شاباش تم کرسکتے ہو

GOOD YES U CAN DO IT

دنیا میں جدھر دیکھو ،مایوسی چھائی ہوئی ہے ۔مرجھائے چہرے ۔پرنم آنکھیں ۔جھریاں پڑے رخسار ۔ماحول میں آسودگی ،غم و ملال کی گھٹاچھائی ہوئی ہے ۔بس جودن گز ر جائے ٹھیک ہے ۔اچھاہے ۔بس یار!گزر بسرہورہاہے ۔نوکری سے گھر ،گھرسے نوکری بس اور کربھی کیا کرسکتاہوں ۔بس بس بس نہ ۔مایوس ہوگیاہوںزندگی سے ۔میں تعلیم کے باوجود آج تک یہ سراغ نہ لگاسکامیرامستقبل کیاہے ۔بے رنگ لفافہ کی طرح ادھر سے ادھر پھررہاہوں ۔یار!عجیب بات ہے سب معلومات ہونے کے باوجود چار لوگوں میں بات کرنے پڑجائے تو میری آواز ہی نہیں نکلتی ۔اسٹیج پر بولنے کاکوئی بولے تو میری تو جان نکل جاتی ہے ۔ہوائیاں اُڑجاتے ہیں ۔یار:فلاں کو دیکھو کتنانام کمالیا۔کیسابولتاہے ۔کیسا تبصرہ کرتاہے ۔میراہمعصرہے لیکن جو مقام اس نے پایا مجھے نہیں ملا۔نہ ہچکچاہٹ نہ ڈر نہ خوف ۔میں تو یہ سب دیکھ کرمایوس ہوگیاہوں ۔

یہ وہ آوازیں ہیں جو ہمیں گردونواح سے سنائی دیتی ہیں ۔جن سے مایوسی ،محرومی عیاں ہے ۔یہ لوگ اپنی زندگی کے حقیقی ذائقہ سے محروم ہیں بس چل سو چل کی ڈگر پر کاربند ہیں ۔ان کی صلاحیتیں فقط ایک احساس کی وجہ سے زنگ اَلود ہوجاتی ہیں وہ ایسااحساس ہے کہ اگر یہ زندگی میں اس کے حل پر توجہ نہ دیں اس کے حل کے لیے نہ سوچیں تو شاید ساری زندگی گمنامی ،محرومی ان کا مقدر رہے ۔

سب سے پہلے یہ طے کر لیجئے!!! کہ آپ مایوسی اور ڈپریشن سے ہر قیمت پر نکلنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔

اپنی خواہشات کا جائزہ لیجئے اور ان میں سے جو بھی غیر حقیقت پسندانہ خواہش ہو، اسے ذہن سے نکال دیجئے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پرسکون ہو کر خود کوsuggestion دیجئے کہ یہ خواہش کتنی احمقانہ ہے۔ اپنی سوچ میں ایسی خواہشات کا خود ہی مذاق اڑائیے۔اس طرح ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر اک خواہش پہ دم نکلے کو غلط ثابت کیجئے۔

اپنی خواہشات کی شدت کو کنٹرول کیجئے۔ اپنی شدت کی ایک controllable limit مقرر کر لیجئے۔ جیسے ہی یہ محسوس ہو کہ کوئی خواہش شدت اختیار کرتی جارہی ہے اور اس حد سے گزرنے والی ہے ، فوراً الرٹ ہو جائیے اور اس شدت کو کم کرنے کے اقدامات کیجئے۔ اس کا طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس خواہش کی معقولیت پر غور کیجئے اور اس کے پورا نہ ہو سکنے کے نقصانات کا اندازہ لگائیے۔ خواہش پورا نہ ہونے کی provision ذہن میں رکھئے اور اس صورت میں متبادل لائحہ عمل پر غور کیجئے۔ اس طرح کی سوچ خواہش کی شدت کو خود بخود کم کردے گی۔ آپ بہت سی خواہشات کے بارے میں یہ محسوس کریں گے کہ اگر یہ پوری نہ بھی ہوئی تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ یہ بھی خیال رہے کہ خواہش کی شدت اتنی کم بھی نہ ہوجائے کہ آپ کی قوت عمل ہی جاتی رہے۔ خواہش کا ایک مناسب حد تک شدید ہونا ہی انسان کو عمل پر متحرک کرتا ہے۔

