لاہور جنرل ہسپتال کے یوٹرن کی بندش

مریض سے زیادہ ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھا شہزادناصرایڈووکیٹ پریشان اورحواس باختہ ہے ۔گاڑی کی پچھلی سیٹ پربیٹھا نیم بیہوش بیمارنوجوان اس کاعزیز ہے ،اس کی اچانک طبیعت ناسازہونے پرشہزادناصرا سے لاہور جنرل ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میںلے جارہا ہے۔پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعداس نے اپنے دائیں طرف جنرل ہسپتال کی عمارت دیکھی تواس کی جان میں جان آئی ۔ اس نے گاڑی ڈرائیوکرنے کے ساتھ ساتھ اپنی گردن گھما کرپچھلی سیٹ پربیٹھے اپنے عزیزکو تسلی دی مگر خوداسے حوصلہ دینے کیلئے وہاں کوئی نہیں ہے کیونکہ فیروزپورروڈ پرریپڈٹرانزٹ سسٹم کی تعمیرجاری ہے اوروہاں گاڑیوں کی آمدورفت غیرمعمولی طورپرسست ہے ۔اس وقت شہزادناصرکے دماغ میں عجیب عجیب خیال آرہے ہیں وہ سوچ رہا ہے اگرمریض کوہسپتال لے جاتے ہوئے خدانخواستہ راستے میں کچھ ہوگیاتو میں اس کی ضعیف ماں کاسامنا کس طرح کروں گااوراس کے بیمارباپ کوکیا جواب دوں گا۔ اپنے بیمارعزیز کی بیچارگی اوراپنی بے بسی پرشہزادناصرایڈووکیٹ کی آنکھوں کابندٹوٹ گیا ۔ وہ اپنے عزیزکویوں گاڑی میں مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا مگردوسری طرف سڑک پرگاڑیوں کی ایک طویل قطار اس کے ارادے اور احساسات پرکاری ضرب لگارہی ہے۔اچانک اسے خیال آیا کہ گاڑی سڑک پربندکردوں اوراپنے نیم بیہوش عزیزکواپنے کندھوں پراٹھا کرہسپتال کی طرف دوڑپڑوں پھراسے سڑک کے درمیان دونوں طرف نصب اونچے اونچے جنگلے دکھائی دیے اورمریض کواٹھا کریہ جنگلے پھلانگنا اس کے بس کی بات نہیں تھی ۔جس وقت وہ لاہور جنرل ہسپتال کے آﺅٹ ڈوروالے گیٹ کے سامنے پہنچا تو اسے ایک شدیددھچکا لگا کیونکہ وہاں پچھلے بائیس چوبیس سال سے موجود یوٹرن بندکردیا گیا ہے ،اب وہ پیچھے بھی نہیں مڑسکتا لہٰذا آگے چلنا اس کی مجبوری ہے مگراسے دوردورتک یوٹرن نظرنہیں آرہا ۔شدید ڈپریشن کے سبب اس کے صبرکاپیمانہ لبریز ہوگیا اوراس نے ارباب اقتداراورنظام کومخصوص جذباتی اندازمیں کوسنا شروع کردیا ۔لاہور جنرل ہسپتال سے تقریباًپانچ کلومیٹر آگے پہنچ کراسے آشیانہ سکیم کے بالمقابل یوٹرن مل گیا مگریہاں گاڑیوں کاغیرمعمولی رش ہے اورٹریفک کابہاﺅبھی انتہائی سست ہے ۔اس دوران اس کے بیمار عزیز کی طبیعت مزید بگڑ گئی اوراس کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوگئی ۔شہزادناصرایڈووکیٹ کے اوسان خطاءہوگئے اوراس نے اپنا ایک ہاتھ کار کے ہارن پررکھ دیا مگراس کی یہ کوشش بھی بے سود رہی کیونکہ وہ کسی ایمبولینس میں نہیں بلکہ ایک نجی کار میں بیٹھاہے اوراس کے پیچھے گاڑیوں کی طویل قطار میں دوعددایمبولینس گاڑیاں بھی اپنے مخصوص ہارن بجارہی ہیں مگران کیلئے بھی راستہ نہیں بن رہا ۔ ٹریفک وارڈن بھی وہاں موجود نہیں ہیں اورکچھ شہری اپنی مددآپ کے تحت گاڑیوں کیلئے راستہ بنارہے ہیں ۔تقریباً پندرہ منٹ بعد وہ یوٹرن سے ہسپتال کی طرف مڑنے میں کامیاب ہوگیا مگر دونوں ایمبولینس گاڑیاں ابھی تک وہاں پھنسی ہوئی ہیں۔دوسری گاڑیاں غیرمعمولی سست رفتار کے ساتھ چل رہی ہیں ۔ شہزادناصرایڈووکیٹ کے چہرے پرکرب کے آثارنمایاں ہورہے ہیں مگروہ ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھے بیٹھے تڑپنے اورچیخنے کے سوا کچھ نہیں کرپارہا ۔پانچ منٹ کافاصلہ پچاس منٹ میں طے کرنے کے بعدوہ اپنے بیمار عزیز کولاہورجنرل ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچا جہاں سے ابتدائی طبی امدادفراہم کی جارہی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے شہزادناصرکی دعاسن لی اوراس کے بیمار عزیز کی جان بچادی ۔

اس واقعہ نے شہزادناصرایڈووکیٹ کی روح تک کوجھنجوڑدیا اس نے ممتازقانون دان اور عدالت عظمیٰ کے سینئر ایڈووکیٹ آغاابوالحسن عارف کی وساطت سے عدالت عالیہ میں رٹ دائر کردی جس کامقصددوسرے شہریوں کواس اذیت سے بچاناہے۔اس رٹ کی سماعت عدالت عالیہ لاہور کے جج مسٹرجسٹس ناصرسعیدشیخ کررہے ہیں ۔اس رٹ میں ریپڈٹرانزٹ سسٹم کے متعلقہ اداروں کوفریق بناتے ہوئے لاہور جنرل ہسپتال کے واحدیوٹرن کی بحالی کیلئے استدعاکی گئی ہے۔لاہورجنرل ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد حسن نے بھی یوٹرن کی بحالی کیلئے متعلقہ حکام کولیٹر لکھے ہیں مگر ان خطوط کاکوئی سنجیدہ نوٹس نہیں لیا گیا ۔دوسری طرف ایک ایسا شخص جولاہور جنرل ہسپتال کامقامی نہیں اس کی طرف سے یوٹرن کی بحالی کی رٹ دائرہونے پرمقامی افراد میں بھی دلچسپی پیداہوئی اور انہوں نے بھی پیشی پرجاناشروع کردیاجہاں چیف انجینئر ٹیپااورسی ٹی اولاہوربھی پیش ہوتے ہیں۔آغاابوالحسن عارف ایڈووکیٹ اپنے دوست شہزادناصر ایڈووکیٹ کی طرف سے پیش ہورہے ہیں اوران کے پاس بات کرنے کیلئے کافی موادموجود ہے مگرابھی تک بحث کاآغازنہیں ہوا۔ 31جولائی 2012ءکی صبح بھی مقامی افراد عدالت عالیہ جانے کیلئے روانہ ہوئے تواظہرشاہ کے والدبزرگ سیّداکبرعلی شاہ جولاہورجنرل ہسپتال کے آﺅٹ ڈوروالے گیٹ کے سامنے دکاندار ی کرتے ہیں،انہوں نے انہیں اپنی دعاﺅں کے ساتھ رخصت کیاکیونکہ وہ راستہ بندہونے کے سبب اب لاہور جنرل ہسپتال کی جامعہ مسجدمیں باجماعت نمازادانہیں کرسکتے تھے جہاں وہ پچھلے اٹھائیس برسوں سے نمازاداکرتے رہے تھے۔مگرچندگھنٹوں بعد عدالت سے واپسی پرجب انہیں بتایا گیا کہ ابھی کوئی فیصلہ نہیںہوا تووہ یہ اطلاع سن کرروزہ کی حالت میں اچانک منہ کے بل زمین پرگرپڑے انہیں فوری طور پر اٹھا کر ایک رکشہ میں سوارکرایا گیا اورانہیں لے کرجانے والارکشہ سروس روڈسے گزرتے ہوئے جب غازی روڈ چوک میں پہنچا تووہاں اسے ون وے پرڈال دیا گیا جو ٹریفک میں پھنس گیا اورتقریباً تیس منٹ کی جدوجہد کے بعدوہاں سے نجات ملی مگریہ تاخیر سیّداکبرعلی شاہ کیلئے زہرقاتل ثابت ہوئی اوروہ لاہور جنرل ہسپتال میں ابتدائی طبی امدادکی فراہمی کے دوران انتقال کرگئے ۔

