پیارے نبی کریمﷺسے بچوں کا جذبہ محبت

ارشاد بار ی تعالیٰ ہے۔"اَلنَّبِیُّ اَولیٰ بِالمُئومِنِینَ مِن اَنفُسِہِم"نبی کریم ﷺمومنوں کے لئے اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبوب ہیں ۔

اگرمومنوں کی جان اوررسول اللہ ﷺکی محبت واطاعت میں سے انتخاب کرناپڑے تومومنوں کوجان دے کربھی محبت کررشتہ برقراررکھنا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اللہ تعالیٰ اوراسکے رسولﷺسے آگے نہ بڑھواوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔نبی کریمﷺکاارشادپاک ہے"تم میں سے کوئی ایمان والااس وقت تک نہیں ہوسکتاجب تک میں اسے اپنے آباءاولاداورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاﺅں "۔پھرفرمایا"تم میں سے کوئی اس وقت تک ایمان والانہیں سکتاجب تک اس کی خواہشات ان احکام کے تابع نہ ہوجائیں جومیں لایاہوں۔اللہ پاک اوراسکے محبوبﷺسے محبت کاتقاضابھی یہی ہے کہ محبت میں کوئی اورشریک نہ ہو۔رسول اللہﷺکی محبت تمام رشتوں اورتمام تعلقات سے بڑھ کرہو۔جوشخص اللہ پاک سے محبت کرتاہے تواس کی محبت تب مکمل ہوگی جب وہ سرورکائناتﷺسے محبت کرے گا۔کیونکہ کوئی شخص ساری زندگی لاالٰہ الااللّٰہ کہتارہے اس کاایمان مکمل نہیں ہوتاجب تک محمدرسول اللّٰہ نہ کہے گا ۔تومعلوم ہواکہ ایمان بھی آقاﷺکی محبت کانام ہے ۔

حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ جنکاشماربڑے مشہورصحابہ کرام علہیم الرضوان میں ہوتاہے فرماتے ہیں کہ میں غزوہ بدرکی لڑائی میںمیدان بدر میں لڑنے والوں کی صف میں کھڑاتھامیرے دائیں بائیں انصارکے دولڑکے کھڑے تھے مجھے خیال ہواکہ اگرمیں ان دولڑکوں کی بجائے مضبوط اورجوان لوگوں کے درمیان ہوتاتوضرورت کے وقت ہم ایک دوسرے کی مددکرسکتے اتنے میں ان دونوں لڑکوں میں سے ایک نے میراہاتھ پکڑکرکہا" آپؓ ابوجہل کوپہچانتے ہیں ۔میں نے کہاہاں میں ابوجہل کوجانتاہوں پَرتمہارااس سے کیاکام ہے؟اس لڑکے نے کہامجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہﷺکی شان میں گستاخیاں کیاکرتاہے میںچاہتاہوں کہ اس گستاخ کودیکھ لوں اوراسوقت تک اس سے جدا نہ ہونگاکہ وہ مرجائے یامیں مرجاﺅں"اس پرحضرت عبدالرحمان بن عوفؓ کوبڑی حیرانگی ہوئی پھر دوسرے لڑکے نے بھی یہی سوال کیاجوپہلے لڑکے نے کیاتھا۔جنگ بدرسن دو۲ہجری میں لڑی گئی مسلمانوں کو مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ نبی کریم ﷺ کی قیادت میں ہجرت کوصرف دوسال کاعرصہ ہواتھا اورابوجہل کا مستقل قیام مکہ میں تھااس لئے مدینہ کے رہنے والے خصوصاََوہاں کے انصاربچے ابوجہل اوراسکی اسلام دشمنی سے توواقف تھے لیکن ابوجہل کوکبھی دیکھانہیںتھااورنہ شناخت کرسکتے تھے اتفاق سے ابوجہل میدان جنگ میں بھاگتاہوانظرآیاتوحضرت عبدالرحمان بن عوفؓنے ان لڑکوں کوبتایاکہ وہ آرہاہے ابوجہل جسکوتم معلوم کرناچاہتے تھے یہ دونوں صاحبزادے حضرت معوذاورحضرت معاذؓ تلوارلیکراسکی طرف دوڑپڑے ابوجہل گھوڑے پر سوارتھامیدان جہادمیں اپنے لشکرکی صف بندی کررہاتھاایک بھائی نے گھوڑے پرحملہ کیاتودوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پرضرب لگائی اوراسی طرح اسکوٹھنڈاکیاکہ اٹھ نہ سکاتڑپتارہاآخر میںحضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ابوجہل کاسراسکے تن سے جداکرکے ہمیشہ کے لئے اسکاخاتمہ کیا ۔تاریخ میں درج ہے کہ جس وقت حضرت معاذؓ نے ابوجہل کی ٹانگ پرحملہ کیاتوابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے حضرت معاذؓ کے مونڈھے پرحملہ کیاجس سے حضرت معاذؓ کاہاتھ کٹ کرکھال میں اٹک گیااس سے انہیں میدان جنگ میں کافی دشواری پیداہوئی اس لئے حضرت معاذؓ نے اپنے اس کٹے ہوئے ہاتھ کوجولٹک رہاتھاپاﺅں سے دباکرجداکرکے اس سے نجات حاصل کرلی اورجنگ جاری رکھی۔مسلمان بچوںکایہ دینی جوش و جذبہ صرف میدان بدرتک محدودنہ رہابلکہ چودہ صدیاںگزرنے کے بعدآج تک قائم برقرارہے۔معززقارئین آقاﷺکی محبت ہی وہ واحد عمل ہے جس سے ہماری دنیاوآخرت میں نجات ہوگی اگرہم نے نبی کریم ﷺسے رشتہ محبت جوڑلیاآقاﷺکی غلامی قبول کرلی توخداکی قسم ہم بارگاہ نبی کریم ﷺ میں بھی کامیاب ہوجائیںگے اوربارگاہ رب لم یزل میںبھی اگرہم نے رشتہ محبت توڑ دیا تواس دنیامیں بھی ذلیل ورسوااورآخرت میں بھی ۔ اللہ رب العزت سے دعاہے کہ رب تعالیٰ دونوں جہاں میں نبی کریمﷺکی محبت اورشفقت نصیب فرمائے ۔آمین
Hafiz kareem ullah Chishti
About the Author: Hafiz kareem ullah Chishti Read More Articles by Hafiz kareem ullah Chishti: 179 Articles with 274237 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.