جوتا ماری کا عالمی دن

ہمارے معاشرے میں جوتے کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ صرف پاﺅں میں پہننے کی ہی چیز نہیں بلکہ اس سے دیگر بہت سے کام بھی لیئے جاتے ہیں۔ جوتا چھپائی اور جوتا چرائی ہمارے رسم و رواج کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ جوتا چرانا اور جوتا چھپانا بظاہر ایک ہی مفہوم رکھتا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ دونوں اصطلاحات الگ الگ مواقع پر استعمال ہوتی ہیں۔ ”جوتا چھپائی“ شادی کی رسومات کا ایک اہم حصہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ بڑی دلچسپ اور مقبولِ عام رسم ہے۔ دولہا جب دلہن کو لینے بارات کے ہمراہ اپنے سسرال جاتا ہے تو وہاں یہ رسم ادا کی جاتی ہے۔ دولہے کی سالیاں اُس کے جوتے چھپا کر تنگ کرتی ہیں اور اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے بعد ہی جوتے واپس کرتی ہیں جبکہ یہی رسم مسجدوں میں نماز کے اوقات میں ”جوتا چرائی“ کے نام سے ادا کی جاتی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ جو پیسے لے کر جوتے واپس کر دے وہ ”سالی“ ہوتی ہے اور جو خدا کا دیا سمجھ کر لے جائے وہ ”سالہ“ کہلاتا ہے البتہ اس سالے کا بیوی کا بھائی ہونے سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ جوتا چھپائی کرنے والی سالیوں کی پہچان تو آسانی سے ہو جاتی ہے مگر نماز کے اوقات میں مساجد کے اندر جوتے چوری کون سالے کرتے ہیں اس پر ابھی تک تحقیق جاری ہے۔

جوتا چھپائی کی رسم کے وقت ایک دولہے کی کیفیت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ یہ دولہے بنتے بڑے معصوم ہیں لیکن انتہائی چالاک ہوتے ہیں۔ ان کی چالاکی کا تب پتہ چلتا ہے جب سالیاں پیسوں کا تقاضا کرتی ہیں۔دودھ پلائی کے بہانے جوتا چھپائی کی رسم کے وقت ایک سالی بولی میں 1100لوں گی، دوسری بولی میں 2100لوں گی۔ اس دوران دولہے میاں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک کھٹارا سا موبائل نکال کر بولا یہ 3310لے لو، اس میں ایف ایم ریڈیو بھی ہے بس مجھے ایک سو دس روپے واپس کر دینا۔ ویسے بھی جوتا چھپائی اس کی ہوتی ہے جس کی سالیاں ہوں اور سالیاں تب ہوتی ہیں جب بیوی ہو جبکہ بیوی ہونے کی صورت میں یہی رسم ”جوتا بازی “میں بدل جاتی ہے اور مظلوم شوہر اس کے ڈر سے فرماں برداری کا اعلیٰ نمونہ بن جاتے ہیں۔ بعض خواتین ان سے منچلوں کو سیدھی راہ دکھانے کا کام بھی لیتی ہیں جبکہ بعض اونچی ایڑھی والے جوتے بطور ہتھیار اپنے پاس رکھتی ہیں۔ جوتا چھپائی اور جوتا چرائی کی طرح ”جوتا بازی“ کی رسم بھی اب عام ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف سیاسی مقاصد کا حصول انتہائی آسان ہو گیا ہے بلکہ یہ رسم خطرے کی علامت بھی بن گئی ہے۔

ہر دور میں جوتے کا ایک سماجی، معاشرتی اور اخلاقی کردار رہا ہے مگر سیاسی مقاصد کے لیئے اس نے باقاعدہ طور پر اپنے سفر کا آغاز عراق سے کیا۔ ویسے ہم شادی بیاہ کی تقریبات میں جوتا چھپائی کی رسم تو دیکھتے ہی رہتے ہیں لیکن کسی ملک کے صدر کی رخصتی پر ”جوتوں سے سلامتی“ شاید پہلی مرتبہ دیکھا گیا۔ عراق کے نوجوان نڈر صحافی منتظر الزیدی نے دنیا کے ہمدرد اور سب سے زیادہ فکرمند ملک امریکا کے صدر جارج ڈبلیو بش کو جوتوں کی سلامی دے کر ایک نئی روایت کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اس کے بعد سے پوری دنیا میں ”لیڈران“ پر جوتے برسانے کا چلن عام ہو گیا ہے اور کئی ممالک کے سربراہان اس جوتاگردی کا نشانہ بھی بن چکے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں جوتے نے ایسا انقلاب برپا کر دیا ہے کہ اب اس کا سیاسی استعمال زیادہ ہونے لگا ہے بلکہ اس نے بہت سے سابق اور موجودہ حکمرانوں کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کر دیا ہے۔

