کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی ہوفی الفور سرجری

لوڈ شیڈنگ کا عذاب تو کراچی کے عوام جھیل ہی رہے تھے کہ اچانک سولہویں روزے کی سحری بھی اندھیرے میں کرنا پڑی۔ اس کی وجہ کا تو آپ سب کو اب اخبارات کے ذریعے اور پھر بعد میں میڈیا کے ذریعے مل ہی چکا ہے ۔ مگر کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن والے بل کی مَد میں تو روپئے تو روپئے ایک پیسہ بھی چھوڑنا گوارا نہیں کرتے اور فیول ایڈجسٹمنٹ کی مَد میں بھی ہر ماہ نیپرا سے مدد لے کر اپنے بلوں میں خاطر خواہ اضافہ کرتی ہی رہتی ہے۔ مگر یہ ادارہ جب سے موجودہ انتظامیہ کے پاس گیا ہے یہ لوگ کبھی عوام کے بارے میں نہیں سوچتے کہ عوام تو پہلے ہی لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہیں اور ایسے میں ان کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی جب بجلی فیل ہونے کے سبب کئی کئی گھنٹوں تک زندگی کی کالی سچائی سے لڑنا پڑا ہوگا۔ لوگ سحری کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ چاروں جانب ایسا محسوس ہوا کہ کالا سایہ ہے۔ کچھ منٹوں کیلئے پہلے ایسا ہوتا تھا لیکن پھر یوں محسوس ہوتا تھا کہ بس بجلی تو آنے ہی والی ہے اور پھر سب کچھ نارمل ہو ہی جائے گا۔ لیکن پندرہویں روزے کی سحری میں اور پھر سولہویں روزے کی سحری میں بھی اسکرپٹ بالکل بدل گئی اور منٹوں کا انتظار گھنٹوں میں بدل گیا۔

اس بار بجلی کے جانے کے پیچھے بریک ڈاﺅن اور وہ بھی بڑے پیمانے پر گرڈ اسٹیشن فیل ہونے کی کہانی سنا دی گئی۔ اور یوں سحری سے لیکر آدھے دن تک بجلی سے محرومی عوام کو برداشت کرنی پڑی۔آپ تو جانتے ہی ہیں کہ کراچی میگا سٹی (انٹرنیشنل سٹی) ہے مگر یہاں بجلی کے نہ ہو نے کی وجہ سے سحری کے وقت سائرن کی آواز کے بجائے کھمبے بجنے لگے ۔ورلڈ کلاس میٹرو سٹی جہاں تھی وہیں رُک گئی ۔اسپتالوں میں سرجری رُک گئی، لوگوں میں وحشت پائی جانے لگی۔ اس دو دنوں کے دوران ایسا محسوس ہوا کہ پوری نظامِ زندگی چوپٹ ہو گئی ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے مسجدوں کی چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دی گئیں، ٹیلی ویژن بند ہوا تو لازمی ہے کہ کیبل بھی بند ہو گیا اور یوں لوگوں کے کانوں میں ریڈیو بجنے لگے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غیر ملکی کمپنی کی ملکیت (کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن) ہمارے شہرِ کراچی (میگا سٹی) کو پتھر کے دور کی طرف لے جا رہی ہے۔ شہری اس بریک ڈاﺅن کی اذیت سے بلبلا اٹھے ہیں۔ان دو دنوں میں کے ای ایس سی کی جانب سے تین بڑے بریک ڈاﺅن کی قصہ خوانی سنائی جا چکی ہے ۔ان دو روز میں لگ بھگ چھبیس گھنٹوں کیلئے بجلی کے تعطل کے باعث شہر میں صنعتی پہیہ بھی جام ہوگیا اور ایک اندازے کے مطابق بائیس ارب روپئے کا نقصان ہوا۔ بجلی کی اس قدر خوفناک صورتحال کے باعث ان کا اپنا عملہ بھی کئی دفاتر کو چھوڑ کر بھاگ نکلا کہ جان کی پرواہ کسے نہیں ہوتی جناب!

