وہ عابدوں کی زینت کہلائے

محترم قارئین !جیسا کہ ہم گذشتہ سے پیوستہ نیک و پاکباز ہستیوں کی سیرت پر کلام کررہے ہیں اس صف اوّل کی ہستیوں میں ایک عظیم بزرگ ہستی جوکہ عابدوں کی زینت کہلائے آئیے ان کے بارے میں جان کر اپنی دل کی بنجر زمین کو محبت و عقیدت کے پانی سے سیراب کرتے ہیں

( حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ)
کنیت اور لقب :
حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ چوتھے امام ہیں آپ کی کنیت ابو محمد ، ابوالحسن اور ابوبکر ہے۔
حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ کا لقب سجاد اور زین العابدین ہے۔
ولادتِ باسعادت :
حضرت علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ میں ہجرت کے تینتسویں (٣٣) برس پیدا ہوئے، بعض روایات میں آپ کا سنِ ولادت چھتیس (٣٦) یا اڑتیس (٣٨) ہجری گردانا جاتا ہے۔
حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ طیبہ طاہرہ عابدہ کا اسمِ گرمی شہر بانو ہے۔
وصال مبارک :
امام زہری جب کبھی حضرت امام زین العابدین کا تذکرہ کرتے زارو قطار روتے اور کہتے کہ ۔
'' وہ واقعی زین العابدین ہیں، جو ایران کے شہنشاہ یزد گرد کی بیٹی سے تولد ہیں، یزد گرد نوشیروانِ عادل کی اولاد میں سے تھے۔''
حضرتِ زین العابدین رضی اللہ عنہ نے ١٨ محرم الحرام ٩٤ ہجری میں وصال فرمایا، اور بعض راویوں نے وصال شریف ٩٥ ہجری لکھا ہے۔

زین العابدین کی وجہ تسمیہ :
آپ کے زین العابدین کے اسم گرامی کے معروف ہونے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ ایک شب نماز تہجد میں مشغول تھے، کہ شیطان ایک سانپ کی شکل میں نمودار ہوا۔ تاکہ اس ڈراؤنی شکل سے آپ کو عبادت سے باز رکھ کر عیش و نشاط میں مشغول کردے، آپ نے اس کی طرف توجہ نہ فرمائی یہاں تک کہ سانپ نے آپ کے پاؤں کا انگوٹھا اپنے منہ میں ڈال لیا، لیکن آپ پھر بھی اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے، سانپ نے آپ کے انگوٹھے کو اس قدر سختی سے کاٹا کہ آپ کو درد ہوا۔ آپ نے پھر بھی سانپ کی طرف توجہ نہ کی آپ پر اللہ تعالیٰ نے انکشا ف فرمادیا کہ وہ شیطان ہے، آپ نے اسے بری طرح زدو کوب کیا، اور پھر فرمایا :
'' اے ذلیل و خوار اورکمینے یہاں سے دور ہوجا۔''
جب سانپ وہاں سے چلا گیا تو آپ کھڑے ہوگئے تاکہ درد میں افاقہ ہوجائے پھر آپ کو ایک آواز سنائی دی لیکن بولنے والانظر نہ آیا ، کہنے والے نے کہا۔
'' آپ زین العابدین ہیں، آپ زین العابدین ہیں' آپ زین العابدین ہیں۔

دنیا کی آگ سے نہ ڈر :
ایک مرتبہ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ اپنے مکان پرنماز پڑھ رہے تھے کہ مکان کو آگ لگ گئی، آپ سجدہ ہی میں سر بسجود رہے، لوگوں نے بہت شور مچایا کہ ۔ٖ
'' اے رسول اللہ کے بیٹے اے رسول اللہ کے بیٹے آگ لگ گئی ، آگ لگ گئی۔''
