فر د قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

رائٹر انور مقصود لکھتے ہیں سنا ہے جنگلو ں کا بھی کو ئی دستو ر ہو تا ہے سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جا ئے تو وہ حملہ نہیں کر تا سنا ہے ہوا کے تیز جھونکو ں میں مینا اپنے گھر کو بھول کے کو ے کے انڈوں کو پیر وں میں تھام لیتی ہے سنا ہے گھو نسلے سے جب کوئی بچہ گرے تو سارا جنگل جاگ جا تا ہے سنا ہے سیلا ب آجا ئے تو لکڑی کے تختے پر سانپ ، چیتا اور بکری ایک ساتھ ہو تے ہیں منصفو میرے ملک میں بھی اب جنگلو ں کا ہی کوئی دستور لے آﺅ ۔انتہا ئی کر بناک اور شرمناک صورتحال ہما رے ملک میں دکھا ئی دے رہی ہے ۔ اسلامی جمہو ریہ پا کستان کی و حدت کو پا رہ پا رہ کر نے کی کو شش کی جا رہی ہے جس میں اپنے اور پرا ئے سبھی ملو ث دکھا ئی دیتے ہیں جب کو ئی ملک اندرونی سطح پر کمزوری ، افرا تفری اور بد نظمی کا شکا ر ہو تو بیرو نی دشمن با آسا نی اس کو نقصا ن پہنچا نے اور اس کی بقا ءو سا لمیت پر وار کر نے میں کامیاب ہو جا تے ہیں کچھ ایسی ہی صورتحا ل اس وطن عزیز میں پیدا کی جا رہی ہے اندرونی سطح پر ایسی بد سلوکیا ں اور نفرتیں پر وان چڑھا ئی جا رہی ہیں کہ با ہر والو ں کو ذرا سی بھی محنت اور تردد کی ضرورت نہیں محسوس ہو گی اور وہ با آسا نی اپنے ناپاک عزائم کو عملی جا مہ پہنا نے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم لفظ پا کستان پر تو جہ کر یں اور اس کے تقا ضے پو رے کر نے کی کو شش کریں ، کیو نکہ یہ ایسا ملک نہیں ہے جو نسل کی بنیا د پر لیا گیا ہو ، جو رنگ کی وجہ سے لیا گیا ہو یا جغرافیے کی وجہ سے ہو یہ ایسا نہیں کہ مشرق والو ں کا ملک ہے یامغرب والوں کا یا شمال والوں کا یا جنو ب والوں کا یا کا لے رنگ والو ں کا یا گو رے رنگ والو ں کا یا کسی خا ص زبان والوں کا یا کسی پنجابی کا کسی بلو چی کا کسی سندھی کا کسی پشتون کا نہیں نہیں یہ تو کلمے والو ں کا ملک ہے ۔ گلدستہ ہے تمام قوموں ، تمام قبیلو ں ، تمام گروہو ں ، تمام طبقوں ، تمام نسلو ں ، تمام برادریوں ، تمام رنگو ں اور تمام اہل ایمان کا ۔ جو نظام عرش سے اترا اس کے نفا ذ اور عملی شکل کے لیے اسے وجود میں لا یا گیا پو ری دنیا میں نظریا تی سطح پر قائم ہو نے والا وا حد اسلامی ملک ہے ۔ ہما رے اسلاف ہیں جنہو ں نے دوسری قومو ں پر وا ضح کیا کہ وہ نظریہ جو رسول اکرم ﷺ نے ابوجہل کے مقا بلے میں پیش کیا تھا ہم اس کے علمبردار ہیں ہما ری قوم میں پا ک اور مقدس نفوس کا خون شامل ہے ۔ ایک زمین پر رہنے کے با وجود ہما ری ملت دوسرے اقوام سے جدا ہے ان کا رہن سہن اور ہے ان کے نزدیک کتنی چیزیں حلال ہیں جو ہما رے نزدیک حرام ہیں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک ہیں ہما را سچا دین ہے وہ جھو ٹے ہیں انکی کوئی حثیت نہیں ۔