زبان کوہسار کا ارتقاء اور نعت گوئی کی روایت

 یہودیت اس بات پر شاداں وفرحاں ہے کہ بائیبل کی حضرت سلیمان سے منصوب بائیسویں کتاب غزل الغزالات جیسی ادبی تحریر کا شاہکار دنیا کی کوئی قوم اپنی زبان میں پیش نہیں کر سکی ہے۔ مگر حرا کی خلوتوں سے دنیا کے جس بڑے انسان کو خدا ئے کائنات کی طرف سے نسخہ کیمیاء ملا اس نے تو عرب کے صحرانشیوں کو خبر ،حضر اور اذان سحر میں ہی یکتا نہیں کیا بلکہ ان کی خلوت وجلوت سے لے کر ثقافت اور زبان کو بھی علمی رفعتوں سے آشنا کیا بات اسی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ خدا کے اس پاکیزہ کلام میں جس قوم کوبھی خطاب کیا وہ بھی انقلابی بن گئی اور مردہ بولیاں بھی قرآن کے اعجاز سے دنیا کی امیر ترین زبانوں میں ڈھل کر ام اللسان بن گئیں۔

زبان کوہسار جسے مغربی ماہرین لسانیات نے یہاں کے اکثریتی قبلیوں ڈھونڈ عباسی اور کڑ رالوں کے نام سے ڈھونڈی کڑ اریالی زبان کا نام دیا ہے اس کا سفر قدیم ویدک دور سے آتا ہے یہ زبان بنیادی طور پر ڈوگری، پنچھی اور کیٹھوالی زبانوں کے اشتراق کی پیداوار ہے اور کوہسار کے کامل ترین تہذیب و تمدن کا ایک عنصر بھی، اس کے 80فیصد الفاظ زرعی ہیں اس کی تشبہات و استعارے بھی اپنے اندر زرعی پس منظر میں وسیع ترین مفاہیم سموئے ہوئے ہیں۔ اس نے بر صغیر کی360زبانوں کے لا ولد حرف(ڑ) کو بھی الفاظ کی صورت میں اولاد عطا کی ہے۔ جیسے (ڑیھک،ڑیکا،ڑوک وغیرہ)۔

کوہسار کی ان سرسبز و شاداب وادیوں پر حضرت شاہ علی ہمدان المعروف حضرت امیر کبیر کا بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ڈھونڈ عباسیوں کی کوہسار میں آمد سے ڈیڑھ صدی قبل یہاں پر ہزاروں سال سے مقیم طاقت ور تہذیب و تمدن کے حامل اکثریت کیٹھوال قبیلہ کو مشرف بے اسلام کیا۔ وہ شہاب الدین غوری کے عہد میں راولوں کے دیس سے ہوتے ہوئے کوہسار میں آئے اور ان کی بود و باش،طرز گفتگو اور شخصیت کی ایمانی صفحات سے متاثر ہو کر کیٹھوال قبیلہ نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا۔یوں کہہ لیجئے کہ حضرت سید علی ہمدان نے پوٹھہ شریف مری میں پہلا پڑائو ڈالا وہاں ہی انہوں نے پہلی مسجد قائم کر کے ہندو مت کے شیو مندر میں بجنے والی گھنٹیوں کی جگہ یہاں کے انسانوں اورحیوانات کے علاوہ شجر وہجر کو صدائے اللہ اکبر اور کلام اللہ سے آشنا کیا۔ یہاں سے آگے بڑھ کر وہ سری نگر پہنچے اور آپ کی تبلیغ اشاعت دین سے پورا کشمیر محمدعربی ۖ کے لائے ہوئے دین ونظام حیات کا گرویدہ ہوگیا اور رام وارجن کے کوہسار کشمیر کی جگہ اسلامی تمدن کی حامل نئی ثقافت اور نئی زبان وجودمیں آئی جو نصف صدی قبل تک اپنی حقیقی صورتوں میں ابلاغ کے تمام تقاضے پورے کررہی تھی۔ موجودہ زبان کوہسار علاقے کی حقیقی زبان نہیں اور اب یہ نزع کے عالم میں ہے۔

چودہویں صدی میں کوہسار میں اسلام کیا آیا کہ ڈھونڈی کڑریالی زبان کے بھاگ جاگ اٹھے وہ زبان جو اسلام سے قبل اس طرح کے گیتوں پر جھومتی تھی کہ ''ڑلو،ڑک وے ڑلو،پیلی مک وے ڑلو،دو دو ٹک وے ڑلو،ڑلو آئی وے ڑلو''

اب اسلام کی آمد کے بعدکوہسار کی پہلی مسجد پوٹھہ شریف کو استعاروں میں استعمال کرتے ہوئے سترہویں صدی کے بزرگ سردار سراج خان(پیر ملک سورج خان) اس طرح فرماتے ہیں۔
تاریاں پہری رات،تارا کوئی کوئی
مسیتی گٹھاں چار ،چوتھی ٹہی ہوئی

