عظیم تاریخ ساز ہستی کے والد اون کات کر بیچاکرتے تھے

تمام محاسن و مکار م اللہ عزوجل کے لیے اور درودوں کے تحفے نبی مکر م ؐ کے لیے ۔

محترم قارئین :کامیابی تووہ ہے کہ جو سر چڑھ کر بولے ۔خود بتانانہ پڑے بلکہ وہ فن و ہ صلاحیت ،وہ استعداد ،وہ اہلیت خود بولے ۔ایساہی تاریخ کے افق پر ایک عظیم درخشند ستار ہ امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الھادی ہیں کہ جن کی ضیاء سے اُمت مسلمہ کے اعمال کی تاریکیوں کا ازالہ ہوا۔ تجدید دین اور اصلاح امت کا فریضہ سر انجام دینے والی بے مثل ہستی کا اصل نام نام محمد بن محمد لقب حجۃ الاسلام ہے۔

تعارف:آپ کی کنیت ابو حامد،لقب حجۃ الاسلام اور نامِ نامی، اسمِ گرامی محمد بن محمد بن محمد بن
احمدطوسی غزالی رحمہم اللہ تعالیٰ ہے ۔

ولادت باسعادت: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ٠ھـ خراسان کے شہرطوس میں پیدا ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد گرامی اسی شہرمیں اُون کات کر بیچا کرتے تھے۔

خاندا ن:
امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الھادی خراسان کے ضلع طوس میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد ماجدریشہ فروش تھے اور اسی مناسبت سے ان کا خاندان غزالی کہلاتا تھا کیونکہ غزل کے معنیٰ کاتنے کے ہیں۔ امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الھادی کے خاندانی پیشے کے ذکر میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں میں اس قدر تعلیم عام ہو چکی تھی کہ ادنیٰ سے ادنیٰ پیشے والے افراد بھی تعلیم سے محروم نہیں رہتے تھے۔ ایسے ہی پیشوں سے وابستہ کئی صاحبانِ کمال آج کے علمی اور سائنسی دور میں امام و مقتدا کا درجہ رکھتے ہیں۔ تعلیم کی بدولت یہ پیشے ذلیل نہ رہے، بڑے بڑے علماء یہ پیشے اختیار کرتے تھے اور انہی پیشوں کے انتساب سے ان کے ناموں کی شہرت ہے۔

تعلیم:
امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الھادی والد اتفاق سے تعلیم سے محروم رہ گئے۔ وفات کے وقت انہوں نے امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الھادی اور امام احمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الھادی کو اپنے ایک دوست کے سپرد کیا اور کہا کہ مجھ کو نہایت افسوس ہے کہ میں لکھنے پڑھنے سے محروم رہ گیا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں لڑکوں کو تعلیم دلائی جائے تا کہ میری جہالت کا کفارہ ہو جائے۔ امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الھادی نے فقہ کی ابتدائی کتب اپنے شہر میں ہی پڑھیں۔ اس کے بعد جرجان گئے۔ دوران تعلیم نوٹس اور تعلیقات تیار کیں۔ واپسی پر راستے میں ڈاکہ پڑا ان کا سب سامان لٹ گیا۔ آپ کو ان تعلیقات کے لٹنے کا نہایت صدمہ تھا چنانچہ ڈاکوؤں کے سردار کے پاس گئے اور کہا کہ میں اپنے اسباب اور سامان میں سے صرف اس مجموعے کو مانگتا ہوں کیونکہ میں نے انہی کے سننے اور یاد کرنے کے لیے سفر کیا تھاوہ ہنس پڑا اور کہا کہ تم نے خاک سیکھا جب کہ تمہاری یہ حالت ہے کہ ایک کاغذ نہ رہا تو تم کورے رہ گئے یہ کہہ کر اس نے وہ کاغذ واپس کر دیے ۔ امام صاحب پر اس طعنہ آمیز فقرے نے ہاتف غیبی کی آواز کا اثر کیا۔ چنانچہ وطن پہنچ کر وہ یاد داشتیں زبانی یاد کرنا شروع کر دیں یہاں تک کہ پورے تین برس صرف کر دیے اور ان مسائل کے حافظ بن گئے۔

محترم قارئین:علم کے اس قدردان نے نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھان ماری اور علم کے موتیوں کو جمع کیا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مشہوراساتذہ وہ یہ ہیں ۔