اب سُنیئے! ہمارے غیر ملکی انتظامیہ کی اس بریک ڈاﺅن سے متعلق کہانی!کہتے ہیں کہ یہ بریک ڈاﺅن کی اصل وجہ ہوا میں ” نمی “ بتائی ہے نمی کی وجہ سے یہ معاملہ دوبارہ دوسرے دن بھی ہوگیا۔ جبکہ یہ بریک ڈاﺅن صرف ہائی ٹینشن لائنوں پر ہی تھی مگر کہانی جیسی بھی بنائی گئی ہے کلی طور پر کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی قلعی کھل گئی ہے کہ ان کی کارکردگی کیا ہے۔اگر صرف نمی کی وجہ سے ہی اتنے بڑے بڑے بریک ڈاﺅن ہو رہے ہیں تو خدا خیر کرے کہ بارشوں کے موسم میں کیا ہوگا۔

ویسے بھی حکومت نے جب سے کے ای ایس سی کے معاملات غیر ملکی انتظامیہ کو سونپے ہیں ، اس انتظامیہ نے صرف اور صرف وصولی کا کام ہی کیا ہے ، Maintenanceکی مد میں کبھی کوئی کام کرنا ہی گوارا نہیں کیا۔ اگر ان سے اس معاملے میں پوچھ گچھ کی جائے گی تو وہ کاغذوں میں ضرور مینٹینس دکھا دیں گے۔بجلی کے تاروں کو ہی دیکھ لیں اتنی بوسیدہ حالت میں ہیں کہ اگر تھوڑی تیز ہوا چلے تو دھاگے کی طرح یا کسی کٹی ہوئی پتنگ کی طرح نیچے گر جائیں گی۔ کراچی میں سڑکوں کی مرمت کئی بار ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے تمام سڑکیں اونچی ہو گئی ہیں مگر بجلی کے پول آج بھی اس ہائیٹ کی وجہ سے نیچے ہو گئے ہیں ۔ اگر کراچی کے کسی ایریا میں پی ایم ٹی خراب ہو جائے اور انتظامیہ اسے بنوانے کے بہانے وہاں سے لے جاتی ہے تو بس سمجھیں کہ وہاں کے لوگوں کی بجلی ایک ہفتے کے لئے بند ہو گئی۔ سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کے ای ایس سی اپنے بجلی گھروں سے بجلی کیوں نہیں بنا رہا ،

ان کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے شہریوں کو تقریباً ڈھائی دنوں تک پانی کی سپلائی میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ، ایک تو رمضان شریف کا مہینہ اوپر سے بجلی غائب اور پھر سونے پر سہاگہ پانی بھی ناپید!

عجیب و غریب منطق ہے جو بظاہر سمجھ سے بالاتر ہے کہ گیس اور فرنس آئل ملے گا تو لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، بھائی اگر سب کچھ حکومت نے ہی دینا ہے تو آپ نے کیوں اپنی کمپنی کیوں Involveکی ہے۔ کیا معاہدے میں یہی لکھا گیا ہے۔ شاید نہیں ، لکھا تو شاید یہ گیا ہوگا کہ کمپنی اپنی بجلی بھی بنائے گی تاکہ لوڈ شیڈنگ سے نجات مل سکے۔ مگر ایسا آج تک دیکھنے میں نہیں آیا۔یوں تو ایک مہینے سے اتوار کو لوڈ شیڈنگ نہیں کی جا رہی ہے اور ظاہر ہے کہ دوسرے تہواروں کے موقع پر بھی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی تو اُس وقت بجلی کہاں سے دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جان بوجھ کر عوام کو پریشان کیا جا رہا ہے۔
ویسے بھی ہمارے شہر میں بجلی کے گُل ہونے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں جب سینگ سماتا ہے بجلی گل کر دی جاتی ہے ٹائم ٹیبل ہونے کے باوجود رمضان کے مہینے میں بھی پانچ پانچ منٹ کیلئے ہی سہی افطار سے پہلے بجلی گل کر دی جاتی ہے اور پھر اذان کے ساتھ بجلی بھی واپس آتی ہے۔ دراصل ، اصل مسئلہ اپنے کوٹہ سے زیادہ بجلی لینے کا نہیں ہے ۔ (یہ لائین اس لئے لکھ رہا ہوں کہ آج کل پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کہہ رہے کہ کراچی کو واپڈا سے سات سو میگا واٹ بجلی دی جاتی ہے اگر میں کہوں گا تو عصبیت کا شور ہوگا) چھوڑیں ان باتوں کو، اصل مسئلہ ملک میں بجلی کی شدید کمی کا ہے ، جو کہ پورے ملک کی مانگ کے لئے کافی نہیں ہے۔ جبکہ آج بھی ملک کے کئی گاﺅں ایسے ہیں جہاں بجلی کا نام و نشاں بھی نہیں ہے۔ اس کا واضح مطلب تو یہی ہے کہ ملک میں بجلی کی شدید کمی ہے۔ اور کیوں نہ ہو ہم نے آج تک کون سے حدف بجلی کے سلسلے میں حاصل کر لیا ہے ، کیا کبھی بھی ذمہ داری طے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پلانگ کمیشن نے کبھی اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچا ہے۔ ویسے بھی ہدف طنے کرنے کی کچھ بنیادی جُز ہوتے ہیں یونہی ہوا میں ہدف طے نہیں کر دیئے جاتے ہیں اور اگر اربابِ اختیار یہ کہتے ہیں کہ ہدف طے کئے گئے ہیں تو وہ پورے کیوں نہیں ہوئے۔ یہ سوالیہ نشان آج تک موجود ہے؟

