واپڈا کے مظالم اور بددعائیں

یہ رمضان المبارک کا پہلاجمعہ تھا، معمول سے زیادہ نمازی مسجد میں موجود تھے، یہ رمضان المبارک کی برکتیں ہی ہیں کہ ان دنوں میں مساجد میں رونقیں بڑھ جاتی ہیں، اسی کو غنیمت جانئے۔ اسی دوران واپڈا حرکت میں آیا اور بجلی چلی گئی۔ ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ایسے موقع پر بے اختیار دل اور زبان سے کیا الفاظ نکلتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ واپڈا والوں نے اتنی گالیاں کھائی ہیں کہ ان کے گناہ نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہونگے، مگر معاملہ اب گناہوں کی معافی سے کافی آگے گزر چکا ہے، گالی دینا گناہ ہے ،ظالم کو بددعا دینا ایک فطری عمل ۔ اگرچہ بددعاکی نوبت انتہا ہوجانے پر آتی ہے ، اور اب انتہا ہوچکی ہے کہ رمضان المبارک میں لوڈشیڈنگ کے معمولات تمام حدوں کو پار کرگئے ہیں۔

جہاں اس ناچیز کی رہائش ہے، وہاں دن کے بارہ بجے سے پانچ بجے تک دو گھنٹے بجلی آتی ہے، اور ان دو گھنٹوں میں بھی کم از کم دس مرتبہ داغ مفارقت دیتی ہے۔ اول تو یہ شیڈول ہی ظالمانہ ہے کہ دو سے تین بجے اور چار سے پانچ بجے بجلی نہ ہو، مگراس شیڈول پر بھی واپڈا کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ جمعہ والے دن تو ڈیڑھ بجے ہی نمازیوں کے صبر کا مزید امتحان شروع ہوگیا، جو بڑی ہمت سے روزے کا امتحان دے رہے ہوتے ہیں۔ دو بجے بجلی جانے کا اعلانیہ شیڈول کا وقت تھا ، چنانچہ وہ نہیں آئی، چند منٹ آنکھ مچولی کھیلنے کے بعد تین بجے کا وقت ہوا، اس شیڈول میں بھی تین مرتبہ بجلی گئی۔ اور پھر چار بجے اس نے ”اعلانیہ“ جانا تھا، بھلا جانے والوں کو کون روک سکتا ہے؟ یہی روز کا معمول ہے، دوپہر کے پانچ گھنٹوں میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ بجلی کو شکل دیکھنے کو ملتی ہے۔

رمضان المبارک میں عوام کا خیال تھا کہ شایدحکمرانوں کو ان پر کچھ ترس آجائے، مگر جن کے دل ہی پتھر ہوگئے ہوں وہاں سے ترس وغیر ہ کی کیا امید؟لیکن کیا چار سالوں میں حکمرانوں نے اس عذاب سے نجات کی کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ کسی پاور سٹیشن کی بنیاد رکھی گئی ہے؟ کہیں ونڈپاور پلانٹ تیار ہورہا ہے؟ کہیں سولر انرجی سے کام چلانے کا تجربہ کیا جارہا ہے؟ کہیں کوئلہ سے بجلی بنانے کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے؟ حکومت کی اس ضمن میں سنجیدگی سب کے سامنے ہے۔ جب حکومت نے اس کے لئے کچھ کیا ہی نہیں تو بہتری کہاں سے آئے گی ، کیسے آئے گی؟ اس کو فکر ہے تو اپنے اقتدار کو طول دینے کی ، اس کو پریشانی ہے تو لوٹ مار کی ، اس کی منصوبہ بندی ہے تو بیرون ملک بینک بیلنس کی۔

ستم بالائے ستم ملاحظہ ہو کہ آئے روز فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کے نرخ بڑھا دیئے جاتے ہیں، تازہ خبر یہ ہے کہ جون کے مہینے میں خرچ کی گئی بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ لیا جائے گا، مہینہ کا تعین ابھی باقی ہے کہ عوام کے گلے پر یہ چھری کب چلانی ہے۔ عوام کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ، یہ صدمہ عوام کئی مرتبہ پہلے بھی برداشت کرچکے ہیں۔ یہ ظلم تو انوکھے انداز کا ہے کہ گزشتہ مہینوں میں استعمال کی گئی بجلی کے نرخ کئی ماہ بعد بڑھا دیئے جائیں، یہ کاروباری بددیانتی کی ایک گھٹیا سی مثال ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ بجلی ہے نہیں ، مگر اس کے بل ہیں، بلکہ دو دو مرتبہ ہیں۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے تھرکول منصوبے کے لئے تھرکول پراجیکٹ کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لانے اور ضروری فنڈز مہیا کرنے کی بھر پور سفارش کردی ہے، کمیٹی کو ڈاکٹر ثمر مند مبارک نے بریفنگ دی، انہوں نے کمیٹی کو زیرزمین کوئلے سے گیس پیدا کرنے کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ مگر پریشانی تو یہی ہے کہ یہ قائمہ کمیٹیاں تو نام کی ہوتی ہیں، کیا کبھی ان کی ’سفارشات‘ پر کسی حکومت کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہے؟ان کمیٹیوں کا کام شاید عوام کو خوش کرنا ہے، خوش فہم عوام ان کی رپورٹوں سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ کیا حکمران اس ضمن میں خود سادگی کا سوچ سکتے ہیں؟ کیا وہ بجلی بچانے کا بھی کوئی منصوبہ رکھتے ہیں، یا عوام سے رمضان میں بھی بددعائیں لینے کی ہی منصوبہ بندی ہے؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 432135 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.