اساتذہ کرام:
آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے چند مشہور اسا تذہ کے نام یہ ہیں:فقہ میں علامہ احمد بن محمد راذکانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، امام ابونصر اسماعیلی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ، امام الحرمین ابو المعالی امام جوینیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اورحافظ عمر بن ابی الحسن رواسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تصوف میں ابو علی فضل بن محمد بن علی فارمدی طوسی۔اسی طرح آپ کے مشائخ میں یوسف سجاج، ابو سہل محمد بن احمد عبید اللہ حفصی مروزی، حاکم ابوالفتح نصر بن علی بن احمد حاکمی طوسی، ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن احمد خواری، محمد بن یحیٰی، ابن محمد سجاعی زوزنی،حافظ ابوالفتیان عمر بن ابی الحسن رؤاسی دھستانی، نصر بن ابراہیم مقدسی وغیرہ شامل ہیں۔اورعلمِ کلام وجدل میں آپ ر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مشائخ کے بارے میں علم نہ ہوسکا اور فلفسہ میں آپ کا کوئی استاذ نہ تھا جیسا کہ اپنی کتاب المنقذ من الضلال میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خود صراحت فرمائی ہے ۔

نیشا پور کا سفر:
امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الھادی کی تحصیل علم اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ معمولی علماء ان کی تشفی نہیں کر اسکتے تھے۔ اس لیے تکمیل علوم کے لیے وطن سے نکلنا چاہا ۔ اس دور میں نیشا پور اور بغداد علم و فن کے مرکز تسلیم کیے جاتے تھے۔ نیشا پور کا قریب ہونے کی بناء پر انتخاب ہوا۔ وہاں امام الحرمین (ضیاء الدین عبدالملک) کی خدمت میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے حلقہ درس میں چار سو طلبہ زیر تعلیم تھے۔ ان میں امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الھادی نمایا ں حیثیت کے حامل تھے۔ امام الحرمین کہا کرتے تھے کہ غزالی دیائے ذخّار ہے۔

نظام الملک:
امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الھادی نے درسگاہ سے نکل کر نظام الملک کے دربار کا رخ کیا ، چونکہ ان کی علمی شہرت دور دور پہنچ چکی تھی ۔نظام الملک نے نہایت تعظیم و تکریم سے ان کا استقبال کیا۔ سینکڑوں اہل علم کا مجمع تھا ۔ نظام الملک نے مناظرے کی مجلس منعقد کیں، متعدد جلسے ہوئے اور مختلف علمی مضامین پر بحثیں رہیں ہر معرکہ میں امام غزالی ہی غالب رہے۔ اس کامیابی نے امام صاحب کی شہرت کو چمکا دیا اور تمام اطراف میں ان کے چرچے پھیل گئے۔

نظامیہ کے مدرس اعظم:
نظام الملک نے نظامیہ کی مسند درس کے لیے امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الھادی کاا انتخاب کیا۔ یہ ایسا عظیم الشان رتبہ تھا کہ بڑے بڑے اہل کمال نے ان کی آرزو میں عمریں صرف کر دیں اور یہ حسرت دل میں لے کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الھادی کے علم و فضل کا یہ اثر ہوا کہ ارکان سلطنت کے ہمسر بن گئے۔ ان کے جاہ و جلال نے وزراء و امراء کو دبا لیا یہاں تک کہ سلطنت کے اہم و مہتمم بالشان معاملات ان کی شرکت کے بغیر انجام نہیں پا سکتے تھے۔

تلامذہ:
حجۃ الاسلام حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بے شمار شاگرد تھے جن میں سے اکثر اپنے وقت کے متبحر عالم، فقیہ، محدث، مفسر اور مصنف کی حیثیت سے معروف تھے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگردانِ گرامی میں محمد بن تومرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ،علامہ ابو بکر عربی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، قاضی ابو نصر احمد بن عبد اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، امام ابو سعید یحیی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، ابو طاہر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، امام ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، ابو طالب عبد الکریم رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،جمال الاسلام ابو الحسن علی بن مسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔

حکمرانوں سے ترک تعلقات:
امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الھادی حکمرانوں سے تعلقات کے دوران اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس دور کے حکمرانوں سے تعلقات رکھنا درست نہیں ہیں۔ آج کے سلاطین ان ہی لوگوں کے ساتھ فیاضی کرتے ہیں جن کے متعلق ان کو یہ امید ہوتی ہے کہ وہ ان سے کام لے سکیں گے۔ ان سے ان کو سہارا حاصل ہوگا، وہ ان سے اپنی اغراض پوری کر سکیں گے۔ ان سے ان کے درباروں اور مجلسوں کی رونق بڑھے گی اور وہ ہمیشہ دعا گوئی ، ثنا خوانی اور حاضر و غائب ان کی تعریف و توصیف میں لگے رہیں گے۔ ان کے مظالم اور بد اعمالیوں کی پردہ پوشی کریں گے۔ شخصی سلطنت اور جابر حکمرانوں کے اس دور میں جب بیش قیمت افراد کی زندگی ان کے رحم و کرم پر تھی ، جب شبہ پر قتل عام ہو سکتا تھا۔ امام غزالی ؒ نے حکمرانوں کی اصلاح کے لیے ان کی بد نظمیوں ، حقوق کی پامالی اور ذمہ داریوں کی غفلت کی طرف توجہ دلانے کے لیے خطوط لکھے۔ انہوں نے صرف تحریر و تقریر پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ جب ان کو بادشاہ وقت سے ملنے کا اتفاق ہوا تو بھرے دربار میں بھی انہوں نے کلمہئ حق بلند کیا۔ امام غزالی ؒ نے اپنی آئندہ زندگی میں تین باتوں کا عہد کیا:
(1) کسی بادشاہ کے دربار میں نہ جاؤں گا۔ (2) کسی بادشاہ کا عطیہ نہ لوں گا۔ (3) کسی سے مناظرہ و مباحثہ نہ کروں گا۔

چنانچہ مرتے دم تک ان باتوں کے پابند رہے ۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ سلاطین کے مال ہمارے زمانے میں سب حرام ہیں یا ان کا بڑا حصہ حرام ہے۔ ان بادشاہوں سے ایسے مال کا قبول کرنا بھی جائز نہیں جس کے متعلق یہ علم ہو کہ وہ حلال ہے۔ (احیاء علوم الدین؛ مکاتیب امام غزالی

علم یقین اور تزکیہئ باطن کی تلاش
امام غزالی ؒ انتہائی عروج کے باوجود مطمئن نہ تھے۔ جاہ و منصب اور درس و تدریس کو ترک کر کے علم یقین اور دولت باطن کی تلاش میں نکل گئے۔ اپنے اس سفر کا ذکر اپنی مشہور کتاب المنقذ من الضلال میں کرتے ہیں ۔ انہوں نے طالبانِ حق کو چار فرقوں میں منقسم قرار دیا۔ یہ فرقے متکلمین، باطنیہ، فلاسفہ اورصوفیہ پر مشتمل ہیں۔ حق ان چار فرقوں سے متجاوز نہیں۔ ان میں سے کوئی ایک ضرور حق پر ہے کہ یہی چاروں گروہ تلاش حق کے راستوں پر گامزن ہیں۔ ان تنہائیوں میں مجھے جو انکشافات ہوئے اور جو کچھ حاصل ہوا اس کی تفصیل اور اس کا احاطہ تو ممکن نہیں لیکن لوگوں کے نفع کے لیے اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ صوفیا ء ہی اللہ کے راستے کے مالک ہیں۔ ، ان کی سیرت بہترین سیرت، ان کا طریق سب سے زیادہ مستقیم اور ان کے اخلاق سب سے زیادہ تربیت یافتہ اور صحیح ہیں۔ اگر عقلاء کی عقل، حکماء کی حکمت اور شریعت کے رمزشناسوں کا علم مل کربھی ان کی سیرت و اخلاق سے بہتر لانا چاہے تو ممکن نہیں، ان کے تمام ظاہروباطن ، حرکات و سکنا ت مشکوٰۃ نبوت سے ماخوذ ہیں اور نبوت سے بڑھ کر روئے زمین پر کوئی نور نہیں جس سے روشنی حاصل کی جائے ۔ (المنقذ من الضلال)

