ٹائون ملازمین کی ابتر صورتحال اور "چہیتوں" کی عیاشیاں

اگست کے مہینے کا دوسرا ہفتے ختم ہونے کو ہے لیکن ٹاؤن ون پشاور کے ملازمین اور پنشنرز تنخواہوں کیلئے چکر کاٹ رہے ہیں اور ابھی تک ان لوگوں کو جولائی کی تنخواہیں اور پنشن نہیں مل سکی ہیں -رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں اپنے ہی تنخواہوں کیلئے چکر کاٹنے والے ملازمین میں سب سے زیادہ نچلے طبقے کے مزدور شامل ہیں جنہیں ہمارے ہاں کلرک اور کلاس فور کہا جاتا ہے جن کا استحصال پہلے سے بھی ہورہا تھا اور اب بھی دھڑلے سے جاری ہے یہی حال پنشنر زکا بھی ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال اس ادارے میں صرف کئے تھے اور اپنے پنشن کیلئے دفاتر کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں - اندازہ ہے کہ اپنے آپ کو پشاور کے "سپوت"قرار دینے والے وزیر عید پر ان ملازمین کو گذشتہ مہینے کے تنخواہ دیکر جان چھڑا لینگے اور اپنی "واہ واہ "بھی کروالیں گے لیکن کیا یہ مالی بحران کا مستقل شکار ٹاؤن ون کا حل ہے !

کچھ عرصہ قبل جب میں محکمہ " بل دی آت"کی رپورٹنگ کرتا تھا تو ٹائون ون کے دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ان دفاتر کے چکروں سے یہ پتہ چلا کہ اس ادارے کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے جس کی کرسی اس ادارے میں سب سے زیادہ مضبوط ہے وہ اتنا ہی زیادہ کرپشن کررہا ہے -اس ادارے میں ایسے ایسے لوگ میں نے خود دیکھے ہیں جن کی بنیادی تعلیمی معیار تو کچھ نہیں لیکن ان کی سب سے بڑی صلاحیت " جی حضوری" ہے اور اس صلاحیت کے بدلے یہ عوام کے خون پسینے کی کمائی تنخواہ کی شکل میں لے رہے ہیں ایسے " ٹیوب ویل آپریٹر" بھی اس ادارے کی ملازمین میں شامل ہیں جو تنخوا ہ تو ٹائون ون سے لے رہے ہیں لیکن انہوں نے اپنی ملازمت پر کسی اور کو تعینات کیا ہے اور وہ " چمچہ گیری"میں مصروف ہیں اوراپنے محکمے کے " بڑوں"کیلئے کام کرتے ہیں کچھ ایسے لوگ بھی ان میں شامل ہیں جو تنخواہیں تو اس ادارے سے لے رہے ہیں لیکن وہ "افسران اور صاحبان" کے گھروں میں سبزیاں لانے کا کام کرتے ہیں چونکہ انہیں" آشیرباد" حاصل ہے اس لئے ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں-

ان میں نچلے سطح پر کام کرنے والے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو روزانہ لاکھوں روپے آمدنی پید ا کررہے ہیں اگر کسی کو یقین نہیں توشاہی باغ روڈ پر واقع سبزی منڈی میں صبح سویرے چکر لگاکر دیکھ لیں یہاں پر تعینات ٹائون ون کے اہلکار سبزی والے دکانداروں اور تھڑے پر کام کرنے والے افراد سے کتنی " پیداگیری"کرتے ہیں یہ ماڈرن انداز کا "بھتہ "کہاں پر استعمال ہوتا ہے کسی کو پتہ ہی نہیں یہ صرف ایک شاہی باغ بازار کی بات ہے جہاں پر سینکڑوں تھڑے اور دکاندار صبح چار بجے سے شام چھ بجے تک بیٹھے رہتے ہیں اس بازار سے ہزاروں کی آمدنی ٹائون ون کے مخصوص اہلکار لیتے ہیں جبکہ یہاں پر نام نہاد "یونین" کے نمائندے بھی موجود ہیں جو ان غریبوں سے زبردستی پیسے وصول کرتے ہیں- گلبہار کی پرانی فروٹ منڈی ` گڑ منڈی اور ہشتنگری میں ریلوے پھاٹک پر قائم غیر قانونی تھڑے اور دکانیں جن کی تعدادسینکڑوں پر مشتمل ہیں ان سے وصولی الگ ہے فٹ پاتھ پر بیٹھے لوگوں سے بھی " بھتہ وصولی " کی جاتی ہیں یہ آمدنی کہاں پر جارہی ہیں اور کون اس کی سرپرستی کررہا ہے کیا اس محکمے کے ذمہ دار وں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں یا انہیں بھی اس میں "حصہ"مل رہا ہے سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس عمل میں چھوٹے سطح کے ملازمین کو استعمال کیا جارہا ہے اس ادارے کے چہیتے افسران کیلئے لاکھوں کی نئی گاڑیاں ایسے وقت میں لے لی گئی ہیں جب ادارہ مالی بحران کا شکار ہے جبکہ چہیتوں کے زیر استعمال پرانی گاڑیاں ٹائون ون کے دفتر میں کھڑے کھڑے تباہ ہورہی ہیں اورآڈٹ والوں کی آنکھوں پر بھی پٹی بندھی ہیں کہ ادارے کی سربراہی کرنے والے کے پاس ایک گاڑی کے ہوتے ہوئے دوسری گاڑی لینے کی ضرورت کیا ہے لیکن چونکہ " بڑوں "کے چہیتوں میں شمار ہوتے ہیں اس لئے یہاں بھی صورتحال کنٹرول میں ہیں-

