حکمرانوں کی بوکھلاہٹ

ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، ہم عدالتوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہم عدالتوں کا حکم مانتے ہیں، ہم آزاد عدلیہ کے حق میں ہیں اور تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیئے وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ سنہری کلمات ہیں جو ہمارے حکمرانوں کے منہ سے جھڑتے پھول ہیں یا ڈائن کی مکاریاں؟ میں کئی دفعہ لکھ چکا ہوں کہ MQM کی تاسیس اور اس کا ماضی بڑا بھیانک ہے۔ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیئے بے بس لاچار پی پی کی قیادت کی مجبوریوں سے اپنے من مانے کاموں کی تکمیل کے لیئے پی پی کو اپنے گھٹنوں تلے دبا ئے وہ سب کچھ حاصل کررہے ہیں جسکا انہوں نے کبھی خواب بھی نہ دیکھا تھا۔ اب اس ملک میں صرف مسئلہ ہے تو وہ زرداری ہے۔ جسکی خاطر پی پی کی ساری قیادت سوائے چند باشعور مخلص افراد کے زرداری کی ہر جائز و ناجائز خواہش کے پورا کرنے میںایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

چمڑی جائے دمڑی نہ جائے۔یوسف رضا گیلانی نے جان نثاری کا ثبوت دیا۔ اب راجہ صاحب کیا کرتے ہیں؟ جناب ایک صوبیدار صاحب کے فرزند ارجمند ہیں ۔ پوٹھوہار کے اکثر لوگ کا ذریعہ روزگار فوجی ملازمت ہی رہا ہے۔ نوکری کسی کی ہونوکری کرنے میں وفاشعاری کا پیمانہ دیکھ کر انگریز سرکار نے جہاں گیلانیوں کوزمینیں دیں وہاں انگریز کی خاطر لڑنے والوں کو بھی زمینیں دی گئی۔ خیر زمینیں کونسی انگریز کے باپ کی تھیں ۔ راجہ صاحب تو محض ایک پتلی ہیں پس پردہ شخص راجہ صاحب کو کیسے نچاتا ہے۔ پہلے تو رینٹل پاور کا پھندا انکے گلے میں ڈالا تھا جس سے تاحال خلاصی نہیں ہوئی۔ راجہ صاحب کو بھی وزارت عظمی کے عشق نے جھلا کردیا تھا ۔ یہ نہیں سوچا کہ چند روز کی ہے چاندنی پھر اندھیری رات کے مصداق وزارت عظمی تو جائے گی ہی ساتھ ہی قومی اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھوکر مزید پانچ سال کا صبر آزما عرصہ کیسے کٹے گا؟ جو ہونا ہے ہوکر رہے گا۔ مگر راجہ صاحب تیز تر قانون ساز نکلے۔ عدالت کے بارے پی پی کی قیادت کہتی ہے کہ عدالت کو ہمارے مقدمات سننے کی کیا جلدی ہے مگر اب بات عوام سمجھ گئے ہیں کہ کیوں جلدی ہے؟ دوسروں کی آنکھ میں تنکا تو نظر آتا ہے مگر اپنا شہتیر نظر نہیں آتا۔ در اصل پی پی کی قیادت کے گرد قانون کا گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے اور انہیں اپنا انجام صاف نظر آ رہاہے۔ایسے میں بوکھلاہٹ فطری بات ہے اور بوکھلاہٹ میں انسان کا شعور اور عقل بھی اسکا ساتھ چھوڑجاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے آپ کو عقل کل کا مالک سمجھ کر وہ کچھ کرجاتا ہے کہ جس کی پاداش میں اسکی رستگاری کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ یہی حال ہے ہمارے زرداری صاحب، راجہ صاحب ، کائرہ صاحب کا۔ انکے بڑے سپیکر جناب اعوان صاحب اور اعوان صاحبہ نجانے کہاں گئے؟ لگتا ہے عباسی صاحب اور ناہید صاحبہ کی طرح گمنام ہوگئے ہیں۔ زرداری صاحب کو کسی مشیر بے شمشیر نے مشورہ دیا کہ عدلیہ قابومیں نہیں آرہی۔ پرانے وقتوں میں صاحبان اقتدار کے پی اے یا چپڑاسی کا فون چلا جاتا تو جج صاحبان کرسی سے اٹھ کر فون سنتے اوراپنے انجام سے بے خبر تعمیل سرکار کرتے ۔بے حسی اور اپنے فرائض سے روگردانی آخر کب تلک ۔ عدلیہ کو ایسا ہوش آیا کہ ہر طرف بیداری کی لہر دوڑ گئی۔ منصفوں کو اپنے فرائض کا احساس ہوا اور اللہ کے حضور سرخرو ہونے کا عشق غالب آیا۔ عدلیہ کی ایک بات بھی نہیں مانتے، اعلانیہ عدلیہ کی تضحیک کرتے ہیں، عدلیہ کو انتظامیہ کے تلے لگانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں جن میں دو تو سامنے آئیں کہ صدر ، وزیراعظم اور اراکین کابینہ کو انسان سے اپ گریڈ کردیا اور فرشتے بنادیا۔ ملک کے عوام کے لیئے قانون کا پیمانہ اور ان فرشتوں کے لیئے اور۔ جناب رحمة للعلمین ﷺ کا فرمان انہیں یاد نہیں کہ پہلی امتوں کے بڑوں کے لیئے قانون اور ہوتا تھا اور کمزوروں کے لیئے اور جس بنا پر وہ قومیں اللہ کے عذاب کا شکار ہوگئیں۔ ایک حادثاتی اکثریت پر انہیں اتنا غرور ہے کہ ہر کام میںبلا شرم و حیا، خوف و خطر من مانی کر رہے ہیں ، نیٹو سپلائی کھولدی، صلیبیوں اور یہودیوںکی مسلمانوں کے قتل عام میں بھرپور اعانت ، دوسری طرف صلیبیوں کے ڈرون حملوں میں خون مسلم کی ارزانی۔ یہ سب کچھ ان فرشتوں کے نامہ اعمال میں درج ہوچکا ہے جس کا انجام اس دنیا میں انشاءاللہ دیکھیں گے۔دوسری دوہری شہریت سے یہودیوں اور صلیبیوں کے وفاداروں کو اس ملک پر حکومت کرنے کی سند دی۔ جو فرد واحد یہ کام کرارہا ہے اسے مملکت اسلامیہ کے صدر ہونے کا کیا حق ہے۔ میرے ایک دوست نے میرے الفاظ۔۔۔بابا پر مجھے کہا کہ وہ صدر مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ہیں۔ میں نے کہا وہ سینما کے ٹکٹ بلیک کرنے والا کون تھا؟ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے قومی سیاسی رہنماﺅں کو کافی دیر بعد احسا س زیاں ہوتا ہے۔ لیکن جو زیاں اس ملک کو ہوا اور عوام جس ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اسے صدر بنانے کے لیئے جن لوگوں نے ووٹ دیئے تھے کیا وہ معصوم ہیں؟ انہیں سیاسی بصیرت نہیں یا دال میں کچھ کالا تھا۔ عدالت عظمی لال بجھکڑوں کی قانون سازی کے بارے کیا فیصلہ دے گی اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ ملک کا ہر فرد اسے بے وقت کی راگنی کہ رہا ہے۔ اور آخر میں حضور قبلہ پیرنصیرالدین شاہ گیلانی رحمة اللہ علیہ کے یہ اشعار ارباب اقتدار کے لیئے؛

اتنا نہ اکڑ،نہ اتنے جذبات میں رہ حد سے نہ گذر،دائرہ ذات میں رہ اک قطرہ ناپاک نسب ہے تیرا اوقات یہی ہے تیری،اوقات میں رہ۔(سید نصیرالدین شاہ گیلانی)
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 129341 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More