بدترین چوری

حضور اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا ”بدترین چوری کرنے والا وہ ہے جو نماز میں سے چوری کرلیتا ہے“۔ صحابہ اکرام ؓ حیرت سے نبی کریم ﷺ کی طرف دیکھنے لگے کہ نماز میں بھلا چوری کسطرح ممکن ہے۔ عرض کیا ، یا رسول اللہ ﷺ ! نماز میں سے چوری کس طرح ہو سکتی ہے۔ آپﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا جس کا مطلب یہ تھا کہ ۔نماز کے ارکان اچھی طرح ادا نہ کرنا نماز میں چوری کرنا ہے۔

آپﷺ نے ارشاد فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں۔ جو شخص ان نمازوں کے لئے اچھی طرح وضو کرتا ہے، نمازوںکوان کے مستحب وقت میں ادا کرتا ہے، رکوع ، سجوداطمینان سے کرتا ہے اور پورے خشوع سے پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کی ضرور مغفرت فرمائیں گے۔ اور جو شخص ان نمازوں کو وقت پر ادا نہیں کرتا اور نہ ہی خشوع سے پڑھتا ہے تو اس سے مغفرت کو کوئی وعدہ نہیں۔ چاہیں مغفرت فرمائیں چاہیں عذاب دیں“۔

نماز کی ایک چوری تو یہ ہے کہ آدمی نماز ہی نہ پڑھے، یہ وہ چوری ہے جس کے لئے سخت ترین عذاب ہے ۔ دوسرے چوری یہ ہے کہ آدمی نماز تو پڑھے مگر بے دلی سے ، جلدی جلدی رکوع اور سجدے کرنا ، جلدی جلدی تسبیحات پڑھنا اور تیزی سے قرآ ت کرنا یہ سب عمل نماز کی چوری میں داخل ہیں۔حکم ہے کہ ”جب تم نماز پڑھو تو یہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے “۔ جب یہ حقیقت سامنے ہو تو پھر جلدی کے کیا معنی۔ نماز کا ایک ایک رکن احترام اور وقار سے ادا ہونا چاہیئے۔

ہم نماز پڑھتے ہیں تو دل میں طرح طرح کے وسوسے اور خیال آتے ہیں ، آدمی سوچتا ہے کہ بھلا اس نماز سے کیا فائدہ ہوگا، بتایا گیا ہے وسوسے تو آتے ہی رہیں گے۔ خبردار! ان وسوسوں کی وجہ سے نماز نہیں چھوڑنا چاہیئے، کیونکہ یہ وسوسے شیطان کی طرف سے دھیان ہٹانے کے لئے ہوتے ہیں ،شیطان نمازی کے دل میں یہ وسوسے ڈالتا ہے ، ایسی ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو نمازی کونماز سے پہلے یاد نہ تھیں، یہاں تک کہ نمازی کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں ہوئی ہیں۔لہٰذا نماز میں یہ توجہ ہونی چاہیئے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یہی کیا کم شکر کی بات ہے کہ ہمارے اعضاء رکوع و سجود میں لگے رہتے ہیں ، زبان آیات الٰہی کی تلاوت کرتی رہتی ہے۔

حضرت ابوذر غفاری ؓ نے ارشاد فرمایا کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے تین باتوں کی تاکید کی ، لوگوں نے پوچھا وہ کیا۔ آپ نے فرمایا نماز میں اس طرح نہ بیٹھنا۔ یعنی ایک پیر کا تلوا، دوسرے پیر کے تلوے پہ رکھ کر ، یا ایڑیوں پر بیٹھنا منع ہے ۔ مردوںکو حکم ہے داہنے پیر کا پنچہ کھڑا رہے اور بائیں پیر کے پنجے کو لیٹا کر اس پر بیٹھو۔ عورتوں کے لئے حکم ہے کہ بیٹھتے وقت داہنی طرف دونوں پیر نکال لیں۔

حضرت ابوذر غفاری ؓ نے فرمایا ۔ دوسرا حکم اللہ کے رسول ﷺ نے یہ دیا کہ جب سجدہ کرو تو مرغ کی طرح ٹھونگیں نہ مارتے جاﺅ۔ ایک کے بعد دوسرا سجدہ فوری نہ کرو، دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر بیٹھو ۔ جتنی دیر میں یہ تسبیح پڑھی جاتی ہے ” اللھم اغفرلی وارحمنی وارزقنی و العا فنی“۔پھر اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب سجدہ کرو تو اس طرح نہ بچھ جاﺅ جس طرح لومڑی بچھ جاتی ہے ۔ مردوں کےلئے حکم ہے کہ سجدے میں کہنیاں زمین سے اونچی رہیں، عورتوں کو کہنیاں زمین پر ٹیک (رکھ)کر سجدے کرنے کا حکم ہے۔

فرض اور سنتیں پڑھ لینے کے بعد جب نفلیں پڑھنے کا وقت آتا ہے تو عام طور پر لوگ نفلیں بیٹھ کر پڑھتے ہیں اس کی اجازت تو ہے لیکن بہترہے کہ نفلیں بھی کھڑے ہوکر ہی پڑھی جائیں۔

ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نفلیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ ام المومنین ؓ نے جواب دیا کہ ہاں جب رسول اللہ ﷺ کی عمر بہت زیادہ ہوگئی اور کمزوری بڑھ گئی تو اس وقت آپ ﷺ نفلیں بیٹھ کر پڑھنے لگے۔

مکی زندگی کے ابتدائی دنوں میں امام انبیاءﷺ رات رات بھر جاک کر نفلیں پڑھا کرتے تھے ، نفلوں کی کثرت سے آپ کے پیر سوج جاتے تھے۔ لیکن آپﷺ کھڑے ہوکر ہی نماز پڑھا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر صحابہ اکرام ؓدبی زبان سے عرض کرتے کہ آپ ﷺ اتنی ریاضت نہ کیا کریں تو ارشاد ہوتا ۔”کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں“۔ نفلی نماز یں شکر گزاری کی علامت ہیں اس لئے بلا عذر نفلیں بیٹھ کر پڑھنا مناسب نہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں ایک مرتبہ جب جبرائیل علیہ السلام ایک اجنبی شخص کی شکل میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کے بارے میں سوال کیا ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” اسلام یہ ہے کہ تم (دل و زبان سے) اس بات کی شہادت ادا کرو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ نماز پڑھو، زکٰوة ادا کرو، حج اور عمرہ کرو، جنابت سے پاک ہونے کے لئے غسل کرو۔ وضو کو پورا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ حضرت جبرائیل علیہ السلا م نے پوچھا جب میں یہ سارے اعمال کرلوں تو کیا میں مسلمان ہوں گا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا آپ ﷺ نے سچ فرمایا۔

اللہ تعالیٰ نے معراج کی رات امام انبیاءخاتم النبین حضرت محمد ﷺ کو امت کے لئے نماز کا تحفہ عطا فرمایا ۔سورة عنکبوت میں اللہ فرماتا ہے ”بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے“۔ آئیے عہد کریںکہ اللہ کے اس تحفہ پر اس کا شکر اداکرتے ہوئے ہم تمام نمازیں ان کے اول وقت میں جماعت کے ساتھ پورے احترام اور وقارکے ساتھ ادا کریں گے ۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے اور دین ودنیا اور آخرت میں خیر و برکت اور عافیت عطا فرمائے۔ آمین

(ماخوذ : قران کریم۔ مسند احمد۔ طبرانی ۔ ابوداﺅد ۔ ابن خزیمہ)
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 303758 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.