یہی چہیتے افسران ملازمین کو "تقسیم کرو" کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو لوگ ان افسران کی" جی حضوری "کرسکتے ہیں انہیں تنخواہیں بھی مل جاتی ہیں جبکہ جن میں " لچک "نہیں ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا ہے لیکن انہیں تنخواہیں بھی نہیں مل رہی اور وہ ہر ماہ اپنی تنخواہ کیلئے آواز اٹھانے پر مجبور ہیں- اداروں میں جب سفارش اور من پسند افراد کو بھرتی کیا جاتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ جب غیر ضروری لوگوں کو خوشنودی کی خاطر لیا جائے تو اس کا اثر اداروں میں ایسے ہی نکلتا ہے اب حال یہ ہے کہ پشاور شہر میں گندگی اٹھانے والی گاڑیاں کچرے کا ڈھیر بن چکی ہیں اسی باعث جا بجا شہر میں گندگی کے ڈھیرپڑے ہوئے ہیں اور اس سے اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے " بل دی آت"والے " بڑے " پشاور شہر کے عوام سے کتنی محبت رکھتے ہیں چونکہ ان "بڑوں" کے اپنے گھر پوش علاقوں میں ہیں جہاں پر روزانہ صفائی بھی ہوتی ہیں پانی کا چھڑکائو بھی کیا جاتا ہے اس لئے انہیں عوام جن کے سر پر " بڑے "بن بیٹھے ہیں اپنی ہی طرح نظر آتے ہیں - ہمارے اداروں میں سب سے بڑی مصیبت یہی ہے کہ اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے شخصیتوں کو مضبوط کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ادارے تباہ حال ہیں -

ٹائون ون کے ملازمین اپنی بنیادی تنخواہوں کیلئے صبح و شام روتے پھرتے ہیں جبکہ " بڑوں " کے چمچے ٹھیکوں میں کمیشن لینے کے چکر میںلگے ہیں چہیتوں کیلئے ڈیڑھ لاکھ روپے ماہوار پر نئے دفتر لئے جارہے ہیں جس کی منظوری بھی دی گئی ہیں اور جلد ہی ٹائون ون پشاور کا دفتر پوش علاقے شامی روڈ پر نظر آجائیگا اس صورتحال میں کوئی یہ سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کررہا کہ ڈیڑھ لاکھ روپے " بڑوں "کے "چہیتے "کیا اپنے جیب سے اداکرینگے یا پھر آوارہ کتوں کی طرح زندگی گزارنے والے"غریب عوام" سے مختلف مدوں میں ٹیکس لگا کر نکالا جائیگا ایک طرف تنخواہیں اور پنشن دینے کیلئے پیسے نہیں اور دوسری طرف عوام کا پیہ عیاشیوں میں اڑایا جارہا ہے -

شہری روزانہ چیختے ہیں کہ شہر میں صفائی نہیں ہورہی گندگی اور بدبو کے باعث ٹائون ون کے مختلف علاقوں میں لوگوں کا جینا حرام ہے لیکن ان حالات میں جب " بڑوں" کے چہیتے شہریوں کے ٹیکسوں کے بل بوتے پر " عوامی خدمت "مصروف عمل ہوں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہ ہو - نہ " بل دی آت " کے "بڑے "ااور نہ ٹیکس ادا کرنے والے عوام کہ آخر ہمارے ٹیکسوںپر یہ چہیتے کیوں عیاشی کررہے ہیں تو صورتحال مزید ابتر ہوجائیگی- ویسے بھی ہم لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ استعمال ہونے والا فنڈز حکومت کا ہے اس لئے ہمیں خاموش رہنا چاہئیے حالانکہ یہ اس غریب عوام کا ٹیکس ہے جس پر " بڑے" اور ان کے " چہیتے "عیاشی کرتے ہیں لیکن ہم لوگوں میں اتنا شعور نہیں کہ اپنے ٹیکسوں پر " بڑوں "اور ان کے "چہیتوں"کا احتساب کرے -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 425827 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More