دختر پاکستان

عبد الستار اعوان

والٹیر کا یہ جملہ کتنا بامعنی اور پرازحقیقت ہے کہ ”جس قوم کے نوجوانوں میں علمی ذوق اور تجسسس پہلی ترجیح بن جائے اسے اپنے مستقبل کے متعلق ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے “۔ آج جب کہ و طن عزیز میں مغربی یلغار ،کفر و الحاد اورسماج دشمن عناصر نے پورے ماحول کو سراسیمہ کر رکھا ہے چند نوجوان اہل علم اور اہل قلم ایسے بھی ہیں جواس شکستہ اور مایوس کن فضاءکی پرواہ نہ کرتے ہوئے میدا ن عمل میں اتر چکے ہیں اور اپنی تمام تر توانائیاں بہتر اور صحیح سمت صرف کر نے میں مگن ہیں ، کوئی مانے نہ مانے لیکن ان لوگوں کی محنتوں کے مثبت اثرات بہرحال معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں ۔یہ خیالات اس وقت ہمارے ذہن میں انگڑائی لینے لگے جب چند روز پیشتر کراچی سے نوجوان قلم کار عظمت علی رحمانی کی جانب سے بھجوائی گئی اپنی تاز ہ تالیف”دخترپاکستان“ہمارے ہاتھوں میں پہنچی ،یہ ان کی صرف چاہت اور مودت ہی تھی کہ انہوں نے ایک پسماندہ خطے کے کمزور سے لکھاری کو اس قابل جانا اور اتنے دور سے یہ کتاب بصد خلوص بذریعہ ڈاک بھجوا ڈالی ۔ عظمت علی رحمانی ایک سنجیدہ ، فہمیدہ اور دینی و عصری علوم سے بہرہ ور نوجوان ہیں ، قلم سے چاہ کا رشتہ ہے اور ان کی تحریریں ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں ذوق سلیم اور طبع مستقیم کے لیے سامان بنتی رہتی ہیں ، اس نوجوان کے قلمی شہہ پارے اپنے اندر گہری تاثیر لیے رکھتے ہیں ۔ جب ا ن کی یہ کتاب چھپ کر جلوہ گر ہوئی تو اس نے جلد ہی نام وری حاصل کر لی۔ ”دختر پاکستان“ آئی ٹی کے میدان میں عالمی شہرت پانے والی کم عمر بچی ،مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ارفع کریم رندھاوا (مرحوم) پر ملک کے مختلف قلم کاروں و دیگر شخصیات کے جذبات و احساسات کا مجموعہ ہے ۔مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جنابِ رحمانی نے گلشن کلام کے لاتعداد پھولوں کو ، ان کی رنگت اور خوشبو کو یکجا کر کے ایک ہی پھول میں سمودیا ہے اور ”قوس قزح “سے رنگ مستعار لے کر اپنی اس تالیف کو جگمگا سا دیا ہے ۔ رحمانی صاحب کی یہ تالیف ایک جداگانہ شان و شوکت کی حامل ہے، 368صفحات پر مشتمل اس کتاب کو ایک کالم میں سمو نا بہت مشکل ہے، انہوں نے اس میںملک کی چوٹی کی شخصیات کے پیغامات بھی شامل کیے ہیں ۔ آج کے ایسے کٹھن اور جاں گسل ماحول میں اس طرح کے جذبات لے کر میدان عمل میں اترنا یقینا تسکین کا باعث ہے، عظمت علی رحمانی کی اس کاوش سے ثابت ہوا چاہتا ہے کہ باری تعالیٰ نے ان میں ”تخلیق اور تحقیق“کا جذبہ وافر مقدار میں ودیعت فرما رکھا ہے ۔ مختلف قلم کاروں کی تخلیقات اور سیاسی ، سماجی و مذہبی شخصیات کے ارفع کریم کے متعلق خیالات پر مبنی اس مجموعے کو خوب عوامی پذیرائی مل رہی ہے اور اہل علم کے ہاںتو بطور خاص اسے پسند کیا جا ر ہاہے ۔ گوکہ یہ کتاب علم و فن سے شغف رکھنے والوں کے لیے ایک اہم ، نادر اور موثر نسخہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں بعض مقامات پر قاری ذہنی خلجان میں مبتلا سا ہو کر رہ جاتا ہے اور کہیں کہیں چبھن سی محسوس ہونے لگتی ہے ، مثلاً ایک صاحب رقمطراز ہیں کہ مجھے فلاں شخص کے انتقال کی ”منحوس کن“ خبر فون پر ملی، یہاں پر منحوس جیسے الفاظ کا استعمال کسی طور پر نہیں جچتا ، اسی طرح یہ صاحب بار بار کسی مرحوم کا تذکرہ کرتے ہوئے اسی بات کی رٹ لگائے جارہے ہیں کہ ہم نے کئی راتیں اکٹھے گانے گا کے گزاردی تھیں۔ لاحول ولاقوة۔۔۔مرحوم کی شان میں کس اندازسے موتی لٹائے جا رہے ہیں،ایک اور قلم کاربھی اپنے علمی زعم میں بہت آگے چلے گئے ہیں،ان کے نزدیک مذہب کی کوئی قدو قیمت ہی نہیں اور حقیقی معنوں میں انسانیت کی خدمت وہی ہے جومذہب سے” بالاتر“ ہو کر کی جائے ۔ جنابِ ِرحمانی اگر اس طرف تھوڑی سی بھی توجہ دیتے تو یقینا ان بڑی غلطیوں اور نقائص سے بچا جا سکتا تھا ،تسلیم شد کہ رحمانی صاحب نے لکھاریوںکے مضامین کو من و عن شائع کر دیا ہے تاہم جس طرح سے وہ دینی علوم سے آشنا ہیں انہیں کم ازکم اس طرح کے ”مذہب بیزار“ جملو ں کو ایڈٹ کرنے کا پورا پورا حق تھا، کچھ ایسی ہی فضاءمیں نوید مسعود ہاشمی کا مضمون منفرد نظر آیا، انہوں نے بجا لکھا کہ ” ارفع کریم جس پروردگار کی تخلیق تھی ،خود اسکی عظمتوں کا کیا حال ہوگا ۔۔؟ جب تخلیق کرنے والی مقدس ذات نے اسے اپنے پاس بلالیا تو پھر ہم کون ہوتے ہیں شکوہ کرنے والے ، اس کے جنازے کی جھلکیاں دکھا کر مایوس کن گانے چلانے والے ، کسی کے مرجانے پر سوگ منانے کے بھی شرعی اندازو اطوار ہمیں اسلام نے سمجھائے ہیں ، اگر ہم کسی مرنے والے کا سوگ اسلامی انداز سے منائیں گے تو وہ سوگ کہلائے گا وگرنہ وہ روگ بن جائے گا“۔ کتاب میں کمپوزنگ کی بھی غلطیاں رہ گئی ہیں جس سے پڑھنے والے پر ایک الجھن اور کھینچاﺅ کی سی کیفیت طاری رہتی ہے، امید ہے آئندہ ایڈیشن میں ان چند نقائص کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ قلم کاروں میں اگر مفتی ابو لباہ شاہ منصور ، شیخ منظر عالم، وصی شاہ ، زاہدہ حنا ، طیبہ ضیاءچیمہ ، سبوخ سید کی تخلیقات بھی بہت خوب ہیںتوپروفیسر انجم النساء، ثمینہ امجد رندھاوا ، نورالہدی ، ندیم نظر ، کاشف حفیظ صدیقی کے مضامین بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیںاور آخری صفحات پر منظوم کلام بھی کتا ب کے حسن میں اضافے کا سبب بنا ہے ۔ علاوہ ازیں دیگر نامور شخصیات نے بھی اس موضوع پرخوبصورت گفتگو کی ہے اور عظمت علی رحمانی کے اس کام کو اور ان کی” عظمت “کواز حد سراہا گیا ہے ۔بہر کیف اس کتاب کے مولف کی یہ ہمت اور کوشش کسی نہ کسی طرح ”حیرت “کے ساتھ جا ملتی ہے اوروہ ”اعتراف خدمت “کا پورا پورا حق رکھتے ہیں، انہوں نے اس بہترین دستاویز کا انتساب بھی بہت خوبصورت پیرائے میں اپنے والدین ، اساتذہ کرام ، اپنے دوستوں اور تمام محب وطنوں کے نام کیا ہے ۔ جناب ِرحمانی نے جس محنت ، جانفشانی اور جانکاہی کے ساتھ یہ کتا ب مرتب کی ہے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اسے ایک بار ضرور پڑھاجائے۔
Azmat Ali Rahmani
About the Author: Azmat Ali Rahmani Read More Articles by Azmat Ali Rahmani: 46 Articles with 54944 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.