پھر بھی آپ نے سر سجدہ سے نہ اٹھایا، جب آگ ٹھنڈی ہوگئی تو آپ سے دریافت کیا گیا۔
''آپ آگ سے خاموش کیوں رہے؟''
حضرت زین العابدین نے فرمایا۔
''محشر کی آگ کے خوف سے یہ آگ بھول گیا۔''
چڑیوں کا تسبیح پڑھنا :
ایک راوی سے مروی ہے کہ میں ایک روز حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ کے ہاں تھا کہ آپ کے گرد اگرد بہت سی چڑیاں ذبح کی جارہی تھیں تو آپ نے فرمایا :
'' اے فلاں تمہیں معلوم ہے کہ یہ چڑیاں کیا کہہ رہی ہیں؟''
اس شخص نے کہا ۔
'' حضور میں کچھ علم نہیں رکھتا۔''
حضرت زین العابدین نے فرمایا :
'' یہ چڑیاں اپنے رب کی تسبیح پڑھ رہی ہیں اور آج کے لیے روزی نہیں مانگتیں۔
ہرن کا آپ کے ساتھ کھانا کھانا:
ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اپنے غلاموں، بچوں اور دیگر رفقاء کے ہمراہ جنگل میں گئے اور چاشت کے کھانے کے لَیے دستر خوان بچھادیا ، دیکھتے دیکھتے وہاں ایک ہرن آکر ساکت ہوگیا، آپ نے اس کی طرف چہرہ کرکے کہا۔
'' میں علی بن حسین بن علی بن ابی طالب ہوں اور میری والدہ محترمہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آؤ اور ہمارے ساتھ چاشت کا کھانا کھاؤ۔''
ہرن آیا اور جو کچھ اس نے پسند کیا کھایا اور صحرا کی جانب واپس چلا گیا۔
غلاموں میں سے ایک نے آپ کی خدمت میں عرض کیا۔
'' یا حضرت ہرن کو دوبارہ بلایئے۔''
حضرت زین العابدین نے فرمایا ۔
''ہم اسے پناہ دیں گے تم اسے مت چھیڑنا۔''
اس نے عرض کیا۔
'' حضور ہم اسے ہر گز نہیں چھیڑیں گے۔''
حضرت زین العابدین نے فرمایا۔
'' اے ہرن میں علی بن حسین بن علی بن ابی طالب ہوں میری والدہ محترمہ رسول اللہ کی بیٹی ہیں۔''
وہ یہ سن کر پھر آگیا اور دستر خوان کے قریب ٹھہر گیا اور آپ کے ہمراہ کچھ کھانا شروع کردیا۔ ان اصحاب میں سے کسی نے ہرن کی پشت پردست دراز کیا تو ہرن بھاگ گیا۔
پھر حضرت زین العابدین نے فرمایا :
'' تم نے میری پناہ کو سلامت نہیں رہنے دیا اب میں تم سے کسی قسم کی بات نہ کروں گا۔''
اونٹنی کی کاہلی دور فرمانا :
ایک روز کا ذکر ہے کہ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ کی اونٹنی چلتے چلتے راستہ میں کاہلی کرنے لگی، آپ نے اسے بٹھا کر عصا دکھا کر کہا کہ ۔
''تیزی سے چلو ورنہ اس عصا سے تمہاری مرمت کی جائے گی۔''
اونٹنی نے آپ کی یہ ڈانٹ سن کر تیز چَلنا شروع کردیا اور ازاں بعد رفتار میں کبھی کاہلی نہ کی ۔
ہرنی کا بارگاہِ امام میں فریاد کرنا :
ایک روز حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اپنے رفقاء کے ہمراہ جنگل میں تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک ہرنی آئی اور آپ کے سامنے کھڑی ہو کر اپنا پاؤں زمین پر مار کر زادو قطار چیخنے لگی۔ آپ کے رفقاء نے آپ سے دریافت کیا۔
'' اے ابن رسول اللہ، یہ ہرنی کیا کہتی ہے ۔''
حضرت زین العابدین نے فرمایا۔