دوسروں سے زیادہ توقعات وابستہ مت کیجئے۔ یہ فرض کر لیجئے کہ دوسرا آپ کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ اس مفروضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے دوسروں سے اپنی خواہش کا اظہار کیجئے۔ اگر اس نے تھوڑی سی مدد بھی کردی تو آپ کو ڈپریشن کی بجائے خوشی ملے گی۔ بڑی بڑی توقعات رکھنے سے انسان کو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور دوسرے نے کچھ قربانی دے کر آپ کے لئے جو کچھ کیا ہوتا ہے وہ بھی ضائع جاتا ہے۔

مایوسی پھیلانے والے افراداور لٹریچر سے مکمل طور پر اجتناب کیجئے اور ہمیشہ امنگ پیدا کرنے والے افراد اور ان کی تخلیقات ہی کو قابل اعتنا سمجھئے۔ اگر آپ مایوسی اور ڈپریشن کے مریض نہیں بھی ہیں ، تب بھی ایسی چیزوں سے بچئے۔ اس بات کا خیال بھی رکھئے کہ امنگ پیدا کرنے والے افراد اور چیزوں کے زیر اثر کہیں کسی سے بہت زیادہ توقعات بھی وابستہ نہ کرلیں ورنہ یہی مایوسی بعد میں زیادہ شدت سے حملہ آور ہوگی۔

محترم قارئین :میری کوشش ہے کہ تمام نفسیاتی عوامل کو پیش ِ نظر رکھ کر آپ کو مایوسی کے بھنورسے نکال سکوں ۔

گندگی پھیلانے والی مکھی ہمیشہ گندی چیزوں کا ہی انتخاب کرتی ہے۔ اس کی طرح ہمیشہ دوسروں کی خامیوں اور کمزوریوں پر نظر نہ رکھئے ۔ اس کے برعکس شہد کی مکھی ، جو پھولوں ہی پر بیٹھتی ہے کی طرح دوسروں کی خوبیوں اور اچھائیوں کو اپنی سوچ میں زیادہ جگہ دیجئے۔ ان دوسروں میں خاص طور پر وہ لوگ ہونے چاہئیں جو آپ کے زیادہ قریب ہیں۔

اپنی خواہش اور عمل میں تضاد کو دور کیجئے۔ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر دھرنے کی بجائے اپنی کمزوریوں پر زیادہ سوچئے اور ان کو دور کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہر معاملے میں دوسروں کی سازش تلاش کرنے سے اجتناب کیجئے اور بدگمانی سے بچئے۔ یہ طرز فکر آپ میں جینے کی امنگ اور مثبت طرز فکر پیدا کرے گا۔ اس ضمن میں سورۃ الحجرات کا بار بار مطالعہ بہت مفید ہے۔

اگر آپ بے روزگاری اور غربت کے مسائل کے حل کے لئے کوئی بڑا سیٹ اپ تشکیل دے سکتے ہوں تو ضرور کیجئے ورنہ اپنے رشتے داروں اور دوستوں کی حد تک کوئی چھوٹا موٹا گروپ بنا کر اپنے مسائل کو کم کرنے کی کوشش کیجئے۔ اس ضمن میں حکومت یا کسی بڑے ادارے کے اقدامات کا انتظار نہ کیجئے۔ اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔تو آپ کی مایوسی انشاء اللہ شکرکے احساس میں بدل جائے گی۔
ان مہروتاباں سے کہدو اپنی روشنیاں گِن کے رکھیں
میں اپنے صحرا کے ذروں کو خو د ہی چمکنا سیکھارہاہوں

