عید مسلمانوں کے لے خوشیوں کا تہوار

رب تعالٰی نے اپنے فضل و کرم اور رحمت و بخشش پر ہمیں خوشی منانے کا حکم صادر فرمایا ہے، ارشاد باری تعالٰی ہے قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا (پ11*ع11)

فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئیے کہ خوشی کریں، تو جب رب کائنات نے رمضان المبارک میں ہمیں روزہ جیسی عظیم فرضیت کو ادا کرنے کی توفیق بخشی اور رحمت بھی دیا، مغفرت بھی دیا اور جہنم سے آزادی بھی عطا کیا، جیسا کہ حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے، رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ (بیہقی) تو رب تعالٰی کے اس عظیم انعام و اکرام اور فضل و کرم پر خوشی منانے کیلئے ہمیں عیدالفطر کا دن عطا کیا گیا جس دن ہم مسرت و شادمانی کا اظہار کرتے ہیں اور شکرانے کے طور پر دو رکعت واجب نماز ادا کرتے ہیں اور اس نماز میں چھ زائد تکبیریں واجب کی گئیں تاکہ فرحت و سرور کا اظہار بھی ہو اور فرمان باری تعالٰی پر عمل بھی ہو۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔ ولتکملوا العدۃ ولتکبروا اللہ علی ما ھداکم (پ2، ع7) اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی۔

عید کی نماز پہلی ہجری میں واجب ہوئی (فتاوٰی رضویہ جلد سوم) لیکن آپ نے پہلی نماز عیدالفطر 6ھ میں ادا فرمائی۔ (مکاشفۃ القلوب) حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے نماز عید ہمیشہ عیدگاہ میں ادا فرمائی صرف ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے مسجد نبوی شریف میں ادا فرمائی، آپ کی عیدگاہ مسجد نبوی شریف سے ہزار گز کے فاصلہ پر ہے، عید کے دن خوبصورت اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے، آپ کا ایک عمدہ لباس تھا جو شعائر اسلام کی عزت و شان کے اظہار کیلئے عید و جمعہ کے موقع پر پہنا کرتے تھے، حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم عیدگاہ جانے سے قبل چند کھجوریں کھا لیا کرتے تھے، جن کی لاتعداد طاق ہوتی تھی کیونکہ روزہ سے نگاہ کمزور ہوتی ہے تو کھجور کھا لیتے تھے، اس لئے کہ میٹھی چیزیں نگاہوں کو تقویت دیتی ہیں اور طاق کی رعایت سب چیزوں میں فرماتے اس لئے کہ بیشک اللہ اکیلا ہے اور وہ طاق کو پسند فرماتا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نماز عیدالفطر میں تاخیر فرماتے اور نماز عیدالاضحٰی کو جلد پڑھتے، غالباً عیدالفطر میں اس تاخیر کی حکمت یہ ہوگی کہ صدقہ فطر بھی ادا کر چکے ہوتے اور کچھ طعام بھی تناول فرما چکے ہوتے اور کوئی اہم معاملہ درپیش نہ ہوتا اس لئے اجتماع کی زیادتی کی خاطر تاخیر فرماتے ہوں گے، بخلاف عیدالاضحٰی کے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ پاک میں عیدگاہ کے اندر منبر نہ تھا، سب سے پہلے مروان بن حکم نے عیدگاہ میں منبر کا رواج ڈالا جو حضرات امیر معاویہ کے زمانہ میں امیر مدینہ تھا اور ایک اور روایت میں ہے کہ منبر کی بنیاد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ پاک میں پڑی۔

اور آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ایک راہ سے عیدگاہ تشریف لے جاتے اور دوسری راہ سے واپس آتے، علماء نے اس تبدیلی راہ کی بہت ساری وجوہات بیان کی ہیں جن میں سے بعض یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔

علماء فرماتے ہیں تبدیلی راہ اس بنا پر تھی تاکہ مقامات مختلفہ اور وہاں کے رہنے والے انسان و جنات اور فرشتے طاعات و نیکیوں پر گواہ بن جائیں یا اس بنا پر تھی تاکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی برکتیں دونوں راستوں اور وہاں کے رہنے والوں کو حاصل ہو سکیں، یا اس بنا پر تھی تاکہ دونوں راستوں میں شعائر و شرائع اسلام کا ظہور حاصل ہو، یا اس بنا پر تھی کہ آپ عیدگاہ دہنی جانب سے تشریف لے جاتے تو اگر واپسی بھی اسی راستے سے ہوتی تو یہ بائیں جانب ہوتا۔ اس لئے واپسی میں دوسرا راستہ اختیار فرماتے، تاکہ وہ بھی دہنی جانب سے ہو۔ (مدارج النبوۃ)