اس سرزمین وطن کی بنیا دوں میں 10 لا کھ شہدا ءکا خون شامل ہے ۔ ان شہدا ءکی مقدس روحیں ، ہما رے اسلاف بے مثال قربانیا ں اور ہما رے قا ئدین قا ئد اعظم محمد علی جنا حؒ ، ڈا کٹر محمد علامہ اقبال ؒاور علما ءو مشا ئخ کی ارواح یہ سارا منظر دیکھ کر کس طرح چین سے رہتی ہو ں گی کیا خون کے آنسو نہیں گرتے ایک با غیرت اور با ضمیر محب وطن پا کستانی کی آنکھو ں سے کہ ملک کے اندر کیا صورتحال پیدا کر دی گئی ہے تا ریخ پھر دوہرا نے کی کوشش کی جا رہی ہے بلو چستا ن جیسے ہما رے دل کو زبردستی ہما رے سینو ں سے جدا کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ وہا ں پر تبا ہی و بربا دی کا وہ با زا رسر گر م کیا جا رہا ہے جس کی بدولت ہما را قومی تشخص اور وقا ر تبا ہ ہو نے کا خدشہ ہے ۔ نا انصا فی برتتے ہو ئے حکمران ملک کے اندر نفرتو ں کے بیج بو رہے ہیں اس ایک صوبے کے کھو جا نے سے کسی حکمران کی کرسی اور اما رت کو تو اتنا نقصان نہیں پہنچتا ہے لیکن پا کستان جو دنیا میں ایک خاص حثیت اور اہمیت اختیا ر کیے ہو ئے ہے اس کی بدنای اور پستی کا با عث بنتا ہے ۔ کیو ں اپنے ہی بھا ئیو ں کو با رہا نظر انداز کر کے اور ان کے دل اپنے سے متنفر کر کے اور ان کی سو چو ں کو بد زن کر کے ہم کس تباہی اور خرا بی کی بنیاد فراہم کر رہے ہیں کیو ں نسلو ں ، تفرقوں ، قبیلو ں ، بر ادریوں ، اقربا پر وری اور صو با ئی تعصب کے زریعہ سے ملک پا کستان کی ا کائی کو ٹکڑوں میں تقسیم کر نے کی سا زشیں تیا ر کی جا رہی ہیں ۔ پاکستا ن وہ مقدس لفظ ہے کہ یہ خیبر سے لیکر کر اچی تک پنجاب سے لیکر بلو چستان تک اگر ایریا بیان کر نا ہو تو رنگ کا لفظ نہیں بو لا جا تا ، نسل کا لفظ نہیں بو لا جا تا جغرا فیے کا لفظ نہیں بو لا جا تا بلکہ جنت کا مقدس لفظ بولا جا تا ہے ۔ یہ ملک ہما رے دین سے جدا نہیں ہما رے ایمان سے جدا نہیں ہما رے عقا ئد اور ہما رے نظام سے جدا نہیں ہے بلکہ یہ حصہ ہے ہما رے جسم و روح کا اور اس کا ایک ایک چپہ بھی ہمیں اپنی جان سے پیارا ہے خدارا اب ہمیں پنجابی ، سرحدی ، سندھی ، بلو چی اور کشمیری کی کشمکش سے نکلنا ہو گا اسی وجہ سے ہما رے بلو چی بھا ئیو ں کو ہما رے خلا ف استعمال کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے اور چند نام نہا د پا کستانی مغربی نا خدا ﺅ ں کی گود میں بیٹھ کر اس ملک کی تقسیم کی سا زشو ں کا حصہ بن ر ہے ہیں بانی پا کستان کہنے لگے کہ مجھ سے اگر کوئی پو چھتا ہے کہ پا کستان کا مطلب کیا ہے ؟ تو میں کہتا ہو ں کہ ہم وہ زمین حاصل کر نا چا ہتے ہیں جس میں قرآن و سنت کے قا نون کے تجربے کیے جا سکیں یعنی اس کو نا فذ کیا جا سکے اور پھر اسکو پھیلا یا جا سکے ۔ اس ملک کو تقسیم ہو نے سے بچا نا ہے اپنے گھر کی خبر با ہوش و ہواس لیتے رہنا ہے اور یہ چا روں صوبے کشمیر سمیت جو ہما رے مرکز و محور اور ہما ری سو چ ،احسا سات و تخیلا ت کا مسکن ہیں ان کی طرف یکجا تو جہ رکھنی ہے کہ کوئی بھی چور ڈا کو اس پر حملہ نہ کردے اور اس کی جڑوں کو کھوکھلا کر نے میں کامیاب نہ ہوجا ئے ۔ بلو چستان جسم پا کستان کا ایک با زو ہے جسے کا ٹنے کی کو شش کی جا رہی ہے ہمیں بیدا ری و شعور کا ثبوت دیتے ہو ئے اس کی سرحدوں کی حفا ظت کا بیڑہ اٹھا نا ہو گا اور اندرونی و بیرونی منفی قوتو ں کو ایک لمحہ کی بھی چھو ٹ نہیں دینی چا ہیے کہ وہ اس با زو کو ہم سے جدا کر نے میں کا میا ب ہو جا ئیں ۔ اگر حکمران طبقے سے مر کزی یا صو بائی حکومتوں سے کوئی تحفظا ت ہیں بلو چیو ں کے تو انہیں گھر کے اندر رہتے ہو ئے ختم کر نا چا ہیے ناکہ باہر والو ں کے سامنے ایک تماشا اور وبال ظا ہر کیا جا ئے جو قومیں جذباتیت سے کام لیتی ہیں اور چھوٹے چھوٹے معا ملو ں کو طول دینا شروع کردیتی ہیں تو ان کے پرا ئے اور بیگانو ں کو موقع مل جا تا ہے اور وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول اور دشمن سمجھتے ہو ئے نیچا دکھا نے کے لے آخری حد تک چلے جا تے ہیں ۔ اسلیے گھر میں سو کمی بیشی اور نا چاقیا ں اور نا اتفا قیا ں پیدا ہو جا تی ہیں اس کا مقصدیہ نہیں کہ ان غلط فہمیو ں سے اپنے طا ق میں بیٹھے ہو ئے دشمنو ں کو موقع فراہم کیا جا ئے بلکہ اس کا حل اور سدباب جتنا جلدی ہو سکے کیا جا نا چا ہیے تا کہ کسی بیگا نے کی جرات نہ ہو کہ وہ ہما ر ے ہی خون اور ہما رے ہی خمیر کو ہما رے خلا ف استعما ل کر سکے ۔حد تو یہ ہے کہ اب غیر ملکی ایجنسیا ں خاص مقا صد کے لیے جھو ٹے گیلپ سروے کروا کر ہما رے لو گو ں کو یہ با ور کر وانے کی کو شش کر رہے ہیں کہ 37 % بلوچی آزاد بلو چستان کے حق میں ہیں ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اپنے ہی کم فہم دانشور اور لکھا ری اس طرح کے سروے کو زیر بحث لا تے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ چند ایجنٹوں اور کچھ نا سمجھ بگڑے ہو ئے بلوچی نوجوانوں کو چھوڑ کر اکثریت کے دل آج بھی پا کستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ یو م آزادی کو جوق در جوق سبز ہلالی پرچم لہراتے ہو ئے کوئٹہ کی گلی کو چو ں میں خو شی سے جھو متے گا تے دکھائی دیتے ہیں۔ حکمرانو ں کو چا ہیے کہ ہو ش کے نا خن لیں اور اپنی خود احتسابی کا مظا ہرہ کرتے ہو ئے ملک پا کستان کو تقسیم در تقسیم صورتحال سے دوچارہو نے سے بچا ئیں ۔ پا کستان کا وجود چا روں صو بو ں کے یکجا رہنے سے تعبیر اورقا ئم و دائم ہے ۔
خدا کرے نہ خم ہو سر وقا ر وطن
اور اسکے حسن کو اندیشہ ماہ و سال نہ ہو
یہا ں جو پھول کھلیں وہ کھلتے رہیں بر سوں
یہا ں خزا ں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 107106 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More