ٓٓٓ”چاند“ سے ”سروس“ تک

عید آئی سو گزر بھی گئی ۔جہاں بہت ساروں کو خوشیاں وہیں بہت ساروں کو دُکھ بھی نصیب ہوئے ۔خدا تعالٰی کا نظام ِ کائنات ہے اِس نے بہر صورت چلنا ہے ۔اُس کے وعدے کے مطابق ہر شے اپنا کام کرتی چلی جا رہی ہے ۔ خوبصورتی اور حسن بھی یہی ہے کی ہر کوئی اپنا کام کرے ۔کام سے بات آئی تو کام کی بات بھی کر لی جائے ۔عید پر چاند دیکھنے کاکام تھا وہ بھی دیکھنے والوں نے دیکھا اور خوب دیکھا ۔کہیں © ”عید ”کا چاند تو کہیں”شوال“کا چاند دیکھاگیا۔ خیر چاند کی وہ ”راتیں “تو گزر گئیںمگر بہت ساری باتیں باقی رہ گئیں ۔کئی بیچارے دور کے سفر سے آئے چاند تو نظر نہ آیا مگر وہ سب کو نظر آگئے ۔پہلے پہل تو چاند دیکھ کر لوگ خوش ہوتے تھے اب کی بار تو ایسی ”چاندی“پڑی کے بہت ساروں کو ”چار چاند“لگ گئے ۔یہ بھی دیکھا اور سنا تھا کہ عید پر عیدی ملتی ہے مگر اب تو رواج بدلتا جا رہا ہے ”عیدی“ کے بجائے اجلاس بلا بلا کر عیدیاں تقسیم ہوئی ہیں یہ بھی اس لئے کہ اگلی دفعہ پھر انہیں ہی ”عیدی“ملے ۔عید تو گئی مگراُس کے چاند کی ”چاندنی “یا ”چاندی“ ابھی باقی ہے ۔چاند پر پھر بھی بات ہوتی رہے گی ہم کام کی بات کرتے ہیں ۔

عیدکے موقع پر وزارت ِداخلہ کی طرف ایک اقدام اُٹھایا گیا جس کی ہر طرف سے اور خصوصاً اُن لوگوں کی طرف سے شدید مذمت کی گئی جو اِس سے متاثر ہوئے۔متاثرین میں روشنیوں کے شہر کے باسی بھی موبائل سروس کی تاریکی میں تو تھے ہی لیکن زندہ دِلان ِلاہور بھی اِس میں کسی سے کم نہ تھے ۔اسلام آباد والے صرف ”وارنگ “تک محدود تھے ۔ہمیشہ کی طرح اب کی بار بھی سیالکوٹی حجام کے بیٹے عبدالرحمن ملک کو خوب دِکھایا گیا ۔ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اُن کا یہ اعلان کس ایکٹ کے تحت تھا؟۔گزشتہ اتوار وزارت ِ داخلہ میں ایک اعلی سطحی اجلاس ہواجس میں موبائل فون سروس کو چار بڑے شہروں میں بند کرنے کا فیصلہ ہواتھااور اُس فیصلہ کے بارے ٹیلی کام اتھارٹی کو براہ ِراست اگاہ کیا گیا۔اُن احکامات پر ٹیلی کام اتھارٹی نے عملدرآمدکر دیا۔حکومت کی کسی بھی وزارت سے جاری ہونے والے احکامات وزارت ِ ٹیلی کام سے ہی بھجوائے جاسکتے ہیں۔جب کہ ٹیلی کام اتھارٹی کا کہنا ہے کہ چاند رات کو موبائل فون سروس معطل کرنے میں وزارت ِ ٹیلی کام کا کو ئی کردار نہیں تھااورٹیلی کام اتھارٹی نے وزارت ِداخلہ کے احکامات پر عملدرآمد کر کے ٹیلی کام ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے ۔اِس طرح کے عمل کی قانونی حیثیت پر تحفظات کا اظہار کیا جارہاہے ۔

یہ بھی سنا اور کہا جارہا ہے کہ ِاس قسم کے احکامات صرف ہنگامی حالت نافذ ہونے کی صورت میں دئے جا سکتے ہیں اور ایسے حالات پر بھی صدر اور وزیر اعظم ہی ایسے احکامات جاری کر سکتے ہیں۔

دستورِپاکستان کو مکمل بحال ہوتے ہوئے ایسے احکامات مروجہ قواعد وضوابط سے ہٹ کر جاری نہیں ہوسکتے ۔اِس سے قبل بھی1996 ءمیں وزیرداخلہ نصیر اللہ بابرنے کراچی میں آپریشن کے لئے موبائل فون سروس معطل کی تھی ۔اُس کا فیصلہ اُس وقت ایک اعلی سطحی اجلاس میں کیا گیا تھا،لیکن اُس پر عملدرآمد وزارت ِکمیونیکیشن کے حکم پر ہی ہوا تھا۔اُسی اتھارٹی نے اُس حکم پر عمل درآمد کروایاتھا۔جب کہ اُس وقت ایک اور خاص بات یہ بھی تھی کہ اُس نقصان کا ازالہ حکومت نے ٹیکسوں میں رعایت اور دیگر ذریعوں سے کیا تھا۔اب کی بار تو اجلاس بھی ہوا مگر احکامات وزارت داخلہ نے ہی جاری کئے ہیں ۔یہ نقصانات کون برداشت کرتا ہے اِس کا فیصلہ پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات تک موقوف رہے گا۔