یہ تھی سرکار اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی عید مبارک۔ اب عید کے دن ہمارے اوپر خالق کائنات کے فضل و کرم کو ملاحظہ کیجئے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں طرح طرح کے انعام و اکرام عطا کرنے کے بعد عیدالفطر کے دن بھی اپنی مخصوص نعمتیں برساتا ہے، جن کی وجہ سے روزہ داروں کو فرحت و سرور حاصل ہونا اور خوشی منانا ایک فطری بات ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ اپنی عیدوں کو تکبیروں سے مزین کرو کیونکہ آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جس نے عید کے دن تین سو مرتبہ سبحٰن اللہ بحمدہ پڑھا اور مسلمان مُردوں کی روحوں کو اس کا ثواب ہدیہ کیا تو ہر مسلمان کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں ! اور جب وہ مرے گا تو اللہ تعالٰی اس کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل فرمائے گا۔ (مکاشفۃ القلوب)

دوسری روایت میں ہے کہ جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالٰی فرشتوں کو زمین پر بھیجتا ہے جو گلی کوچوں اور راستوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور بلند آ واز سے پکارتے ہیں جسے جن و انس کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے کہ اے محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی امت اپنے رب کریم کی طرف آؤ، تمہیں بہت کچھ دو گا اور تمہارے کبیرہ گناہوں کو بخش دے گا، اور جب لوگ عیدگاہ میں آ جاتے ہیں تو اللہ تعالٰی فرشتوں سے فرماتا ہے جن مزدور نے اپنا پورا کام کیا ہو اس کی مزدوری کیا ہے! فرشتے عرض کرتے ہیں اس کی مزدوری یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے، تب اللہ تعالٰی فرماتا ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ جن لوگوں نے روزے رکھے اور نمازیں پڑھیں ان کے عوض میں، میں نے انہیں مغفرت سے نواز دیا۔ پھر رب تعالٰی مسلمانوں سے فرماتا ہے اے میرے بندو ! مانگو کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ! آج اس مجمع میں جو چیز اپنی آخرت کیلئے مانگو گے میں تمہیں عطا کروں گا اور جو کچھ دنیا کیلئے سوال کرو گے اس میں تمہارے لئے نظر کروں گا۔ (یعنی دنیا کی چیزوں میں خیر و شر دونوں ہوتے ہیں اور آدمی اکثر اپنی نادانی سے خیر کو شر، اور شر کو خیر سمجھ لیتا ہے اور تمہارے حق میں کیا اچھا ہے کیا بُرا ہے وہ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ لٰہذا دنیا کیلئے جو کچھ مانگو گے اس میں بکمال رحمت نظر فرمائی جائے گی، اگر وہ چیز تمہارے حق میں بہتر ہوئی عطا ہوگی ورنہ اس کے مطابق بلا دفع کریں گے یا یہ دعاء روز قیامت کیلئے ذخیرہ رکھیں گے اور یہ بندے کے لئے ہر صورت سے بہتر ہے۔)

مجھے اپنی عزت کی قسم ! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں پر پردہ پوشی فرماتا رہوں گا، مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ! میں تمہیں اہل کبائر میں رسوا نہ کروں گا، اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جاؤ، بیشک تم نے مجھے راضی کیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا۔ (فتاوٰی رضویہ سوم، غنیۃ الطالبین)

اور جہاں عید سعید کے دن روزہ دار خوشیاں منا رہے ہوتے ہیں وہیں شیطان لعین روزہ داروں پر رب تعالٰی کی رحمتوں بخششوں اور بے انتہا کرم نوازیوں کو دیکھ کر حسد کی آگ میں جل جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ جب بھی عید آتی ہے شیطان چلا چلا کر روتا ہے اس کی بدحواسی اور اضطرابی کیفیت دیکھ کر تمام شیاطین اس کے پاس جمع ہو کر پوچھتے ہیں، اے آقا آپ کیوں غضبناک اور اداس ہیں ؟ شیطان بولتا ہے، ہائے افسوس ! اللہ تعالٰی نے آج کے دن امت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو بخش دیا ہے، لٰہذا تم انہیں لذتوں اور خواہشات نفسانی میں مشغول کرو۔ (مکاشفۃ القلوب)