دوبارہ مسند تدریس پر جلوہ فرما:
امام غزالی ؒ کے مطابق مجاہدات اور ریاضات نے قلب میں ایسی صفائی پیدا کر دی کہ تمام حجاب اُٹھ گئے اور جس قدر شکوک و شبہات تھے آپ سے جاتے رہے۔ ایک مقام پر امام غزالی ؒ فرماتے ہیں ادھر منجانب اللہ میرے دل میں یہ بات القاء فرمائی گئی کہ بد مذہبی و بد عقیدگی کا مرض متعدی ہو چکا ہے۔ یہ بلا عام ہوتی جا رہی ہے ۔ اطباء و حکماء پر بھی اس کا رنگ چڑھنے لگا ہے۔ مخلوق الٰہی ہلاکت کے کنارے پر پہنچ چکی ہے اور قوم و ملت کی ناؤ منجدھار میں ہے۔ ایسے وقت میں گوشہ نشینی و عزلت گزینی نہ تو میرے لیے مفید ہو سکتی ہے اور نہ قوم کو اس سے فائدہ پہنچنے کی امید ہے۔ (المنقذ) پہلی اور موجودہ درس و تدریس میں فرق کو یوں بیان کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ میرے سابقہ درس و تدریس کی خدمت میں دنیاوی عزت و وجاہت اور اعزاز و مال کے حصول کو بھی دخل تھا اور میں اپنے کردار و گفتار ، قول و عمل سے لوگوں کو اس کی دعوت بھی دیتا تھا لیکن میرا درس و تدریس کی طرف یہ اقدام ترک جاہ و جلال کے لیے ہے اور رب تبارک و تعالیٰ پرخوب روشن ہے کہ میری یہی نیت ہے اور میں ہمہ تن مصروف ہوں کہ خود میرے نفس کی اور دوسروں کی اصلاح ہو۔ (المنقذ)

حضرت سیِّدُنا اما م غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کا مقام ومرتبہ:
حضرت سیِّدُنا علاَّمہ اسماعیل حقِّی علیہ رحمۃ اللہ الجلِّی سورہ طٰہٰ ، آیت نمبر کے تحت (تفسیر روح البیان)نقل فرماتے ہیں:حضرت سیِّدُنا امام راغب اصفہانی قدِّس سرہ، الرَّ بَّانی نے محاضرات میں ذکر فرمایاکہ صاحبِ حزب البحر عارف باللہ حضرت سیِّدُنا امام شاذلی علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں :''مَیں مسجد اقصیٰ میں محو ِ آرام تھا کہ خواب میں دیکھا مسجد اقصیٰ کے باہرصحن کے درمیان میں ایک تخت بچھا ہوا ہے اورلوگوں کا ایک جمعِ عظیم گروہ در گروہ داخل ہو رہا ہے، میں نے پوچھا :''یہ جمِّ غفیر کن لوگوں کا ہے ؟ مجھے بتایا گیا :''یہ انبیاء ورُسُلِ کرام علٰی نبینا وعلیہم الصلٰوۃ والسلام ہیں جوحضرت سیِّدُنا حسین حلاج رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے ظاہر ہونے والی ایک غلط بات پر ان کی سفارش کے لئے حضرت سیِّدُنامحمدمصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضرہیں۔'' پھر میں نے تخت کی طرف دیکھا توحضور نبء کریم، ر ء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس پر جلوہ فرماہیں اور دیگر انبیاء کرام جیسے حضرت سیِّدُنا ابراہیم ، حضرت سیِّدُناموسیٰ ،حضرت سیِّدُناعیسیٰ اورحضرت سیِّدُنا نوح علٰی نبینا وعلیہم الصلٰوۃ والسلام زمین پر بیٹھے ہیں ۔ میں ان کی زیارت کرنے لگا اور ان کا کلام سننے لگا۔

اسی دوران حضرت سیِّدُنا موسیٰ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے گفتگو کرتے ہوئے عرض کی:''آپ کا فرمان ہے: ''عُلَمَاء ُ اُمَّتِیْ کَأنْبِیَاء ِ بَنِیْ إسْرَائِیْلَ یعنی میری اُمّت کے علما ء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔'' لہٰذا مجھے ان میں سے کوئی دکھائیں۔'' تو اللہ کے پیارے حبیب ،حبیبِ لبیب عزَّوجلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرت سیِّدُنا اما م محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی طرف اشارہ فرمایا۔حضرت سیِّدُنا موسیٰ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک سوال کیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دس جواب دئیے۔تو حضرت سیِّدُنا موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ جواب سوال کے مطابق ہونا چاہے ،سوال ایک کیا گیا اور تم نے دس جواب دئیے تو حضرت سیِّدُناامام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نے عرض کی: ''جب اللہ عزَّوجلَّ نے آپ سے پوچھا تھا:''وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ ترجمہ کنز الایمان : تیرے ہاتھ میں کیا ہے۔'' تو اتنا عرض کر دینا کافی تھا کہ'' یہ میری چھڑی ہے۔'' مگرآپ نے اس کی کئی خوبیاں بیان فرمائیں۔''(یہ واقعہ فتاوٰی رضویہ ج،ص٠اورالنبراس شرح شرح العقائدصپربھی موجودہے)