جوتا چھپائی اور جوتا چرائی کے بعد جوتا بازی بھی بہت جلد ایک رسم کے طور پر معاشرے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ دنیا کے کئی رہنماﺅں کو جوتے پڑنے کے بعد اب اُن پر آن لائن گیمز بھی دستیاب ہیں۔ شہرت کے خواہش مند افراد اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کس پر جوتا پھینکا جائے جبکہ ڈرپور لوگ آن لائن گیمز میں جوتے مار کر اپنا غصہ نکال دیتے ہیں۔ یہ قوم جس حال میں بھی ہو انجوائے کرنے کا خوب شوق رکھتی ہے لیکن کم از کم جوتے برسانے سے پہلے یہ تو دیکھ لینا چاہئے کہ جس کو جوتا مارا جا رہا ہے وہ جوتے کے قابل بھی ہے یا پھر یہ جوتے کی توہین ہو رہی ہے۔ جوتا بازی انقلاب کے بعد ایک نئی رسم بھی جنم لے چکی ہے جسے ”جوتے چاٹنا“ کہتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جوتے مارنا بھی بے بسی جبکہ جوتے چاٹنا بھی بے بسی ہے البتہ ایک میں غیرت کا اظہار ہوتا ہے جبکہ دوسرے کی غیرت ”مرحومہ“ ہوتی ہے۔

جوتا چھپائی ایک رسم کے طور پر صرف پاک و ہند تک محدود ہے جبکہ جوتا چرائی ایک قومی اور جوتا گردی بین الاقوامی ایشو بن چکا ہے۔ ان تینوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ جوتا چھپائی میں دولہا نشانہ بنتا ہے، جوتا چرائی میں نمازی جبکہ جوتا بازی سیاسی و سماجی رہنماﺅں کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ پروفیسر ڈتہ موچی (ایم ایس سی، جوتیالوجی) فرماتے ہیں جب جوتے بیچنے والے کی آمدنی ایک اُستاد کی آمدنی سے زیادہ ہو جائے تو سمجھ جاﺅ کہ اس قوم کو تعلیم کی نہیں بلکہ لِتروں (جوتوں) کی ضرورت ہے۔ آج کل دنیا میں جوتا مارنے کی اچھی خاصی لہر چل نکلی ہے اور یہ لہر جانے کہاں جا کر دم لے گی۔ اب تو بہت سے ملکوں کی عوام نے اسے قومی کھیل کا درجہ تک دے دیا ہے جیسے اس سے اچھا کوئی اور کھیل دنیا میں ہے ہی نہیں۔ جب سے جوتا گردی نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی ہے اس کے بعد سے بہت سے ملکوں کی عوام میں ”جوتا ماری کا عالمی دن“ منانے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے جبکہ حکومتیں اِن جوتا گرد حملوں کی روک تھام کے لیئے اقدامات پر غور کر رہی ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر جس طرح جوتا کش حملے جاری ہیں عین ممکن ہے کہ کہیں متاثرہ ممالک کی حکومتیں اقوام متحدہ سے معاملے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ نہ کر دیں اور پھر اقوام متحدہ کی طرف سے تحقیقات اور قانون سازی کے بعد یہ ہدایت نامہ جاری ہو سکتا ہے کہ تمام رکن ممالک اپنے ہاں ایک ایسا ادارہ تشکیل دیں جو لوگوں کو قانونی طور پر جوتے فراہم کرے۔ اس کے بعد تمام جوتا ساز کمپنیاں بھی اس بات کی پابند ہو سکتی ہیں کہ وہ صرف لائسنس یافتہ افراد کو جوتے بیچیں جبکہ سرکاری تقریبات میں شرکت کے لیئے آنے والے افراد صرف ایسے جوتے پہن سکیں گے کہ جن میں ”حساس آلات “نصب ہوں۔ جیسے ہی کوئی جوتا اُتارنے کی کوشش کرے گا تو اس میں نصب خفیہ آلہ اس تبدیلی کو نوٹ کرکے جوتے میں ہی لگا خفیہ الارم بجانا شروع کر دے گا۔ اس طرح سکیورٹی ہائی الرٹ ہو جائے گی اور یوں جوتا کش حملوں کی بڑی حد تک روک تھام ممکن ہو سکے گی جبکہ ٹارگٹ بننے والا بھی ”جنگ ہنسائی “سے بچ جائے گا۔
Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 176992 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.