نوجوانوں کو مثبت تبدیلی لانا ہو گی

ہمارا قومی شناخت کارڈ ہماری شناخت کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شہری ہوناظاہر کرتا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان یعنی اسلامی سلطنت ۔اس نام سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ اس ملک میں اسلامی نظام رائج ہو گا جہاں عدل و انصاف و مساوات کا بول بالا ہو گا ۔لیکن اگر حقیقت پر غور کیا جائے تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس ملک کو صرف نام کا اسلامی ملک بنا دیا گیا ہے باقی اس میں حقیقی اسلامی نظام کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا ۔خود کو اسلامی جمہوریہ قرار دینے والے اس ملک میں موجودہ وقت کی ہر معاشرتی و اخلاقی برائی پائی جاتی ہے ان برائیوں کا سب سے زیادہ نشانہ نوجوان نسل بن رہی ہے ۔نوجوانوں کو نشہ ،جوا،بدکاری ،چوری چکاری و دیگر برائیوں میں لگا دیا گیا ہے ۔غیر اسلامی قوتوں نے اپنے دور رس حکمت عملی کے تحت بحیثیت قوم ہم سے احساس ذمہ داری کے علاوہ اسلامی اقدار کو بھی چھین کر ہمیں موج مستی میں لگا دیا ہے ۔قرآن مجید جو ہم مسلمانوں کو ہدایت دینے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے سے ہم اس قدر دور ہو چکے ہیں کہ جنہوں نے بچپن میں گھر والوں کو زور سے قرآن مجید ایک بار مکمل پڑھا تھااس کے بعد اب تک اسے دوبارہ پڑھنے سے قاصر ہیں تو ہمیں ہدایت کیسے ملے ۔ملک کا نوجوان دن بدن اخلاقیات کی حدود بھی پار کر رہا ہے ۔موجودہوقت میں نوجوان دن چڑھے اٹھنا پسند بھی کرتا ہے اور اس پر فخر بھی کرتا ہے ۔ایس ایم ایس اور کال پیکجز نے ہمیںکسی اور کام کا نہیں چھوڑا ۔گھر میں والدین پر احسان کرتے ہوئے ہم تین نا سہی دو وقت کھانا ہی کھا لیتے ہیں ۔سکول،کالج ،یونیورسٹی یا دفتر میں وقت گزاری کر کہ ہم واپس لوٹ آتے ہیں ،موجودہ وقت میں خصوصاً نوجوانوں کو انٹر نیٹ کے بے جا استعمال کے علاوہ ،کیبل ،موبائل،سنوکر کے علاوہ دیگر کھیلوں نے جہاں بری طرح متاثر کیا ہے وہاں بے جا سیروتفریح کیلئے ہفتوں گھر سے باہر رہنے نے بھی کسی کام کا نہیں چھوڑا۔کمپیوٹر چیٹنگ اور موبائل پر راتوں جاگ کر گپ شپ کرنا ایک معمول سا بن گیا ہے ۔ایسا ہر ایک تو نہیں لیکن ہمارے ہاں آدھے سے زیادہ نوجوان ایسے نوجوان کر ہے ہیں جن کے پاس یہ سہولیات پہنچ چکی ہیں ۔نوجوانوں کا طرز زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے ۔

