ہمارا معاشرہ`خواتین کو ہراساں کرنا اور قانونی بل کی حیثیت

پاکستانی معاشرے میں ملکی قوانین کا جس طرح ہم لوگ مذاق اڑاتے ہیں شائد ہی کسی باشعور اور تعلیم یافتہ معاشرے میں کسی نے اڑایا ہو قوانین خواہ و ہ ملکی ہو یا اسلامی - کہنے کو تو ہمارے ہاں ہر ایک کو آزادی ہے ایسی آزادی جو آئین پاکستان نے ہر ایک کو دی ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ فائدہ ایلیٹ کلاس اٹھا رہا ہے - جو آئین اور قانون کے نام پر سب کچھ کررہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ معاشرتی بے حسی بڑھنے کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ مسلسل بگاڑ کا شکار ہے اور اس بگاڑ میں روزافزوں اضافہ ہورہا ہے خواتین ہمارے معاشرے کا 52 فیصدآبادی پر مشتمل ہے انہیں معاشرتی ذمہ داریوں میں مواقع دینے کا حکم نہ صرف ہمارے مذہب اسلام نے دیا ہے بلکہ ہمارے پختون معاشرے میں بھی ان کے حقوق ہیں لیکن یہ حقوق انہیں کس بنیاد پر مل رہے ہیں اور خواتین آج کن مشکلات سے دوچار ہے اس کا اندازہ ان خواتین کی حالت سے کیا جاسکتا ہے جو باعزت روزگار کے لئے گھروں سے نکلتی ہیں اور انہیں نامساعد حالات کا شکار ہونا پڑتا ہے -

موجودہ حکومت جو اپنے آپ کو خواتین کو حقوق دینے کے حوالے سے چیمپئن گردانتی ہے نے خواتین کو ہراساں کئے جانے کے واقعات کی روک تھام کیلئے قانون منظور کروایاجس کا مقصد عورتوں کواپنا کام سر انجام دینے کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے جو خوف و ہراس ،بیہودگی اور تخویف سے پاک ہو تا کہ وہ وقار کے ساتھ کام کرنے سے متعلق اپنے قانونی حق کی تکمیل کریں۔ جس سے مقام کاراعلیٰ پیداواری حصول اور ایک بہتر معیار زندگی کو بھی قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ کام کرنے والی اکثر عورتوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی خوف و ہراس ہے جو انہیں اور ان کے خاندان کو غربت و فلاس سے نکالنے کے لیے جو کام کرنا چاہتی ہیں۔ یہ بل اس ملک کی ترقی کے لیے ہر سطح پر عورتوں کو پوری طرح شرکت کرنے کے راستے کھولتا ہے ۔لیکن اس بل کے آنے کے باوجود یہاں پر خواتین کی مشکلات کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا سکتا ہے-

ایک ماہ قبل پشاور میں کام کرنے والی ایک بین الاقوامی امدادی ادارے میں کام کرنے والی خاتون ورکرز نے مقامی انگریزی اخبار میں اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک مرد ساتھی کی جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے واقعے کی شکایت کردی جس میں متعلقہ خاتون جن کا تعلق پشاور کے ایک اعلی خاندان سے ہے اورپڑھی لکھی خاتون ہے نے الزام لگایا کہ وہ ایک بین الاقوامی امدادی ادارے میں ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے میں تعینات تھی جہاں پر ان کے مرد باس اسے جنسی طور پر ہراساں کرتے تھے اور اس کے ٹیکسٹ میسج بھی اس نے اپنے موبائل میں محفوظ رکھ کر اپنے دفتر میں شکایت کی لیکن اس معاملے میں کچھ نہیں ہوا اور وہ خاتون ابھی تک اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں اور ابھی تک اس معاملے میں کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا- یہ واقعہ ایک بہت بڑے بین الاقوامی امدادی ادارے میں کام کرنے والی خاتون کا ہے یہ ادارہ سوشل سیکٹر میں بہت کام کررہا ہے اور مختلف منصوبوں پر خواتین کے حقوق کے حوالے ے علمبرداری کا دعویدار بھی ہے لیکن اندرون خانہ کیا ہورہا ہے اس اندازہ آپ کو اس خاتون کی تحریر سے بھی لگ سکتا ہے جن کو ابھی تک کوئی انصاف نہیں مل سکا ہے جبکہ دوسری طرف اس شکایت پر اسے روزگار سے ختم کئے جانے کا بھی خطرہ ہے -

بل میں اس بات کی بھی منظوری دی گئی ہے کہ خواتین کے انہی مسائل کو حل کرنے کیلئے صوبائی سطح پر محتسب کام کرے گا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ صرف باتوں یا پھر اخبارات میںخبریں چھپنے کی حد تک ہے - خیبر پختونخوا حکومت نے خواتین کے انہی مسائل سے نمٹنے کیلئے صوبائی وومن کمیشن قائم کیا لیکن 12 افراد پرمشتمل خواتین کمیشن میں صرف سات ممبران اس وقت ممبر ہیں ابھی تک صوبائی وومن کمیشن اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکی -جبکہ ان میں اپنے پسند کے ممبران ڈالنے کیلئے حکومت کے ایک اعلی عہدیدار نے دو نام بھیج دئیے ہیں لیکن ابھی تک ان کی باقاعدہ تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی دووسری دو سال گزر نے کے باوجود وومن کمیشن کے قیام کو لیکن ابھی تک اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ابھی تک کہ اضلاع کی سطح پروومن کمیٹیاں قائم نہیں ہوئی-افسوسناک امر یہ ہے کہ جوادارے خواتین کے حقوق کی علمبرداری کرتے ہوئے نہیں تھکتی اس معاملے میں خاموش ہیں اور کوئی پیش رفت ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی - دوسری طرف بین الاقوامی امدادی دارہ اپنے آپ کو پاکستانی قوانین سے بھی بالاتر سمجھ رہا ہے اسی وجہ سے اس کیس میں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی -اس واقعے کے بعد بین الاقوامی امدادی ادارے نے اپنے ملازمین پر سختیاں شروع کردی ہیں اور باقاعدہ ان کے فون ریکارڈ کئے جارہے ہیں اور ملازمین کی جاسوسی ان کا اپنا ادارہ کررہا ہے کہ کون ملازم اس حوالے سے میڈیا کو رپورٹیں دے رہا ہے - یہ صرف ایک واقعہ ہے جس کی نشاندہی ہوئی ہے لیکن اس کی روک تھام کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جارہا -ایسے سینکڑوں واقعات ہورہے ہیں لیکن جب معاشرے میں بے حسی بڑھ جائے اور وہ بے حسی خصوصاخواتین کے حوالے سے ہو تو پھر کوئی پاگل ہی اپنے حق کیلئے آواز اٹھاتا ہے -

سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے زیادہ تر این جی اوز میں ہراساں کئے جانے کے واقعات کی تحقیقات کیلئے کوئی کمیٹی قائم ہی نہیں جبکہ جو کمیٹیاں قائم ہیں وہ اس وقت حرکت میں نہیں اسی باعث خواتین کو ہراساں کئے جانے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے جو ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اگر آج ہراساں کئے جانیوالی کسی اور کی بہن/ بیٹی ہوسکتی ہے تو پھر یہ معاملہ ہمارے اپنے ذات پر بھی آسکتا ہے - جس کیلئے ہمیں ابھی سے تیاری کرنا ہوگی -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 426234 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More