لوڈشیڈنگ` حکمرانوں کا لارا لپہ -

پشتو زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے جس کے معنی ہیں کہ " بھرا پیٹ فارسی بولتا ہے " ہمیں اس کا اندازہ گذشتہ روز پشاور پریس کلب میں وفاقی وزیر ریلوے کے لوڈشیڈنگ کی صورتحال پر پریس کانفرنس کے دوران ہوا لوگ رمضان میں لوڈشیڈنگ کے باعث تباہ حال ہو گئے ہیں اور موصوف نے پریس کانفرنس میں یہ کہہ کر عوامی نمائندگی کا حق ادا کردیا کہ " اب میں باہر جارہا ہوں " عید کے بعد آئونگا اور احتجاج بھی کرونگا" موصوف کی وزارت کا سب کو پتہ ہے کہ پٹڑیاں تو موجود ہیں لیکن انجن نہیں اور یہی حال رہا تو انشاء اللہ پٹڑیاں بھی جلد غائب ہو جائینگی -وزیر ریلوے نے لوڈشیڈنگ کے حوالے سے کی جانیوالی پریس کانفرنس میں جو اعداد و شمار صحافیوں کو بتائے بقول ان کے ہمارے صوبے کی پیداوار 3136 میگاواٹ ہے لوڈشیڈنگ میں حصہ ملنے کے بعد ہمارا حصہ 2100 میگاواٹ بنتا ہے جبکہ ہمیں 1300 میگاواٹ دیا جارہا ہے - سب سے حیران کن بات انہوں نے یہ بتادی کہ وفاق ہماری بات نہیں سنتا اور ان کے اور بھی مسائل ہیں -انہوں نے اپنی حاضری لگوادی اور ان کے جانے کے ایک گھنٹے بعد پختون قوم کی علمبردار پارٹی کے صوبائی سربراہ نے صوبائی کابینہ کے ممبران کے ہمراہ پریس کانفرنس کر ڈالی انہوں نے لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر9 اگست کو اے پی سی بلانے کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ اگر استعفوں سے عوام کو ریلیف ملتا ہے تو ہم دیدینگے - دونوں نے لوڈشیڈنگ کے مارے عوام کے آنکھوں میں "سرمہ "تو لگادیا-ہمیں ایک بات کی سمجھ نہیں آئی جو اعداد و شمار وزیر ریلوے نے صحافیوں کو بتائے جبکہ جو صوبائی رہنماء نے صحافیوں کیساتھ شیئر کئے ان میں تضاد تھا -

بحیثیت صحافی میرا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں لیکن میں عوام کے اس کچلے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتا ہوں جو صرف زندہ باد اور مردہ باد کے چکر میں خوار ہوتے رہتے ہیں تعلق چونکہ ہشتنگر کے انتہائی پسماندہ علاقے سے ہے اس لئے یہ سوال کرنے کی جسارت کررہا ہوں جو موجودہ دور میں ہر کوئی کرنا چاہتا ہے کہ کہاں گئے مفت بجلی کے وعدے اور بجلی کا بٹن صوبے میں لانے کا اعلان کرنے والے رہنماء -ویسے لوڈشیڈنگ کے مسئلے کیلئے صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا بھی اعلان کیا گیا جو کم ازکم پشاور کے عوام کیساتھ رمضان میں ظلم ہوگا کیونکہ جس دن اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے اس دن پشاور کی ٹریفک کا کیا حال ہوتا ہے "ائیر کنڈیشنر "ہالوں میں بیٹھ کر تقریر یں کرنے والے نمائندوں کو اس کا اندازہ نہیں - عوام حکمرانوں کے نشستا `خوردا اور برخاستا کے اے پی سی سے کچھ لینا دینا نہیں چاہتے انہیں اس وقت جو مسئلہ درپیش ہے وہ لوڈشیڈنگ کا بڑھتا ہوا "جن "ہے جس کے باعث نہ صرف کاروبار تبا ہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے بلکہ عوام کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہیں اور وہ اس عذاب سے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں-اور تو اور اسمبلی کے اجلاس پر پر جتنا خرچہ آئیگا وہ حکمران تو ادا نہیں کرینگے وہ بھی اس" بھوکے ننگے " عوام سے نکالا جائیگا -

