چند روز باغ میں....

ہمارے ہاں یہ بہت اچھی روائت ہے کہ عید اکثر لوگ اپنے آبائی علاقوں میں گزارتے ہیں۔ والدین، رشتہ داروں اور پرانے دوستوں سے بھی تجدید ملاقات ہو جاتی ہے۔ پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور کچھ دن اپنے مخصوص کلچر میں گزارنے کا موقع ملتا ہے۔ اہل باغ روائت پسند ، وضع دار، مہمان نواز اور محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ قبیلائی تفریق ، سیاسی کشیدگی اور فرقہ وارانہ عصبیت جیسے موذی امراض کے باوجود عوام میں پرانا خلوص ابھی باقی ہے۔سیاسی اور مذہبی پروہت اپنے مخصوص مفادات کے لیے مخلوق خدا کو قبیلائی اور مذہبی نفرتوں کے اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاست کی بنیاد نظریات نہیں بلکہ مفادات اور برادریاں ہیں۔صدیوں سے مل جل کر رہنے ، باہم محبت اور اخوت کا معاملہ کرنے والوں کے درمیان فرقہ واریت اور سیاسی وابستگی کی نفرت آمیز دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ یہ زہر ابھی سیاسی اور مذہبی کارکنان تک محددود ہے اور بتدریج عوام میں بھی سرایت کر رہا ہے۔علاقے کی مضبوط معاشرتی اقدار اس راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ جس منصوبہ بندی سے اس معاشرے کو تباہ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں خطرہ ہے کہ یہ معاشرہ جلد کراچی جیسے حالات سے دوچار ہو جائے گا۔

باغ قدرتی حسن سے مالا مال ہے اور ساون کی رُت نے اس کے حُسن و جمال کو دو چند کر رکھا ہے۔ شہروں میں رہنے والوں کے لیے یہ حُسن اتنا پرکشش ہے کہ واپسجانے کا جی نہیں کرتا۔ یہ خطہ جس قدر خوبصورت اور پر کشش ہے، وہاں کے بسنے والے لوگ بھی حسین، جمیل، انسان دوست اور ہمدرد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ یہاں کے باشندوں کو بھی اعلیٰ ترین صلاحیتوں سے نوازا ہے۔بدقسمتی سے ہم نے علاقائی حسن و جمال کو جس طرح نظر انداز کر رکھا اُسی طرح انسانی ذہانت اور صلاحیتوں کو بھی سنوارنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ باغ جیسے قدرتی مناظر اور موسم جن علاقوں کو میسر ہیں وہ سیاحت سے اربوں روپے کما رہے ہیں لیکن ہم بتدریج معاشی پستی سے دوچار ہیں۔باغ کے جن باشندوں کو موقعہ ملا انہوں نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے لیکن اس با صلاحیت قوم کو جہالت اور نفرت کی بھینٹ چڑھا یا جا رہا ہے۔سرکاری ادارے تعلیم دینے کے بجائے اقربہ پروری اور کارکن نوازی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے سرکاری تعلیمی ادارے تباہی سے دوچار ہیں۔ایرا کی مہربانی سے سکولوں اور کالجوں کی عالیشان عمارتیں تو تیار ہو چکی ہیں لیکن علم ناپید ہے۔ بااثر اساتذہ سیاست میں اور بے اثر اساتذہ اپنے تبادلوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ جن کی شنوائی ہے وہ گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں، جن کا کوئی والی وارث نہیں وہ دور، دراز علاقوں میں دھکے کھاتے ہیں۔ اس بے چینی کی وجہ سے وہ پڑھانے کے بجائے ناانصافی پر ماتم کناں رہتے ہیں۔جومردان خدا مست سارے ستم جھیلنے کے باوجود بچوں کو علم سے منور کرنا چاہتے ہیں، انہیں کوئی کام نہیں کرنے دیتا۔ اس طرح پڑھنے، پڑھانے کا رواج زوال پذیر ہے۔ تعلیمی اداروں میں پڑھائی کا رواج نہیں رہا اور جو کوئی اس کے باوجود کچھ پڑھ لکھ لے اسے ملازمت نہیں ملتی۔ ایم اے اور ایم ایڈ نوجوانوں کو برادری اور سیاسی بنیادوں پر نظرانداز کرکے میٹرک اور مڈل پاس کو ملازمتیں عطا کی جاتی ہیں۔ ایسے میں کون پاگل اپنے بچوں کی پڑھائی پر پیسے خرچ کرے گا اور کس کے دل میں علم حاصل کرنے کا شوق پروآن چڑھے گا۔اس سے نفرتیں بھی جنم لیتی ہیں اور حصول علم کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔ اگرریڈ فاونڈیشن اور ایسے چند دیگر تعلیمی نیٹ ورک موجود نہ ہوتے تو ہماری قوم جہالت کے اندھیروں میں ڈوب چکی ہوتی۔ غیرسرکاری تعلیمی اداروں نے قوم کو حوصلہ دیا ہے، ان کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔

ہمارے ہاں میٹرک کے بعد تعلیم کا رجحان بہت کم ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت نوجوانوں کو فنی تربیت دے کر اندرون ملک اور بیرون ملک روزگار کے قابل بناتی۔ حکومت نے فنی تعلیم کے ادارے قائم کر رکھے ہیں لیکن ان کی کارکردگی دیگر سرکاری اداروں کی طرح مایوس کن ہے۔یہ کمی ........ نامی این جی او نے بہت حد تک پوری کی ہے اور اس کے علاوہ چند ایک پرائیوٹ ادارے بھی فنی تعلیم دے رہے ہیں۔ پرائیوٹ اداروں کے پاس بھی ماہرین کی کمی ہے اور وہ کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکتے۔ایسے میں نوجوان غیر صحت مند سرگرمیوںکا شکار ہوکر معاشرے کے لیے ناسور ثابت ہو رہے ہیں۔کیبل اور موبائل فون نے نوجوانوں کے اخلاق تباہ کردئےے ہیں۔ بچوں اور بچیوں کے پاس جس قدر موبائل ہیں وہ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے میں بھی ناپید ہیں۔ میں حیران ہوں کہ لوگ کس طرح اتنے موبائل فونوں کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔نوعمر بچے اور بچیاں موبائل فون کے مرض میں مبتلا ہو کر جس راہ پر چل پڑے ہیں، اس کے لیے زلزلے کے بعد بچیوں کے اغواءاور کورٹ میرج کے واقعات سے اندازا لگایا جا سکتا ہے۔اس کے باوجود کہیں بھی نوجوان بچے اور بچیوں میں موبائل کے استعمال کی حوصلہ شکنی نظر نہیں آتی۔یہ سلسلہ جاری رہا تو انجام بد سے شائید ہی کوئی محفوظ رہے۔ میں نے ایک ہفتہ قیام کے دوران جو کچھ دیکھا ہے وہ مجھے پاکستان کے بڑے شہروں میں دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا۔ میں جہاں بچوں کی ذہانت سے بہت متاثر ہوا ہوں وہاں اس کے منفی استعمال سے خوفزدہ بھی ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے باغ کو جس طرح قدرتی حُسن سے نوازا ہے ، اسی طرح اس مٹی میں سونا اگلنے کی صلاحیت بھی رکھی ہے۔ اس موسم میں وہاں خود رو اور کاشت کردہ فروٹ سے اٹے ہوئے پودوں کو دیکھ کر انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔ خطے کی اس خداد داد صلاحیت کو بھی ہم نے بری طرح نظر انداز کیا ہے۔ اس خطے کے کھیتوں کے علاوہ ندی، نالوں اور جنگلات کو بھی باغات میں تبدیل کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ مثلا اخروٹ، سیب، خوبانی، ناشپاتی، آلوبخارہ،آڑوں، انجیر، انار، جاپانی املوک اور اس طرح کے دیگر پھل جن کو ایک بار کاشت کرنے کے علاوہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود اس پر کسی کی توجہ نہیں۔ ہمارے ہاں محکمہ زراعت کے بڑے، بڑے دفاتر، لینڈ کروزر گاڑیاں اور بھاری سٹاف محض سرکاری وسائل اجاڑنے میں مصروف ہے۔ اگر سرکاری طور پر معمولی آگاہی دی جائے تو یہ خطہ راولپنڈی فروٹ منڈی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ سرکاری افسران میں ذرا بھی فرض شناسی موجود ہوتی تو لاکھوں ٹن فروٹ دیہاتوں میں ضائع نہ ہوتا۔ جب غیر استعمال شدہ اراضی پر باغات لگا کر لاکھوں کمانے کا رواج ہوجاتا تو نہ کوئی بیروزگار رہتا اور نہ ہی سونا اگلنے والی زمینیں بے کار پڑی رہتیں۔ حکمران اگر لوٹ مار کے علاوہ بھی کچھ سوچنے ، سمجھنے لگیں تو اپنے پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے پیٹ بھی بھرے جاسکتے ہیں۔ فروٹ کے علاوہ ہمارے ہاں ڈھاکوں ، کسیوں اور جنگلات میں قیمتی جڑی بوٹیوں کی بھرمار ہے۔ باغ میں پائے جانے والے ہر خود رو پودے کے پتے ، جڑیں، پھول اور پھل بہت ہی قیمتی داموں راولپنڈی کی پنسار مارکیٹ میں فروخت کی جاسکتی ہیں۔ ہمارے سرکاری افسران حرام خوری چھوڑ دیں تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ انگریزدور میں ہی ہمارے ہاں پائی جانے والی تمام جڑی بوٹیوں کی اقسام کا سروے کرکے ریکارڈ مرتب کردیا گیا تھا۔ جو با آسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو محکمہ زراعت اور جنگلات کا کام ہے کہ وہ شہریوں کو ان زمین سے اگنے والے سونے کی نشاندہی کریں اور اسے محفوظ کرنے اور مارکیٹ تک پہچانے میں راہنمائی کرتے رہیں۔ علاقے کے اس پوٹینشنل (صلاحیت) کو جاننا اور عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی دیر ہے، خطے کی ساری پسماندگی چند ہی سالوں میں ختم ہو سکتی ہے۔
(جاری ہے........)
 
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105488 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More