محترم قارئین :اس مایوس زندگی کو جھڑک دیجیے ۔چھوٹی چھوٹی ،ننھی ننھی مسکراہٹوں سے زندگی کے گلشن کو بارونق بناتے چلیں ۔ایسا نہی کہ خوشیاں نازل ہونگی بلکہ آپ کے اندر کی کیفیت کی خوبصورتی ہی اصل خوشی ہے ۔غموں سے لڑنا سیکھیے ۔مشکل میں جیناکا حوصلہ پیداکیجیے !کوشش یہ کریں کہ ان لوگوں کی صحبت اختیار کریں جو مزاجاہنس مکھ ہوں ،خوش مزاج ہوں ۔کوفت ،بور،بے مروت ،ترش مزاج لوگوں سے دوررہیں ۔خود ہی اندرکا موسم خوشگوار ہوتاچلاجائیگا۔اسے یوں سمجھ لیجیے :۔ مثلاً اگر آپ کے دوست آپ کو پریشان کر رہے ہوں تو ان سے چھٹکارا حاصل کیجئے۔ اگر آپ کی جاب آپ کے لئے مسائل کا باعث بنی ہو تو دوسری جاب کی تلاش جاری رکھئے۔ اگر آپ کے شہر میں آپ کے لئے زمین تنگ ہوگئی ہے تو کسی دوسرے شہر کا قصد کیجئے۔

اگر آپ کو کسی بہت بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے اور آپ کے لئے اس سے جسمانی فرار بھی ممکن نہ ہو تو ایک خاص حد تک ذہنی فرار بھی تکلیف کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ اس کو علم نفسیات کی اصطلاح میں بیدار خوابی (Day Dreaming) کہا جاتا ہے۔ اس میں انسان خیالی پلاؤ پکاتا ہے اور خود کو خیال ہی خیال میں اپنی مرضی کے ماحول میں موجود پاتا ہے جہاں وہ اپنی ہر خواہش کی تکمیل کر رہا ہوتا ہے۔ جیل میں بہت سے قیدی اسی طریقے سے اپنی آزادی کی خواہش کو پورا کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ہر شخص کسی نہ کسی حد تک بیدار خوابی کرتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے مسائل کی شدت کو کم کرتا ہے۔ مثلاً موجودہ دور میں جو لوگ معاشرے کی خرابیوں پر بہت زیادہ جلتے کڑھتے ہیں، وہ خود کو کسی آئیڈیل معاشرے میں موجود پا کر اپنی مایوسی کے احساس کو کم کرسکتے ہیں۔ اسی طرز پر افلاطون نے یو ٹوپیا کا تصور ایجاد کیا۔ اس ضمن میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ بیدار خوابی اگر بہت زیادہ شدت اختیار کر جائے تو یہ بہت سے نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا باعث بنتی ہے۔ شیخ چلی بھی اسی طرز کا ایک کردار تھا جو بہت زیادہ خیالی پلاؤ پکایا کرتا تھا۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس طریقے کو مناسب حد تک ہی استعمال کیا جائے۔

محترم قارئین :
آپ مایوس ہیں ۔زندگی سے بھی مایوس ہیں ۔زندگی کا خاتمہ کردیں گئے ۔دریامیں کود جائیں گئے ،خود سوزی کردیں گئے ؟

اچھا!توپھر کیاہوگا؟آپ مرجائیں گئے ۔توکیا یہ اس مایوسی کا حل ہے ۔کیا آپ کے مسئلہ کا حل ہوا؟آپ کی تشنگی دور ہوگئی ۔آپ کے دل میں اُٹھنے والی خواہشوں کے ارمان پورے ہوگئے ؟نہیں ؟جب آپ یہ سب جانتے ہیں یہ حل نہیں ،اس سے تشفی نہیں ہوگی ۔یہ سراسر حماقت ہے تو پھر اس اقدام کی کوشش یااس جانب سوچناکیوں؟

آپ مایوسی کوجھڑک دیں ۔آپ بہت بڑے انسان ہیں ۔بیٹے کے روپ میں ،بیٹی کے روپ میں ،ماں کے روپ میں ،باپ کے روپ میں ،استاد کے روپ میں ،طالبِ علم کے روپ میں ۔

