خوشگوار زندگی کا راز....

خوشی کا تو ہم میں سے ہر ایک طلبگار ہے لیکن بہت کم ہیں جو اس کی قیمت ادا کرنے پر تیار ہوتے ہیں۔ ہر شے کی ایک قیمت ہے، جب تک وہ ادا نہ کی جائے وہ حاصل نہیں ہوتی۔کسی نے بہت خوب کہا کہ جب تک اپنے بیل کو چارہ نہ ڈالا جائے وہ بھی کام پر آمادہ نہیں ہوتا۔خوشی تو ایسی شے ہے جس کی کوئی قیمت ہی نہیں، اگر ہم اپنے مزاج میں معمولی تبدیلی رونما کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو زندگی کو خوشیوں سے بھر سکتے ہیں۔ آج کے کالم میں خوشگوار گھریلو زندگی پر بات کرتے ہیں۔جس انسان کو اپنے گھر میں خوشی اور سکون میسر آجائے وہ عملی زندگی بھی بہت خوشگوار انداز میں گزارنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس کی استعداد کار بڑھ جاتی ہے، اس کا مزاج بہتر ہوجاتا ہے، اس کے دوستوں اور کاروباری احباب سے تعلقات مثالی ہونے کی وجہ سے وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ وہ اپنی اور اپنی فیملی کے لیے بہتر سے بہتر منصوبہ بندی کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

مصروف سے مصروف انسان بھی اوسطا آٹھ، دس گھنٹے اپنے گھر میں گزارتا ہے۔اگر وہ اپنے گھر سے خوشی، خوشی روانہ ہو تو اس کا پورا دن اچھا گزرتا ہے ورنہ دن بھر وہ لوگوں سے معاملات میں خوار ہی ہوتا ہے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ اپنی گھریلوزندگی کو خوشگوار بنانے پر توجہ دی جائے۔ آئےے چند منٹوں میں اپنی گھریلو زندگی خوشگوار بنانے کے بارے غور وفکر کرتے ہیں۔اس سلسلے میں چند ایک تجاویز ہیں، آپ انہیں مزید بہتر بناسکتے ہیں۔ آپ میں سے اگر کوئی ان تجاویز پر عمل کرکے اپنی زندگی میں بہتر نتائج محسوس کرے تواس پر قرض ہے کہ اپنے تجربات ہمارے قارئین سے ساتھ شئیر کرے۔

اگلے جھگڑے سے بچیں: جھگڑا کس گھر میں نہیں ہوتا، اسے خانگی زندگی کا حُسن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اکثر معمولی جھگڑوں کے اختتام پر باہمی پیارو محبت میں اضافہ ہوتاہے۔اس کا پہلا کامیاب طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ کی بیوی یا خاوند جھگڑنے پر آجائے تو آپ اپنے اعصاب قابو میں رکھیں اور جھگڑے کی صورت میں اگر ناراضگی ہو جائے تو اسے طول نہ دیں بلکہ سورج غروب ہونے سے پہلے صلاح صفائی کرلیں۔ جھگڑا ختم کرنے اور صلاح صفائی کرنے کا کارگر ترین طریقہ معذرت کا ہے، بھلے آپ غلطی پر نہ بھی ہوں۔

عمدہ کارکردگی کی توقع نہ رکھیں: شادی دو ناقص انسانوں کے باہم ملنے سے ہوتی ہے، دنیا میں کوئی بھی انسان کامل اور مکمل نہیں ہوتا۔ ہرایک میں کوئی نہ کوئی کمی کوتاہی موجود ہوتی ہے۔ میاں بیوی دونوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم بھی کامل اور مثالی انسان نہیں ہیں۔ ہم سے غلطیوں اور کوتاہیوں کا سرزد ہونا فطری عمل ہے۔ اس لیے فریقین کو ایک دوسرے سے مثالی اور عمدہ کارکردگی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ جو جیسا ہے اسے ویسے ہی تسلیم و قبول کرنا چاہیے۔ تاہم باہمی اشتراک سے خود کو مسلسل بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سننے کی عادت ڈالیے: بولنے کے بجائے سننے کی عادت ڈالیے، جو انسان سننے کی ہمت پیدا کرلیتا ہے وہ بہت سے مسائل سے بچ جاتا ہے۔ خواتین کو باالخصوص سننے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ کانوں سے سننے کے بجاے دماغ سے سننے کی کوشش کریں اور اگر ممکن ہوتو دل سے سننے کی عادت بنائیں۔ جب دل سے سننا شروع کردیں گے تو دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور لڑائی جھگڑے کی کبھی نوبت نہیں آئے گی۔ اگر بولنا ناگزیر ہو تو خوب سوچ،سمجھ اور تول کر بولیے۔ جو الفاظ آپ نے ابھی استعمال نہیں کیے آپ ان کے حاکم ہوتے ہیں جبکہ جو الفاظ آپ بول چکتے ہیں ان کے غلام بن جاتے ہیں، ان کی وضاحتیں اور معنی بیان کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔

معاف کرنے کی عادت ڈالیے:اپنے ہمسفر اور بچوں کی غلطیوں پر انہیں معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کی عادت ڈالیے۔ غلطی انسان کی سرشت میں ڈالی گئی ہے۔ انسان روز غلطی کرتا ہے۔ ان غلطیوں اور کوتاہیوں کی فہرست بنانے کے بجائے انہیں نظرانداز کرنے اور معاف کرنے کی عادت ڈال دیں اور معافی بھی فوری اور غیر مشروط ہو نی چاہیے۔ جولوگ معاف نہیں کرسکتے وہ ساری زندگی چھوٹے چھوٹے معاملات میں الجھے رہتے ہیں اور اندر ہی اندر کڑہتے جاتے ہیں۔ یوں انسان بلا وجہ ماضی میں پھنس کر اپنی زندگی کو اجیرن بنا لیتا ہے۔

