی،دوسری جانب باوثوق ذرائع نے بھارتی وفد کے دورے کے دوران پاکستان کی طرف سے کشمیر کے سنجیدہ ترین مسئلہ سمیت پانی ،سیاچن اور دیگر تصفیہ طلب معاملات کے بارے میں واضح موقف نہ اپنا سکے ،بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کر شنا کی صدر آصف زرداری سے ملاقات میں پاکستانی وزیر داخلہ حنا ربانی کھر سمیت صدر زرداری کے قریبی ساتھیوں،دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریز،ہائی کمشنرز اور دیگر اہم لوگوں نے فوٹو سیشن میں حصہ لینے کیلئے شرکت کی ۔

دوسری جانب کشمیری قیادت جو علیحدگی کی خوائش مند ہے نے اپنے خدشات کا اظہار شدید الفاظ میں کیا ہے ،کشمیری قیادت نے پاکستان اور بھارت کے موجودہ تعلق کو تحریک کشمیر کو کمزور کرنے کی سازش بھی قرار دیا ہے ،اسی تناظر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یٰسین ملک نے کشمیری علیحدہ پسندوں کی ایک بڑی تعداد کےساتھ کشمیر کے تجارتی مرکز لال چوک میں احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے موقف اپنا کہ پاکستان اور بھارت کشمیریوں کے حوالے سے کیے جانے فیصلوں کو پریس ریلیز کی صورت میں کشمیریوں کو پہنچاتے ہیں جس پر کشمیری کبھی خاموش نہیں رہ سکتے ، بعد ازاں یٰسی ملک کو گرفار بھی کر لیا گیا۔دوسری جانب حریت کانفرنس (ع) کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پاکستان اور بھارت کے تجارتی معاملات پر اعتراض نہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا جا رہا جو قابل مذمت ہے ،حریت کانفرنس (گ) کے رہنماءسید علی گیلانی گزشتہ ایک ماہ سے نظر بند ہیں ۔دوسری جانب ہند نواز نے بھی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا کہا ہے ۔کشمیر کے دوسرے بڑے حصے آزاد کشمیر کی تمام تر قیادت بھارتی وفد کے اس دورہ پاکستان سے لاتعلق و بے کبر سی دکھائی دیتی ہے جو کشمیریون کیلئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔

ان سب حقائق کو اگر سنجیدگی اور غیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان چھ سال (ممبئی حملوں)کے بعدداخلہ اور خارجہ کی سطح پر مل بیٹھ کر معاملات کو حل کرنے کی طرف ایک اچھی کوشش تو کہا جا سکتا ہے لیکن اصل مسئلوں کی طرف پاکستانی حکام بات کرنے سے ابھی تک گریزاں ہیں یہ ایک قابل فکر بات ہے کیونکہ بھارت کی جب مرضی ہوتی ہے وہ اپنے مفادات کیلئے پاکستان کو استعمال کرتا ہے اور اس کو جب جس بھی میدان میں چاہے وہ کشمیر سے متعلق ہو یا جدید ٹیکنالوجی سے ،کھیلوں سے متعلق یا ڈیمز اور پانی کی بات ہو بھارت نے ہر اس موقع پر پاکستان کی مخالفت کی جہاں اس کا بس چلتا ہے یا اس کے مفادات ہوتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بھارت نے پڑوسی ملک سے مخلصی کامظاہرہ کیا ہو ،پاکستانی حکام کا یہ اعلان بار بار سننے میں آتا ہے کہ پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے اس سے کسی کا انکا ر ہو نہیں سکتا لیکن تعلق برابری کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں نہ کہ مفادات کی بنیاد پر۔مسئلہ کشمیر جو اس خطے کا سب سے سنجیدہ ترین مسئلہ ہے سے آنکھیں پھیرنا پاکستان اور بھارت میں سے کسی کے مفاد میں نہیں ،دوسری جانب بھارت سے کشمیر کے ذریعے پاکستان کی طرف آنے والے دریاﺅں کے اوپر بھارت کی جانب سے جو ڈیمز بنائے گئے ہیں اور مزید ڈیمز بنا کر پاکستان کو بنجر کرنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے وہ کسی بھی طور بھارت کیلئے معافی کے قابل نہیں ،پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کو اس اہم معاملہ نزاکت اور سنجیدگی کا احساس کرتے ہوئے اپنے مفادات ایک طرف رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔دوسری جانب دونوں طرف کے کشمیری رہنماﺅں کو جن کوکشمیر کے نام پرفنڈز ہڑپنے کے بجائے یکجہتی کرتے ہوئے مخلصانہ طور ہر مسئلہ کشمیر کیلئے آگے برھنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ معاملہ دن بدن ٹھنڈا ہی پڑتا جائے گا ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 60011 views Columnist/Writer.. View More