چند روز باغ میں.... (قسط دوئم)

باغ کئی حوالوں سے منفرد خطہ ہے۔ یہاں کا قدرتی حسن و جمال، جغرافیائی محل وقوع، انسانی وسائل اور زرعی صلاحیت پہلی قسط میں بیان کر دی گئیں تھیں۔ سیاحتی نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو پورا باغ ہی سیاحتی مقام ہے تاہم دھیرکوٹ، ملوٹ، سدھن گلی، گنگا چوٹی اور شیرو ڈھارہ اہم ترین سیاحتی مراکز ہیں۔ اگر ڈھلی سے محمود گلی اور تولی پیر کو پختہ سٹرک سے ملا دیا جائے تو باغ شہر کے چارو ں اطراف میں دنیا کے حسین ترین سیاحتی مراکز بن سکتے ہیں۔ گنگا چوٹی کو اگر زمینی راستے سے ملانا مشکل ہوتو کیبل کار بہت کم لاگت سے یہ ضرورت پوری کر سکتی ہے۔ دھیرکوٹ میں ضرورت سے زیادہ ریسٹ ہاوسز تعمیر کیے گئے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم قابل استعمال ہیں۔ سدھن گلی ریسٹ ہاوس تو مقبوضہ علاقہ ہے، جہاں کوئی سیاح قدم نہیں رکھ سکتا ۔ اگر حکومت سہولتیں دیں تو مقامی لوگ نجی ریسٹ ہاوسز تعمیر کرکے یہ ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ قدرتی مناظر کو تھوڑی سے منصوبہ بندی سے جدید ترین سفاری پارک میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔سڑکوں کی تعمیر اور رہائشی سہولتیں فراہم کرنے اور کچھ مارکیٹنگ کرنے سے ہم ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو متوجہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں مرکزی اور ضلعی سطح پر وزارت سیاحت کے دفاتر موجود ہیں لیکن ان کی کارکردگی کچھ بھی نہیں۔ یہ محکمہ بھی صرف تنخواہیں لینے اور بجٹ خرچ کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتا۔ سیاحوں کی آمد سے کاروباری سرگرمیاں جنم لیں گی اور مقامی سطح پر روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جن نعمتوں سے نواز رکھا ہے ، ہم پوری فراخ دلی سے ان کی بے قدری کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں مجموعی طور پر امن و امان کی صورت حال مناسب ہے۔ سیاحت کے فروغ کے لیے پولیس اہل کاروں کو بنیادی اخلاقی تربیت کرنے کی ضرورت ہے اور ٹرانسپورٹرز کو حدود میں رکھنا پڑے گا۔ اس شعبے میں بہت کم لاگت سے بہت زیادہ منافع حاصل کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ کون ہے جو اس پر توجہ دے گا........

زلزلے کے بعد مشرف دور حکومت میں ایرا نے علاقے کی تعمیر نو کے لیے قابل قدر منصوبے بنائے تھے۔ پی پی پی کی مرکزی حکومت نے ایرا کے فنڈز کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور کچھ دیگر شعبوں میں منقسم کرکے تعمیر نو کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے۔ جو کام ہو چکے ہیں، ان کی ادائیگیاں رکی ہوئی ہیں۔ مزید ترقیاتی منصوبے کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں۔ پی پی پی نے زلزلہ زدگان کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر تعمیرنو کی منزل کھوٹی کر دی ہے ورنہ یہ امکان موجود تھا کہ ذرائع نقل و حمل کی بہتری سے خطے میں آمد ورفت بہتر ہو جائے گی۔ ایرا کے منصوبے میں سیاحتی مراکز کی تعمیر بھی شامل تھی لیکن عوامی حکومت نے عوام بہبود کے سارے کام ٹھپ کروا دئےے ہیں....ہاں بی بی زندہ ہے۔

باغ میں ایک اہم مسئلہ سفری سہولتوں کی کمی کا بھی ہے۔ لوکل روٹس پر چلنے والی گاڑیوں کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔ ان میں سے 80 فیصد سڑک پر لانے کے قابل نہیں لیکن مقامی انتظامیہ اور پولیس کی ملی بھگت سے یہ نیم مردہ گاڑیاں(سوزوکیاں، جیپیں،کاریں اور ویگنیں) بطور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال ہو رہی ہیں اور روز افزوں حادثات سے دوچار ہو کر انسانوں کے قتل کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ اگر کہیں قانون موجود ہوتا تو ان بوسیدہ گاڑیوں کے حادثات میں جان بحق ہونے والوں کی ایف آئی آر انتظامی افسران اور ٹریفک پولیس کے خلاف درج کی جاتیں جن کی بھتہ خوری سے یہ ناقابل استعمال گاڑیاں انسانوں کی ہلاکت کا باعث بن رہی ہیں۔ دوسرا مسئلہ لوکل روٹس پر چلنے والی گاڑیوں کے کرائے کا ہے۔ پاکستان بھر میں سب سے زیادہ کرائے باغ میں ہی وصول کیے جاتے ہیں حالانکہ پبلک روٹس پر چلنے والی ۰۸ فیصد گاڑیاں چوری اور نان کسٹم پیڈ ہیں۔ یہ بھی انتظامیہ اور پولیس کی سرپرستی میں ہی چل رہی ہیں۔ انتظامیہ کاوجود عوام کی خدمت کے لیے عمل میں آتا ہے جبکہ یہ عوام کو لوٹنے اور ان کی زندگیوں سے کھیلنے جیسے جرائم میں شریک ہیں۔ٹریفک پولیس اور ناکوں پر مامور پولیس اہل کار سرعام رشوت خوری میں ملوث ہوتے ہیں لیکن اعلیٰ افسران کی خاموشی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اس پیداواری عمل میں ان کی بھی حصہ داری ہے۔

اسی طرح لوکل سٹرکوں کی مرمت کا کوئی نظام موجود نہیں۔ جہاں کہیں کچی سٹرکیں بنائی گئیں ہیں ، وہاں بھی بغیر اجازت جیپ سروس شروع کی گئی ہے۔ ان دو وجوہات کی بناءپر بھی حادثات کی شرح دن بدن بڑھ رہی ہے اور انسان موت کے منہ میں دھکیلے جا رہے ہیں۔ ہر روٹ پر سٹرکوں کی مرمت کے لیے کلی اور میٹ بھرتی کیے گئے ہیں لیکن یہ لوگ سال میں ایک دن بھی کام نہیں کرتے۔ ان سب لوگوں کی تقرریاں سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔ ان میں سے بااثر لوگ تو گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لیتے ہیں اور لاوارث لوگ سیاسی لوگوںاور افسران کے گھروں میں کام کرتے ہیں۔ سٹرکوں پر کام کرنے والا کوئی فرد دیکھنے اور ڈھونڈنے کو نہیں ملتا۔ یوں دیکھ بھال کے نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہورہی ہیں۔ برسات کے موسم میں تو ان کی حالت قابل دید ہوتی ہے۔ ان سڑکوں کی مرمت اور توسیع کا بجٹ بھی سیاسی لوگوں کے جیب بھرنے اور افسران کے ناز نخرے پورے کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ عوام یہ سب کچھ دیکھتے اور کڑہتے ہیں۔ آئے روز حادثات کا شکار ہونے والوں کے لاشے اٹھاتے اور دفن کرتے ہیں لیکن اس کے سدباب کے لیے سوچنے پر کوئی تیار نہیں۔ بدقسمتی سے اس پر صدائے احتجاج بلند کرنے کا رواج بھی ختم ہو چکا ہے۔

(جاری ہے) ....
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105480 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More