اور پھر زبان کا یہ سفر آگے چلتا رہا ۔ڈوگرہ سکھ عہد نے کوہسار کی تہذیب وثقافت کا اتنا جنازہ نکالی گیا کہ نومولود بچوں کی بقاء کیلئے نام بھی ہندوانہ طرز پر رکھے گئے بلکہ…نعوذ بااللہ ثم نعوذ بااللہ… قرآن پاک کی آیات ربانی کی بھی پیروڈی کی گئی… لیکن قبائل کی یہ زبان اندر ہی اندرپنپتی رہی اس میں ایک صنف سخن (چن)بھی متعارف ہوئی جو شمالی پنجاب، ہزارہ اورکشمیر کی کسی اور زبان میں نہیں ہے۔ پہلی جنگ عظیم اور پھر دوسری جنگ عظیم میںمائوں کے لخت جگر اور بہنوں کے ویرواپس نہیںآئے تو ان کی یاد میں خدا اور رسولۖ کے نام لے لے کر انہیں یاد کرتیں یہی نوحے (چن) کہلائے۔

اکثریتی ڈھونڈ عباسی قبیلہ سمیت تمام قبائل کوہسار اپنی فطرت کے لحاظ سے دینی فطرت اور ذہن کے حامل ہیں، 30سال قبل تک سرزمین پر قرآن کریم کے علاوہ ''پکی رٹی،نور نامہ،معراج نامہ،سیف الملوم، احوال آخرت اور اسی طرح کی پنجابی حمد و نعت کی کتابیں'' ثواب سمجھ کر پڑھی جاتی تھیں تاہم نئے دور میں ڈھونڈی کڑریالی زبان بھی حمدو نعت کے سرمائے سے مالا مال ہو رہی ہے۔آذرکربلائی بارگاہ رسالت مآبۖ میں اس طرح نغمہ سرا ہیں۔
سوہنے نبی ناں سوہنا ناں
سوہناں ناں تو واری جاں
رحمت کملی آلے نی
کل عالم تھی کیتی جاں
پونچھ کے نعت گو شاعر آل عمران اپنے نبیۖ کی یوں ثناء خوانی کرتے ہیں۔
میں مراں محمد نی غلامی وچ
ماڑے دلے چ ژو چاہت ای
میں مائوں کنیں مدینہ دکھی مراں
مھاڑی ہر ویلے ژو حسرت ای

اس زبان کو جس شاعر نے نعت میں ڈھال کر جو رفعتیں عطاء کی ہیں وہ انہیں کا خاصہ ہیں یہ شاعر مسعود آکاش ہیںپیشہ کے اعتبار سے وکیل اور جھیکا گلی میں پریکٹس کرتے ہیں اپنے دیوان عکاش میں انہوںنے ان الفاظ میں اپنے نبی محترمۖ کو عقیدت کا نذرانہ پیش کیا ہے۔
ہوائے مدینہ ژے میکی راس ژے
اتھیں سویر جندڑی اداس ژے
آقا پیتا جس وچ ہک وار ژے
جام جم کولا ودھیا مکی او ٹاس ژے
رفعنا لک ذکرک جس کی آخیا
او ہستی اللہ نی بنو ژے خاص ژے
آقا! ککھ نا پلے آکاش نیں
لگی ہک تساں نی ژے آس ژے

مری کے ہی شاہد لطیف ہاشمی ایڈووکیٹ بارگاہ رسالت مآبۖ میں اس طرح آداب بجا لاتے ہیں۔
رحمتاں نیں بدل برہنے
سوہنے شہر مدینے وچ
نبیاں نیں سردار
بسنے مہاڑے سینے وچ

ڈھونڈی کڑریالی زبان کو نبی آخر الزماںۖ کی سیرت سے نثر میں بیروٹ سے تعلق رکھنے والے محبت حسین اعوان نے2006ء میں'' اساں نیںنبی پاکۖ ہور'' لکھ کرمالا مال کردیا ہے۔نبیۖ کے صدقے ہی اس کتاب پر 2008ء میں انھیں سیرت ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔اب راقم الحروف قرآن حکیم کا گزشتہ چار سال سے ڈھونڈی کڑریالی زبان میں '' اللہ ناں سنہیا'' کے نام سے ترجمہ کی جسارت کررہا ہے ابھی تک چار پارے ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نبی پاکۖ کی تعلیمات پڑھنے ،سننے اورسیکھنے کی توفیق دے اور نزع کے عالم میں موجود ڈھونڈی کڑریالی زبان کو زمانے کی دست برد سے محفوظ رکھے۔
ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد

( کتابیات… کتاب مقدس ،پاکستان بائیبل سوسائٹی1977ء ،اساں نے نبی پاک ہور از محبت حسین اعوان 2006ئ،تاریخ مری از نور الہیٰ عباسی،اشاعت جدید، پہاڑی لوک گیت از ڈاکٹر صغیر خان)
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 59276 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More