موبائل فون سروس کا مسئلہ عامتہ الناس کے لئے تو کچھ وقت کے لئے بنا ،جو سروس بحال ہوتے ہی ختم ہو گیا تھامگر اب وہ مسئلہ ”خواص“ کا ہے۔جو اُسے ایک مرتبہ پھر عوام کے گلے میں ڈالنا چاہتے ہیں ۔پاکستان میں یہ غربت کی شرح کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔اِس کے باوجود وقت کی سواری کے سوار بنے عوام ہر سہولت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ،جو کرنا بھی چاہئے ۔اِن سہولیات میں ایک سہولت یہی موبائل فون ہے ۔جسے اگر آج انسانی زندگی سے نکال دیا جائے تو رابطہ کے فقدان کی کیفیت کا اندازہ مشکل ہوتا چلا جاتا ہے ۔پاکستان میں اِس وقت موبائل فون صارفین کی تعداد12کروڑسے زائد ہے ۔اِن 12کروڑ صارفین میں 90فیصد پری پیڈ (جس سم میں کارڈ ریچارج کر کے رابطہ کیا جاسکتا ہے )کنکشن رکھنے والے صارفین ہیں ۔اِن کی تعداد 10 کروڑ80 لاکھ بنتی ہے ۔پوسٹ پیڈ(جو سم سیکورٹی ڈیپاذٹ +بل پر ہوتیں ہیں )صارفین کی تعداد 120 لاکھ ہے ۔2009ءکے بعد چار دفعہ تمام صارفین کے ریکارڈ کی چھان پھٹک کی جاچکی ہے ۔ اِس دوران 2کروڑ 50 لاکھ سے زائد کنکشن بلاک کئے گئے ۔اِن تمام منقطع کئے گئے کنکشن کا ریکارڈ نادرہ کے ریکارڈ سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے عمل میں آیاتھا۔اِن بلاک کئے گئے کنکشن میں 70 لاکھ کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔

اب کی بار ایک مرتبہ پھر زور و شور سے پری پیڈ موبائل فون کنکشن کو ختم کرنے کی بات بھی کی گئی ۔جب کہ ٹیلی کام اتھارٹی کے مطابق 90فیصدپری پیڈ صارفین کی ہی وجہ سے موبائل فون سیکٹر قائم ہے ۔پری پیڈ صارفین میں پاکستانی غریب طبقہ ہے ۔جب کہ تاجروں اور کاروباری افراد کے علاوہ ہر صاحب ِثروت پوسٹ پیڈ کنکشن ہی استعمال کرتا ہے ۔ جہاں پر ی پیڈ کنکشن کے بند کرنے کی بات آئی وہیں تاجرکیمیونٹی کی حمایت کے حماقت خیز بیانات بھی آئے ۔ایک امیر تاجر کو بھلا غریب کی غربت سے یارا ہی کیا ہے ؟۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اِن کچے دھاگوں کا سہارا لینے اور عوام کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے دیگر عوامل کی طرف کوشش اور توجہ دی جائے ۔دریں چہ شک دہشت گردی نہیں ہونی چاہئے ۔چاہے اُس کا طریقہ کار کوئی بھی ہو ۔اگر دہشت گردی موبائل فون کی وجہ سے ہوتی ہے تو بھی اُس کو روکنے کا یہ طریقہ کار عقلمندانہ کسی طور پر بھی نہیں ۔

ایک شناختی کارڈ پر ہر کمپنی کی 10سم او ر مجموعی طور پر 50سم خریدی جاسکتی ہیں ۔جب کہ مئی 2012ءکے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ایک شناختی کارڈ پر ایک کمپنی کی پانچ سم کا ہی فیصلہ ہوا تھا جس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور اب بھی اِس حکم کے خلاف پٹیشن سپریم کورٹ میں فیصلہ طلب ہے ۔اِس سے قطع نظر کے فیصلہ 25کا یا 50کا آئے ۔30 اگست 2012ءکو ہونے والے مشاورتی اجلاس میں سلور کمپنیوں ،سیکورٹی ایجنسیوں اور وزارتِ داخلہ کو مل کر واضع حکمت عملی کا چناو کرنا ہوگا ۔ایک شخص 25سم بھی ایک لمبا ٹارگٹ ہے جس پر مزید غور کیا جاسکتا ہے ۔آپریٹرزسے لے کرفرنچائزڈیلرذ تک اِس مشاورت سے طے کئے گئے اصولوں اورقانون پر اگر عملدآمد کریں تب بھی اِس مصیبت و ناسورسے چھٹکارہ حاصل کیاجاسکتا ہے ۔اِس کے ساتھ ساتھ ہر صارف ازخود بھی اپنے نادرہ شناختی کارڈ کے ہمراہ اپنے کنکشن کی معلومات وجان پڑتال کا حق رکھتاہے اور اُسے یہ عمل ضرور کرنا چاہیے ۔قومی مفادکے لئے اٹھایا گیا یہ راست اقدام بھی بہت ساکام حل کر سکتا ہے ۔عوام خود بھی آسانی سے فائدہ اٹھائے تب ورنہ ایسے ”چاند “بھی دکھائی رہیں گے اوریوں ”سروس“ بھی بند ہوتی رہے گی ۔
Azmat Ali Rahmani
About the Author: Azmat Ali Rahmani Read More Articles by Azmat Ali Rahmani: 46 Articles with 55337 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.