اور عید کا مقصد صرف عمدہ اور نیا لباس پہن لینا یا لذیذ کھانا کھا لینا نہیں ہے بلکہ عید کا صحیح مقصد تو ہے کہ اطاعت و عبادت کی کثرت کرکے رب تعالٰی کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کیا جائے اور گناہوں سے توبہ کی جائے، لیکن افسوس کہ ہم دنیاوی لذتوں اور خواہشات میں اس قدر ڈوبے ہوتے ہیں کہ عید کا صحیح مقصد ہی فراموش کر جاتے ہیں۔

اپنے بزرگوں کے حالات ملاحظہ کیجئے کہ عید جیسے اہم دن میں بھی وہ عمدہ لباس کی فکر میں نہیں رہتے بلکہ ہر لمحہ خوشنودی مولٰی کے حصول کی کوشش کرتے اور اسی میں وہ فرحت و انبساط محسوس کرتے عید کے مبارک دن میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے بیٹے کو پرانی قمیص میں ملاحظہ کیا تو آپ سے برداشت نہ ہوا اور رو پڑے بیٹے نے عرض کیا اے میرے والد بزرگوار آپ کیوں رو رہے ہیں تو آپ نے فرمایا، اے بیٹے مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تجھے اس پھٹے پرانے قمیص میں دیکھیں گے تو تیرا دل ٹوٹ جائے گا، بیٹے نے بڑا پیارا جواب دیا، ابا جان ! دل تو اس کا ٹوٹے گا جو رضائے الٰہی کو نہ پا سکا یا جس نے ماں باپ کی نافرمانی کی ہو اور مجھے اُمید ہے کہ آپ کی رضامندی کے طفیل اللہ تعالٰی بھی مجھ سے راضی ہوگا۔ بیٹے کے اندر فرمانبردای کا یہ جذبہ دیکھ کر آپ رو پڑے بیٹے کو گلے لگالیا اور اس کیلئے دعاء کی۔ (مکاشفۃ القلوب)

حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں عید سے ایک دن قبل آپ کی بچّیاں حاضر ہوئیں اور عرض کیا، بابا جان! کل عید کے دن ہم کون سے کپڑے پہنیں گے ؟ فرمایا یہ کپڑے جو تم نے پہن رکھے ہیں، اسے ہی دھو کر صاف کرلو اور کل پہن لینا لیکن بچیاں اپنے مطالبے پر ضد کرنے لگیں تو آپ نے فرمایا میری بچیوں عید کا دن اللہ کی عبادت کرنے اور اس کا کر بجا لانے کا دن ہے۔ نئے کپڑے پہننا ضروری تو نہیں ، بچیوں نے کہا باباجان آپ کا فرمانا بیشک صحیح ہے، لیکن ہماری سہیلیاں اور دوسری لڑکیاں ہمیں طعنے دیں گی کہ تم امیر المومنین کی بیٹیاں ہو کر وہی کپڑے پہن رکھی ہو، یہ بولتے ہوئے بچیوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، بچیوں کی باتیں سن کرامیر المومنین کا دل بھر آیا، آپ نے خزانچی کو بلا کر فرمایا مجھے ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی لادو ! خزانچی نے عرض کیا، حضور ! کیا آپ کو یقین ہے کہ ایک ماہ تک آپ زندہ رہیں گے، آپ نے فرمایا جزاک اللہ ! تونے بیشک عُمدہ اور صحیح بات کہی، خزانچی چلا گیا تود آپ نے اپن بچیوں سے فرمایاا پیاری بیٹیو ! اللہ و رسول کی رضا پر اپنی خواہشات کو قربان کردو، کوئی شخص اس وقت تک جنت کا مستحق نہیں بن سکتا جب تک وہ کچھ قربانی نہ دے۔ (معدن اخلاق)