اب سوال یہ پیداہوتا ہے اگرگلاب دیوی ہسپتال ،چلڈرن ہسپتال اورخادم پنجاب کے اپنے نجی اتفاق ہسپتال کیلئے یوٹرن چھوڑاجاسکتا ہے تولاہور جنرل ہسپتال جوایک بڑاادارہ ہے اورپورے ملک سے نیورو کے مریض یہاں لائے جاتے ہیں اس کاواحدیوٹرن بندکردیا گیا ہے اورکہا گیا ہے کہ لاہور جنرل ہسپتال آنیوالی ایمبولینس گاڑیاں غازی چوک سے یوٹرن لے کرسروس روڈپرجائیں اوروہاں سے ایمرجنسی والے گیٹ میں داخل ہوںلیکن بیشتر اوقات سروس روڈپرٹریفک کانظام معطل رہتا ہے اوراگردوردرازسے آنیوالی ایمبولینس اس اطلاع سے بے خبرپرانے یوٹرن کی طرف چلی جائے تووہ راستہ بندہونے کے نتیجہ میں اسے تقریبا پانچ چھ کلومیٹر آگے جاکریوٹرن ملے گا اوراس دوران مریض کی جان بھی جاسکتی ہے ۔مریض کی زندگی بچانے کیلئے ایک ایک پل اورایک ایک منٹ بہت قیمتی ہوتا ہے۔ریپڈٹرانزٹ سسٹم سے جہاں روزانہ چندہزارمسافرمستفیدہوں گے وہاں لاہور جنرل ہسپتال کی ایمرجنسی اورآﺅٹ ڈورمیں اوسطاً ہرروز پندرہ سے بیس ہزارمریض آتے ہیںتوکیا مسافروں کی سہولت کیلئے بیمارانسانوں کی زندگی داﺅپرلگاناعقلمندی ہوگی ۔

لاہور جنرل ہسپتال کایوٹرن بندہونے سے صرف بیس ہزار مریض متاثر نہیں ہوں گے بلکہ ایک ملین کی آبادی کے روزمرہ کے معمولات پرمنفی اثرپڑے گا ۔ جنرل ہسپتال کی حدودمیں ایک جامعہ مسجدبھی ہے جہاں ہسپتال کے سامنے والی آبادی سے لوگ نمازکیلئے آتے ہیں اورمسجد کے بالکل ساتھ آﺅٹ ڈورواقع ہے جہاں محمدپورہ ،مست اقبال روڈ،سپانوالہ روڈ،مین بازارچونگی امرسدھو،فردوس پارک ،غازی روڈ،قینچی امرسدھو،پنجاب سوسائٹی،ملت پارک ،پل بندیانوالہ اوردوسری آبادیوں سے ہزاروں مردوخواتین سمیت بچے اورضعیف شہری آتے ہیں جہاں ان کاایک روپے کی پرچی میں ڈاکٹری معائنہ کیا جاتااورانہیں مفت ادویات فراہم کی جاتی ہیں اوراگریہ یوٹرن بندرہا تو مقامی غریب لوگ نجی ڈاکٹرزاورمیڈیکل سٹورمالکان کے رحم وکر م پرآجائیں گے کیونکہ کسی بیمار،بچے اورضعیف شہری کیلئے دوکلومیٹر پیدل چلنا اورپل چڑھناآسان نہیں ہے۔ جنرل ہسپتال کے اندربوائزکیلئے ایک سرکاری مڈل سکول بھی قائم ہے اور مذکورہ آبادیوں کے ہزاروں معصوم بچے وہاں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں ،ان ننھے طلبہ کیلئے بھی کافی مشکلات پیداہوگئی ہیں۔ جنرل ہسپتال سے ملحقہ آبادیوں میں کوئی قبرستان نہیں ہے اوراس طرف کی آبادیوں سے لوگ اپنے پیاروں کاجنازہ پڑھنے کے بعد جسدخاکی سپردخاک کرنے کیلئے جنرل ہسپتال کے سامنے والی آبادی میں موجوددوقبرستانوں کارخ کرتے ہیں جوجنگلے نصب ہونے سے انتہائی دشوارہوجائے گاکیونکہ جنازہ اٹھاکرپل چڑھنا یاجنگلے پھلانگنا ممکن نہیں ہوگا۔