علماء کرام کَثَّرَھُمُ اللہ تَعَالٰی فرماتے ہیں کہ گویاامام غزالی علیہ رحمۃاللہ الوالی ، حضرت سیِّدُنا موسی کلیم اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی بارگاہ میں عرض کررہے ہیں کہ''جب آپ کاہم کلام ،باری تعالیٰ تھاتوآپ نے وفورِمحبت اورغلبہ شوق میں اپنے کلام کوطول دیاتاکہ زیادہ سے زیادہ ہم کلامی کاشرف حاصل ہوسکے اوراس وقت مجھے آپ سے ہم کلام ہونے کاموقع ملاہے اورکلیم خداعزَّوجلّ سے گفتگوکاشرف حاصل ہواہے اس لئے میں نے اس شوق ومحبت سے کلام کوطوالت دی ہے۔''(کوثرالخیرات، )

تصانیف
امام غزالی ؒ نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ان کی تصانیف اور عمر کا حساب لگایا جائے تو روزانہ 16 صفحات بنتے ہیں۔ اس میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان کی تصانیف کا اکثر حصہ منقولات کی نسبت معقولات ، اجتہاد و رائے اور اصلاح و تجدید پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کئی ایک فنون پر کتب تحریر کیں۔
(i) تصوف و اخلاق:احیاء علوم الدین ، کیمیائے سعادت، اخلاق الابرار ، جواہر القرآن، جواھر القدس، مشکوٰۃ الانوار، منھاج العابدین، معراج السالکین۔
(ii) علم العقائد: تہافۃ الفلاسفہ، المنقذ من الضلال، المستظہری ، حقیقۃ الروح، الرسالۃ القدسیۃ، التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ، الاقتصاد فی الاعتقاد
(iii) فقہ: وسیط، بسیط، وجیز، خلاصۃ الرسائل، مجموعہ فتاویٰ ، بیان القولین للشافعی، تعلیقۃ فی فروع المذھب
(iv) اصول فقہ: المستصفیٰ فی اصول الفقہ، شفاء العلیل، ماخذ فی الخلافیات، مفصل الخلاف فی اصول القیاس، تحصین الماخذ
(v) منطق و فلسفہ:مقاصد الفلاسفۃ ، معیار العلم فی المنطق، محک النظر، میزان العمل

امام غزالی ؒ کے علمی و عملی کمالات، تجدیدی و اصلاحی کارناموں اور ان کی جامع شخصیت نے عالم اسلام پر گہرا اثر ڈالا ۔ ان کی گرانقدر تصانیف نے فکر و دانش کے نئے راستے عطا کیے۔ انہوں نے دیگر علوم کی بجائے اصلی اور حقیقی تصوف کو اطمینان قلب و روح کا ذریعہ قرار دیا۔ امام غزالی ؒ کی شخصیت آج بھی امت مسلمہ میں ایک آئیڈیل حیثیت کی حامل ہے۔ ان کی کتب آج بھی امت مسلمہ کے لیے مینارہئ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی فکر پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

محترم قارئین:آخر ایک دن موت ہے چنانچہ حضرت سیِّدُنااما م محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی تقریباًنصف صدی آسمانِ علم وحکمت کے اُفق پر آفتاب بن کر چمکتے رہے ۔ بالآخر ـ طوس ٥٠٥؁ہ میں وصال فرماگئے۔ بوقتِ وصال آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عمر مبارک55 سال تھی۔

خُدَا رَحْمَتْ کُنَنْدْ اِیں بَندْگانِ پَاکْ طِینَتْ رَا یعنی ا للہ تعالیٰ اپنے ان نیک خصلت بندوں پر رحمت نازل فرمائے ۔(آمین
(اللہ عزَّوجلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہمارسی مغفرت ہو ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم) (ماخوذ از اتحاف السادۃ المتّقین ، تفسیر روح البیان،فتاوی رضویہ،النبراس شرح شرح العقائد،) کوثرالخیرات وغیرہا)
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 545935 views i am scholar.serve the humainbeing... View More