نرمی اختیار کریں: نرمی انسان کو ہر ایک کی نظر میں عظیم سے عظیم تر بنا دیتی ہے۔ یہ بظاہر کمزوری اور عملا طاقت کا مظہر ہوتی ہے۔ ایک بہادر انسان ہی نرمی اختیار کرسکتا ہے۔ کمزور انسان ہمیشہ سختی کا مظاہرہ کرتا ہے کیونکہ کمزور انسان کے اعصاب نرمی پر آمادہ ہی نہیں ہوتے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو عزت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اس سے انسانوں کے درمیان دوریاں جنم لیتی ہیں اور علیحدگیا ں وجود میں آتی ہیں۔

دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنا سیکھیے: گھر میں چھوٹے چھوٹے کاموں پر حوصلہ افزائی کیجیے۔ بیوی نے اچھا کھا نا بنایا ہو، بچے سے سکول کا کام بروقت مکمل کرلیا ہو، برتن سلیقے سے رکھے ہوں، گھر میں اچھی صفائی کی گئی ہو۔ پودوں کو بروقت پانی دیا گیا ہو۔ اس طرح کے معمولی کاموں پر افراد خانہ کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرنا اپنا معمول بنائےے۔ روزانہ کوئی ایسا کام تلاش کیجیے جس پر آپ اہل خانہ کو مبارک باد دے سکیں۔ حوصلہ افزائی سے کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اہل خانہ دلچسپی اور محبت سے کام کرتے ہیں۔ اس طرح گھر میں ایک خوشگوار ماحول جنم لیتا ہے۔

بحث مت کریں: جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتو بحث و تمحیص سے پرہیز کریں۔ دلائل سے جنگ تو جیتی جا سکتی ہے دل نہیں۔ اس لیے ہر ممکن طور پر بحث سے بچیں اور اپنا نکتہ نظر احسن انداز میں پیش کرکے خاموشی اختیار کرلیں۔ حالات بہتر ہوتے ہی آپ کی رائے خود بخود ہی مقدم قرار پائے گی ، اگر اس میں کچھ وزن ہے بصورت دیگر آپ کی قیمتی ترین رائے بھی دلائل کے ٹکراو ¿ میں تحلیل ہو جائے گی اور باہمی تعلقات میں بھی خلیج پیدا ہوگی۔

مسکرانا سیکھیے۔ بوجھل اور ناخوشگواری کے بجائے اکثر مسکرانے کی کوشش کریں۔ مسکراہٹ خوشگوار زندگی اور دوسروں کے لیے قابل قبول بننے کی سب سے موثر نسخہ ہے۔اگر آپ دوسروں سے مسکراہٹ کے ساتھ نہیں ملیں گے تو وہ آپ پر ہنسیں گے۔ اس لیے آپ کے لیے لازم ہے کہ ہمیشہ مسکراتے رہیں اور کسی کو اپنے اوپر مسکرانے کی اجازت نہ دیں۔ یہی معاملہ گھریلوزندگی کا بھی ہے۔ آپ مسکراہٹ سے دوسروں کا استقبال کریں گے تو ہر ایک اس کا مثبت جواب دے گا۔

معاون اور مددگار بننے کی کوشش کریں۔ ہمیشہ دوسروں کے لیے معاون اور مددگار بننے کی کوشش کریں۔ اس بات کا انتظار نہ کریں کہ کوئی آپ سے مدد کی درخواست کریں۔ آپ کا یہ رویہ ہمیشہ کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔ آپ کی عزت و توقیر میں بھی اضافہ ہوگا اور ہر وقت دوسرے آپ کے معاون اور مددگار بنے رہیں گے۔

گھر میں اللہ کو یاد کیجیے۔ اللہ کو تو ہر انسان یاد رکھتا ہے۔ یہ فریضہ بھی ہے اور مجبوری بھی ۔ جب گھروں سے اللہ کی یاد اٹھ جاتی ہے، وہاں سے خیروبرکت بھی روٹھ جاتی ہے۔ یہ خوشگوار زندگی کا اہم ترین اصول ہے۔ لازم ہے کہ سب گھروالے ایک مخصوص وقت میں جمع ہوکر اپنے رب سے دعائیں کریں، مناجات مانگیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ جو خاندان مشترک اللہ کو یاد کرتے ہیں وہ ہمیشہ خوش و خرم بھی رہتے ہیں اور تادیر اکٹھے رہتے ہیں۔

خوشگوار گھریلو زندگی کے لیے یہ چند ایک ٹپس ہیں۔یہ مشکل بھی نہیں بلکہ اپنے مزاج میں معمولی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ آج انسانوں کی اکثریت گھریلو پریشانیوں کا شکار ہے۔ذرا غور کیجیے کہ کتنی معمولی کوشش سے ہم پورے گھر کو پیاراور محبت کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ انہی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی نفی کرکے ہم نے اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے بدامنی اور بے سکونی کا مرکز بنا رکھا ہے۔جس کی وجہ سے مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بچے بتدریج باغی اور خودسر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے اندر تبدیلی لانے کا عزم کرنا ہوگا۔یہ کام کل نہیں بلکہ آج اور ابھی ہی ہوسکے گا۔ اگر کل پر چھوڑا تو پھر ہمارے گھر میں کبھی تبدیلی نہیں آسکتی۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105465 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More