غورکیا جائے تواندازہ ہو گا کہ ہم ایک ایسی دلدل میں گھستے جا رہے ہیں جہاں سے نکلنا ممکن نہیں ۔ہمارا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے ۔ملک میں موجود 7سے8کروڑ نوجوانوں میں سے 2کروڑ نوجوان تو کسی نہ کسی حد تک غیر اسلامی قوتوں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں اور یہ رفتار بہت تیزی سے بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ہم ملک وقوم کے بارے میں سوچنے سے قاصر ہیں ہیں ہی ساتھ ہی اسلامی نظام سے دوری کی وجہ سے ایسے چھوٹے چھوٹے مثائل میں بھی الجھے ہوئے ہیں جن سے اسلامی نظام میں نکلنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا ۔اس قوم کی بدبختی ہے کہ اس دنیا میں واحد تسلیم شدہ ایٹمی ملک ہونے کے باوجود ہم بجلی جیسی بنیادی سہولت سے تقریباً محروم ہیں ،ہمارا شمار دنیا میں گندم پیدا کرنے والے چند بڑے ملکوں میں ہوتا ہے لیکن حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے آٹا یا تو بہت زیادہ مہنگا ہے یا مل ہی نہیں رہا ہوتا ۔دنیا کا سب سے بڑا زرعی نظام موجود ہونے کا تو ہم دعویٰ کرتے دیر نہیں کرتے لیکن سیلابوں والے اس ملک میں ہم منگلا اور تربیلا کے علاوہ تیسرا بڑا ڈیم ہی نہ بنا سکے ہیں جس وجہ سے ہمارے زرخیز میدان بنجر ہو چکے ہیں ،کسانوں کو پانی مل نہیں پاتا تو پیداوار کیسے مارکیٹ میں آئے ۔۔؟کوئلہ ،تانبا،نمک ،زرقون ،زمرد ،یاقوت،،سونا ،تیل ،گیس کے وسیع ذخائز رکھنے والے اس ملک میں بجلی و پانی جیسی بنیادی سہولت بھی ناپید ہے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے ہم مزید قرضے کے کے طلب گار رہتے ہیں ۔خود کش دھماکوں نے ملک کو برباد کر کہ رکھ دیا ہے ۔اسلام امن،محبت و چاشتی کا درس دیتا ہے لیکن مسلمانوں کو دہشت گردی کا جو لیبل لگ چکا ہے اس سے چھٹکارا کون دلوائے گا ۔۔؟کیا اس کی ذمہ داری نوجوان نسل جو ملکی آباد ی کا تقریباً 60فیصد ہیں پر عائد نہیں ہوتی کہ ہم مثبت و متحد سوچ کو اپناتے ہوئے تبدیلی لا نے میں کردار ادا کر سکیں ۔؟

نوجوان روزانہ اپنے ملکی نظام کی خرابیوں اور سیاستدانوں کو برا بھلا کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات کا ذمہ دار ''یہ''یا ''وہ''ہیں مگر ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ایسے نااہل لوگوں کا ہم خود انتخاب کر کہ سامنے لاتے ہیں جو کرپٹ یا داغدارکردار کے مالک ہوتے ہیں ۔ہمارے ہاں جو غیر اسلامی جمہوری نظام رائج ہے اس میں لوگوں کو تولا نہیں گنا جاتا ہے مطلب نگ پوری کی جاتی ہے اسی وجہ سے تو ایک عالم و فاضل کا وﺅٹ اور ایک چور و سمگلر کا وﺅٹ برابر ہوتا ہے ایسے نا انصافی پر مبنی نظام میں جو لوگوں کے ضمیرو وﺅٹ خرید کرسامنے آتے ہیں ایسے لوگ عو ام و اسلام کی نہیں بلکہ اپنی خدمت کرتے ہیں ۔

آج ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کل ہمیں ملک کی ضرورت تھی آج اس ملک کو ہماری ضرورت ہے ،نوجوان اس ملک کی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ ہم ماضی تو نہیں بدل سکتے لیکن مستقبل کو بہتر کیا جاسکتا ہے ، نوجوانوں کو چاہیے کہ اسلامی نظام کے خلاف ہونے والی غیر مسلموں کی سازشوں کے خلاف متحد ہوجائیں ، غیر مسلموں کی طرف سے دی جانے والی سہولیات کا استعمال اسلام ، ملک وقوم کی بھلائی کیلئے کریں ،اپنے وقت کو درست استعما ل کریں ، انفرادی طور پر اپنی اخلاقی اصلاح کرتے ہوئے اس نام نہاد جمہوریت سے چھٹکارا حاصل کر اپنے انتخاب کو اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے درست اور میرٹ پر رکھنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح ایک ایسا پر امن معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے جہاں مساوات و قانون کی بالا دستی ہو ایسا تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ہم میں سے ہر کوئی قانون کی پاسداری اور ایمان داری سے زندگی بسر کرے گا ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59626 views Columnist/Writer.. View More