تھوڑی رقم خرچ کرتے وقت زیادہ سوچ بچارکرناپڑتی ہے اورجس ملک کے پاس محدودوسائل ہوں اوروہ بیرونی قرض کے بوجھ تلے دباہووہاں تودستیاب وسائل کی ایک ایک پائی صرف ناگزیرضرورت کیلئے استعمال کی جانی چاہئے ۔شہر لاہورجس کوپیرس بنانے کادعویٰ کیا جاتا ہے اس کی کئی آبادیوں کے مکینوں کواحتجاج کے باوجودپینے کیلئے صاف پانی نہیں ملتا اورجوپانی دستیاب ہے اس سے پیٹ کی مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں،جس معاشرے کو ا س قسم کی صورتحال درپیش ہوکیاوہاں پیسہ غیرضروری سڑک بنانے پرصرف کیا جاناچاہئے یاواٹرفلٹریشن پلانٹ لگانے پرخرچ ہوناچاہئے۔لاہور میںفراہمی آب کی طرح نکاسی آب کانظام بھی ناکارہ اورناکام ہوچکا ہے ۔ہرسال کی طرح رواں برس بھی مون سون کی پہلی بارش کے بعد لکشمی چوک سیلاب کامنظر پیش کررہا تھا ۔سوال یہ پیداہوتا ہے کہ وہاں ہرسال پانی کھڑاکیوں ہوتا ہے ،پونے پانچ سال میںنکاسی آب کاخاطرخواہ بندوبست کیوں نہیں کیا گیا۔کیاصرف سڑکوں کی تعمیراوررخوانچہ فروشوں کیخلاف آپریشن سے معاشرے کی بدصورتی دورہوجائے گی ۔جہاں لوگ دووقت کی روٹی کیلئے ترس رہے ہوں اورانہیں روزگارفراہم کرنے کی بجائے الٹا روزگار سے محروم کردیا جائے،بجلی کی عدم دستیابی کے سبب کارخانے اورفیکٹریاں بندہوں اورہنرمندافراداپنے اپنے گھر بیٹھ جائیں ، شہریوں کوپینے کاصاف پانی میسر نہ ہوجبکہ حکمران خودفرانس کاپانی پیتے ہوں،عوام کوصحت کی جدیدسہولیات دستیاب نہ ہوں اورحکمرانوں کے بخاریا زکا علاج بھی لندن اورپیرس کے ہسپتال میں ہوتاہو ،عام آبادیوں میں تعلیمی ادارے،ڈسپنسریاں،تفریحی پارک اور بچوں کیلئے پلے گراﺅنڈ نہ ہوں وہاں اچھی خاصی سڑک کوتوڑکرنیا منصوبہ شروع کرنے کاکیاجوازہے۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ریپڈٹرانزٹ سسٹم سمیت کوئی بھی منصوبہ شروع کرنے کیلئے پنجاب اسمبلی کے اندریاصوبائی کابینہ کے اجلاس میں اس پربحث کی گئی ہویااس کی باضابطہ منظوری لی گئی ہو۔ہمارے ہاں بیشترمنصوبے پہلے شروع ہوجاتے ہیں اوران کی منظوری بعد میں لی جاتی ہے اوربعض منصوبوں کی منظوری کاتوتکلف بھی نہیں کیا جاتا۔میرے نزدیک ریپڈٹرانزٹ سسٹم معاشی طورپرمفلوج ملک پرایک بوجھ کے سواکچھ نہیں ہے ۔اس رقم سے اندھیروں میں غرق پنجاب کی انڈسٹری اورعام صارفین کیلئے بجلی پیداکی جاسکتی تھی ،پورے پنجاب میں لاکھوں واٹرفلٹریشن پلانٹ لگائے جاسکتے تھے،ہزاروں تعلیمی ادارے تعمیر ہوسکتے تھے ،لاکھوں نادارمریضوں کامفت علاج ہوسکتا تھا ،ہزاروں معمولی جرائم میں گرفتارقیدیوں کاجرمانہ اداکرکے ان کی رہائی کاراستہ ہموارکیا جاسکتا تھا ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126712 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.