آپ نے ایسا بہت کم دیکھا ہو گا کہ مصائب سے تنگ آ کر کسی دین دار شخص نے خود کشی کی ہو کیونکہ اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مصیبت کا کیا ہے، آج ہے کل ٹل جائے گی اور درحقیقت ایسا ہی ہوتا ہے۔آج میں بیروزگارہوں کل روزگار مل جائیگا۔آج کاروبارمیں خسارہ ہے کل میراربّ اس میں برکت عطافرمادے گا۔آج بیمار ہوں ۔کل صحتیاب ہونابھی تو ممکن ہے۔حادثہ میں معذور ہوگیاتوکیاہوا،جان تو بچ گئی ۔

محترم قارئین:یہ انسان کی نفسیات ہے کہ اگر وہ چاہے اور خود کو تیارکرلے تو وہ ہرمایوسی کامناسب جواب دیکر اس کا حل کرسکتاہے ۔اپنی زندگی کا آئیڈیل حضوراکرم نورمجسم ؐکو بنائیے !جن کی ذات ،کامل انسانیت ہے ،کامل آدمیت ہے ۔انسانیت کی معراج ہے ۔زندگی کے ذریں اصول اس ذاتِ پاک کی سیرت میں موجودہیں ۔تَوکُل کو زندگی کاجزبنائیں ۔قناعت کو اپناشعار بنائیے ! َتوکُل کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہا جائے۔ اس کا انتہائی معیار یہ ہے کہ انسان کسی بھی مصیبت پر دکھی نہ ہو بلکہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو ، اسے دل و جان سے قبول کرلے۔ ظاہر ہے عملاً اس معیار کو اپنانا ناممکن ہے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اس کے جتنا بھی قریب ہو سکتا ہو، ہو جائے۔ قناعت کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنا عطا کر دیا ہے ، اسی پر خوش رہا جائے۔ اس سے زیادہ کی کوشش اگر چہ انسان ضرورکرتا رہے لیکن جو بھی اسے مل جائے اسے اپنے رب کی اعلیٰ ترین نعمت سمجھتے ہوئے خوش رہے اور جو اسے نہیں ملا ، اس پر غمگین نہ ہو۔ وہ آدھے گلاس میں پانی دیکھ کر شکر کرے کہ آدھا گلاس پانی تو ہے، اس غم میں نہ گھلتا رہے کہ باقی آدھا خالی کیوں ہے؟ اگر ہم ہمیشہ دنیا میں اپنے سے اوپر والوں کو دیکھنے کی بجائے خود سے نیچے والوں کو ہی دیکھتے رہیں تو ہماری بہت سی پریشانیاں ختم ہو جائیں۔

آپ دوسروں کی صلاحیتیں دیکھ کرحسد نہ کریں بلکہ بہتر سے بہترین کی کوشش کریں ۔اگر وہ ایک اچھاسپیکر ہے ۔ایک اچھاثناخواں ہے ۔ایک اچھامدبر و مفکر ہے ،اچھامعالج ہے وغیرہ تو یہ سب آپ بھی کرسکتے ہیں کیونکہ وہ بھی انسان ہے اور آپ بھی انسان ہیں ۔اگر وہ کرسکتاہے تو ایسی کونسی بات ہے کہ آپ نہیں کرسکتے ؟ہاں مگروہ وجہ آپ کی سستی کاہلی ،دوسروں کی ذات میں منفی باتیں نوٹ کرتے رہنا،احتساب نہیں لیکن تنقید کرنے میں بے باکی ۔

محترم قارئین :بات طویل ہوگئی ۔نئی تحریرمیں مزید بات ہوگی ۔شاباش!!!!!!!!! آپ عظیم ہیں آپ بہت کچھ کرسکتے ہیں تو پھر ہمت باندھیں ،جذبات کو سمیٹیں اور ایک مرتبہ بلند آواز سے کہیں کہ ''ہاں میں کرسکتاہوں ''۔ہم مایوس نہیں ۔ہم پرعزم ہیں ۔توپھر آج سے بلکہ ابھی سے نئی امنگ سے زندگی کے ذائقوں سے لطف اندوز ہونا سیکھیں ۔آپ خوش رہیں ،خوشیاں بانٹیں ،مسکرائیں ،مسکراہٹیں بانٹیں ۔
شب کی تاریکی مجھ کو کھاجائے توکیا ہوا
کوئی تو ہوگاجوصبح درخشاں دیکھے گا
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 545859 views i am scholar.serve the humainbeing... View More