ویسے یہ بات بہت سارے لوگوں کیلئے تلخ بھی ہوگی مجھے یاد ہے پختونوں کے علمبرداری کا دعوی کرنے والے حکمرانوں کے پہلے دور میں آٹا نہیں ملتا تھا اس وقت میرے کالج کا دور تھا اللہ تعالٰی والد مرحوم کو جنت نصیب کرے گھر کیلئے آٹا لانا کتنا عذاب ہوتا تھا پہلے لوگ "حکمرانوں کو " آٹا چور" کہتے تھے ایک دو دفعہ تو والد کسی دوست سے آٹا لائے بعد میں ہمیں کہہ دیا کہ اب " جوار کا آٹا " کھائو -اور پھر ہمیں مجبورا جوار کا آٹا کھانا پڑتا خیر اللہ تعالی نے اس صوبے کے عوام پر رحم کردیا اسی صورتحال کا اب ہمیں سامنا ہے صوبے کے عوام اپنے ہی لیڈروں سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ آخر ان کا گناہ کیا تھا کہ اب بجلی یونٹ تو انہیں مفت ملنے سے رہا لیکن پانی سے پیدا ہونیوالی بجلی ان پر تیل کی قیمت پر بیچی جارہی ہیں اور وہ بھی اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کیساتھ بڑے لمبے چوڑے بل بھیج کر انکی زندگی اجیرن کی جارہی ہیں- موجودہ حالات میں " بجلی چور "کے نعرے لگائے جارہے ہیں ںمعذرت کیساتھ کچھ لوگوں کو حکمرانی کرنے والوں لیڈروں میں کوئی برائی نظر نہیں آتی کیونکہ ان کی روزی روٹی کا مسئلہ ہے -

ہمارے کچھ لوگ اسے عوام کی اعمال کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن کیسے اعمال ہیں جس کا نشانہ اس صوبے کے غریب ` لاچار لوگ ہی بن رہے ہیں ٹھیک ہے کہ عوام نے غلطی سے اپنا سمجھ کر صوبے کے حکمرانوں کو ووٹ دیکر منتخب کروایا تھا لیکن اب وہ اپنی غلطی پر کیسے پشیمان ہیں اس کا اندازہ مجھے رنگ روڈ پر لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرے کی کوریج کے دوران ہوا جب بچوں اور بوڑھوں نے ڈنڈے اٹھائے ہوئے تھے اور وہ صوبے کے حکمران جماعتوں کے رہنمائوں کو جو کہ اب " قبروں میں " ہیں کی شان بڑھا رہے تھے -جب میں نے ایک بزرگ شخصیت سے پوچھا کہ ووٹ انہوںنے کس کو دیا تھا تو جواب میں انہوں نے جو مغلظات ان لیڈروں کے حوالے سے مجھے سنائی اس نے میرے روزے کو بھی مکروہ کردیا-ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر رمضان المبارک میں اللہ تعالی شیطان کو بند کرتاہے تو واپڈا کے اہلکاروں اور افسران کو کم از کم رمضان میں گرفتار کیا جاتا تو لوگوں کو لوڈشیڈنگ کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا - ائیر کنڈیشنڈکمروں میں بیٹھیہوئے حکمران کو اس صوبے کے غریب عوام کی حالت زار کا کچھ اندازہ ہی نہیں کیونکہ جو لوگ ائیر کنڈیشن میں بیٹھے ہوں کروڑوں کی گاڑیوں میں بیٹھ کر اعلانات کرتے ہوں اور ان کے آگے پیچھے ہوٹرز بجتے ہیں انہیں اس صوبے کے پختونوں کی ابتر صورتحال کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہو سکتا اور نہ ہی انہیں عوام کی کوئی فکر ہے اس لئے تو پسے ہوئے عوام سے کہا جارہا ہے کہ رمضان المبارک میں سڑتے رہو عید کے بعد اگر صوبے کے عوام رمضان اور لوڈشیڈنگ سے بچ نکلے تو انہیں نیا " لارالپہ " دیکر سلا دیا جائیگا -

پختون قوم کی علمبرداری کا دعوی کرنے والی پارٹی کے صوبائی رہنماء نے ایک بات اپنے پریس کانفرنس میں اچھی کہہ ڈالی کہ اسلام آباد سے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہیں جو اٹھارھویں ترمیم کی خلاف ورزی ہے اگر حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے پر ڈٹ جائیں لیکن چونکہ انہیں پتہ ہے ان کی "اوقات"نہیں جس کی تصدیق وفاقی وزیر ریلوے نے بھی کی تھی کہ "وفاق ہماری بات نہیں سنتا"تو پھر وقت گزارنے کا فائدہ کوئی نہیں- ساڑھے چارسال تو گزر گئے ہیں خدارا اب تو اس غریب عوام کیلئے کچھ تو کریں اگر حکمرانوں نے بھی غریب غرباء کی طرح پریس کانفرنس کرکے احتجاج کرنا ہے تو پھر ان کے حکمرانی کا فائدہ تو نہیں -اس لئے انہیں باہر نکل آنا چاہیے لیکن شائد ہمارے حکمران چھپڑی چھپڑی اور دو دو "یعنی عوام کو سرما لگانا چاہتے ہیں یا یہ سیاسی ہتھکنڈے آنے والے انتخابات میں عوام کے پاس دوبارہ جانے کیلئے جواز پیدا کرنا ہے -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 425905 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More