مذکورہ روایات ہمیں درس دے رہی ہیں کہ عید صحیح معنوں میں عمدہ پوشاک پہن لینے یا عمدہ کھانا کھا لینے اور دنیاوی لذتوں میں ڈوب جانےکا نام نہیں ہے۔ بلکہ اطاعت و فرمانبرداری اور عبادت میں کثرت لانے کا نام ہے، گناہوں سے توبہ کرنے اور عذاب الٰہی سے خوف کھانے کا نام ہے، لیکن ہمارا معمول بڑا ہی قابل افسوس ہے کہ اس مبارک دن میں زرق برق لباس پہن کر لذیذ کھانا کھاکر گناہوں میں ڈوب جانے کو ہی عید سمجھتے ہیں، بڑی امنگ کے ساتھ فلم دیکھتے ہیں، اس کے گانے سنتے ہیں، اور طرح طرح کے خرافات میں مشغول ہو جانے سے بہت خوش ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ سب عید نہیں بلکہ سبب غضب قہار ہے، جو عذاب الٰہی کا حقدار بناتا ہے۔ حضرات ! ہمارے بزرگوں کی شان ملاحظہ کیجئے کہ ان کو آخرت کی فکر کتنی تھی اور خوف خدا میں کس قدر ڈوب کر اپنی عید مناتے تھے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بارگاہ ناز میں ایک شخص عید کے دن حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ سوکھی روٹی کھا رہے ہیں۔ اس نے عرض کیا حضور ! آج عید کا دن ہے، اور آپ سوکھی روٹی تناول فرما رہے ہیں، تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا آج ان کیلئے عید ہے جن کے روزے قبول ہوئے اور جن کی کوششیں نتیجہ لانے والی ثابت ہوئیں اور جن کے گناہ بخش دئیے گئے۔ مگر ہماری آج بھی وہی عید ہے جو کل ہوگی، یعنی جس دن آدمی گناہ نہ کرے وہ اس کیلئے عید کا دن ہے۔ (غنیۃ الطالبین)

غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی ایک رباعی میں ارشاد فرمایا ہے لوگ کہہ رہے ہیں کہ کل عید ہے، کل عید ہے، اور سب خوش ہیں لیکن میں تو جس دن اس دنیا سے اپنا ایمان محفوظ لے کر گیا، میرے لئے تو وہی دن عید کا دن ہوگا۔

اور عیدالفطر کے اس پرکیف موقع پر بھی سرکار کائنات نے غریبوں اور مفلسوں کو یاد رکھا ہے اور اغنیاء کو حکم دیا ہے کہ تم صدقہء فطر ادا کیا کرو، تاکہ تمہارے غریب بھائی جو اپنی ناداری کی وجہ سے عید کی خوشی نہیں منا سکتے وہ بھی عیدالفطر کی اس خوشی میں تمہارے شریک ہو جائیں اور صدقہ فطر کی ادائیگی میں یہ فائدہ مضمر ہیں کہ اگر رمضان شریف کے روزوں میں فضول اور بیکار باتیں ہو جائیں یعنی لغو، فحش، جھوٹ، غیبت یا غیر محرم لڑکیوں کی طرف دیکھنے سے نقصان پیدا ہو جائے تو یہ صدقہ اس کا بدلہ ہے جو روزے کو پاک و صاف کر دیتا ہے اور صدقہ فطر میں غرباء و مساکین کے خورد و نوش کا بھی انتظام ہے تاکہ وہ بھی خوشیاں منا سکیں، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ سرکار دو جہاں نے صدقہء فطر اس لئے مقرر فرمایا تاکہ لغو اور بیہودہ کلام سے روزہ کی طہارت ہو جائے اور دوسری طرف مساکین کیلئے خوراک ہو جائے۔ (ابو داؤد)

اور عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہء فطر واجب ہو جاتا ہے۔ لٰہذا جو شخص صبح صادق ہونے سے پہلے ہی مر گیا یا غنی تھا فقیر ہو گیا، یا صبح صادق طلوع ہونے کے بعد کافر مسلمان ہوا، یا بچہ پیدا ہوا، یا فقیر تھا غنی ہو گیا تو واجب نہ ہوا۔ اور اگر صبح صادق طلوع ہونے کے بعد مرا، یا صبح طلوع ہونے سے پہلے کافر مسلمان ہوا، یا بچہ پیدا ہوا، یا فقیر تھا غنی (مالک نصاب) ہو گیا تو واجب ہے۔ (بہار شریعت)

اور صدقہ فطر ادا کرنے کا افضل وقت یہ ہے کہ عید کے دن صبح صادق کے بعد عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے ادا کرایا جائے، اگر چاند رات، یا رمضان شریف میں، یا اس سے پہلے کسی نے ادا کر دیا تو تب بھی فطرہ ادا ہوگیا، اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔ (عالمگیری)

اوراگر نماز عید سے قبل ادا نہ کیا تب بھی فطرہ ساقط نہ ہوا اور بدستور وہ واجب رہے گا اور جب بھی وہ ادا کرے گا ادا ہی کہلائے گا۔ (بہار شریعت)
Usama Ali
About the Author: Usama Ali Read More Articles by Usama Ali: 4 Articles with 32653 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.