کے ای ایس سی کے لئے تو معمول کی بات ہے کہ فنی خرابی پیدا ہو گئی ہے اس لئے بجلی منقطع ہو گئی مگر روشنیوں کے شہر کراچی کو تاریکی میں ڈوبتا دیکھ کر بھی ان کے سروں پر جوں نہیں رینگتا کہ اس فنی خرابی کے علاوہ دیگر جو ضروری بنیادی کام ہیں انہیں کم از کم رمضان المبارک میں درست کر لیں تاکہ شہریوں کو عذاب سے نجات مل جائے۔ اکثر شاپنگ سینٹروں میں بجلی بند ہو گئی اور یوں عید کی خریداری کرنے والے شہریوں کو پریشانی اٹھا نا پڑی۔ جرائم پیشہ افراد کو اندھیرے میں شہریوں کو لوٹنے کا موقع مل گیا اور یہ موقع بھی کے ای ایس سی نے ہی انہیں فراہم کیا۔بریک ڈاﺅن سے جہاں مارکیٹوں میں اندھیرے کا راج قائم ہوا وہیں ٹریفک سگنل بند ہو گئے اور شہر کے حساس علاقوں میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے بھی بے کار ہو گئے ۔ اور حالات کے پیشِ نظر شاپنگ کے لئے آنے والے شہریوں نے عافیت اسی میں جانی کہ گھر کو لوٹ جائیں۔

ایسے میں ضروری ہے کہ کے ای ایس سی اور پاور سیکٹر کی پوری طرح سے سرجری کی جائے۔ شروعات یہیں سے کی جائے۔ انتظامیہ تبدیل کرنے سے ہو سکتا ہے کہ دوسری نجی کمپنی سے کچھ اصلاح ہو جائے۔ فی الحال تو کوئی ٹھوس تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے سوائے اس کے عوام کو تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن پھر بھی ہماری سیدھی سادھی عوام اربابِ اختیار سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔

مجھے احساس ہے کہ طوالت زیادہ ہوگئی ہے مگر بجلی سے متعلق چند دلچسپ معلومات کا ذخیرہ آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں ۔ دیکھئے کہ جاپان میں طالب علموں کیلئے بجلی بالکل فری ہے۔ اور اٹلی میں سب سے زیادہ بجلی کی پیداوار ہوتی ہے۔ ایک حیرت انگیز بات وہ یہ کہ سنگا پور میں بارہ مہینے بارش ہونے کے باوجود ایک منٹ کیلئے بھی بجلی نہیں جاتی ہے۔پڑوسی ملک کو ہی لے لیں وہاں کوئلے سے ستّر فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ چین میں گھروں کیلئے بجلی فری ہے اور ہم نیوگلیئر پاور ہیں جہاں ایک دن میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی کے بغیر ہنسی خوشی رہتے ہیں۔
Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 340719 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.