'' ہرنی کہتی ہے کہ کل فلاں قریشی میرا بچہ اٹھالایا ہے اور میں نے کل سے بچہ کو دودھ نہیں پلایا۔''
یہ سن کر بعض رفقاء کے دل میں شک پیدا ہوا، آپ نے اس قریشی کو بلایا وہ آگیا تو حضرت زین العابدین نے فرمایا۔
'' یہ ہرنی شکایت کررہی ہے کہ تم نے اس کا بچہ اٹھالیا ہے اس نے اسے دودھ بھی نہیں پلایا ۔ اب اس نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں تجھے کہوں کہ تو اس کا بچہ واپس دے دے تاکہ یہ اسے دودھ پلائے۔ پھر بچہ کو دودھ پلانے کے بعد تجھے واپس لوٹا دے گی۔
قریشی نے آپ کی بات مانتے ہوئے بچہ لا کر حاضر کردیا۔ ہرنی نے بچہ کو دودھ پلایا تو آپ نے قریشی سے کہا کہ وہ بچہ کہ آزاد کردے ۔ قریشی نے آپ کے کہنے پر بچہ کو آزاد کردیا اور آپ نے دونوں ماں بیٹا یعنی ہرنی اور
اس کے بچہ دونوں کو آزاد کردیا، وہ پھر اچھلتی کودتی خوشی سے واپس چلی گئی ازاں بعد آپ کے رفقاء نے آپ سے دریافت کیا۔
'' یا ابن رسول اللہ یہ کیا کہتی ہے؟''
حضرت زین العابدین نے فرمایا ۔
'' وہ تمہیں جاتے ہوئے بہتر دعاؤں سے یاد کرتی تھی۔
آخری وقت سے مطلع فرمانا :
جس شب حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ نے وصال فرمایا تو آپ نے اپنے صاحبزادہ محمد باقر سے فرمایا۔
'' صاحبزادہ میرے واسطے وضو کے لیے پانی لاؤ۔''
وہ پانی لائے تو وہ پانی ٹھیک نہیں تھا یعنی اس میں چوہا مرا ہوا تھا اور اندھیری رات تھی اس لیے اچھی طرح دیکھ نہ سکے، پھر آپ کے لیے مزید پانی لایا گیا جس سے آپ نے وضو کرکے فرمایا۔
'' اے میرے فرزند آج میرا وقت وصال ہے۔''
ازاں بعد اپنے فرزند کو کچھ وصیتیں کیں۔
حضرت امام زین العابدین کے فراق میں اونٹنی کی موت :
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی ایک اونٹنی تھی، جو مکہ معظمہ جاتی تو آپ اس کے پالان کے آگے چابک لٹکا دیتے ، اس لیے تمام راستہ اسے چھڑی بھی مارنی نہ پڑتی اور آنے جانے میں کسی قسم کے مشکل کا سامنا نہ ہوتا جب آپ کا وصال شریف ہوا تو وہ اونٹنی آپ کی قبر کے سرہانے آکر اپنی چھاتی زمین پر رکھ کر آہ زاری کرتی۔ حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ نے اسے اس حالت میںدیکھ کر فرمایا۔
'' اے ناقہ اٹھ اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے ۔''
اونٹنی نہ اٹھی تو حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔
'' اسے چھوڑ دو وہ جارہی ہے۔''
ازاں بعد وہ اونٹنی تین یوم زندہ رہ کر پھر موت کا مزہ چکھ گئی۔
محترم قارئین:میری کوشش ہوتی ہے کہ آپ کے لیے معتمد و مصدقہ ،قابل نفع علم پیغام لے کر حاضر ہوں ۔میں کس حد تک کامیاب ہوایہ آپ کے بھیجے کے پیغامات ہی سے اندازہ ہوگا۔اللہ عزوجل ہم سے راضی ہوجائے ۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 545921 views i am scholar.serve the humainbeing... View More